سیاسی سرکس اور جمہوری جگاڑ
حسن نثار
09 مارچ ، 2021
ان اہلِ سیاست کو تو آرام نہیں ہے
کیا اہلِ قلم کو بھی کوئی کام نہیں ہے
مجھے ان کی حیرت پہ حیرت ہے۔ ان نام نہاد کرنٹ افیئرز پر ایسا ہنگامہ بپا ہے جیسے یہ ڈرامے اور نوٹنکیاں پہلی بار جلوے دکھا رہی ہوں۔ الزام دشنام، بلیم گیم، صاف ستھری اور گندی گالیاں، سر پھٹول، دھینگا مشتی، مار کٹائی، تھپڑ لپڑ، خرید و فروخت، بلیک میلنگ، دھوکہ فریب، ہارس ٹریڈنگ، لوٹا گیری تو مدتوں سے ہماری جمہوریت کا حُسن ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کے جتنے طریقے ہم نے ایجاد کئے، دنیا بھر کی جینوئن جمہوریتیں مل کر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کالموں، شہہ سرخیوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
ہوش سنبھال ہی رہے تھے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چلتے دیکھی جس کے دوران ایوب خان کے بارے میں جو لفظ کہا جاتا رہا، اسے استعمال کرنے کی ہمت نہیں اور اگر اس سے بھی کچھ پیچھے جائیں تو جو صدارتی مقابلہ صدر ایوب اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان ہوا، اس کے دوران محترمہ کے بارے جو پلید زبان استعمال ہوئی، میرے ہم عمروں، ہم عصروں کو یاد ہوگی۔
بھٹو مرحوم نے جو تقریری کلچر المعروف عوامی کلچر متعارف کرایا اور پھر ان کے معزز و مقدس سیاسی مخالفین کس حد تک گئے کہ ولدیتوں تک کو چیلنج کر دیا تو میرا خیال ہے اس گندگی کا ریکارڈ تو تلنگے لفنگے بھی آج تک نہ توڑ سکے۔ ضیاء الحق کی اپنی دھمکیاں گالیاں ہوتی تھیں اور ہاں یاد آیا کہ بھٹو صاحب نے عملاً بھی جمہوریت کے حُسن میں خاطر خواہ اضافہ کیا مثلاً بزرگ جے اے رحیم کی اس کے گھر میں ’’عزت افزائی‘‘ اور قصور کے ایک سیاستدان کی خواتین کی تھانے میں پذیرائی وغیرہ ان کی جمہوریت کا حُسن تھے۔
اور پھر جمہوریت کا حُسن اس وقت تو سارے ساؤنڈ بیریئرز ہی توڑ گیا جب شریف خاندان کے دو نوجوان لنگوٹے کس کر نجانے کس کی شہہ پر بےنظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے مقابل میدانِ جمہوریت میں اترے اور بدزبانیوں کی اک نئی تاریخ رقم کی اور اس کا عنوان رکھا....’’شرافت کی سیاست‘‘
یہی نہیں بلکہ کسی نے کسی کا بوڑھا بیمار باپ اٹھوا لیا تو کسی نے کسی کے مجازی خدا کی زبان کاٹنے کا حکم دیا تو برادرانِ ملت! یہ تو ہماری جمہوری دیگ کے صرف چند دانے ہیں جو میں نئی نسلوں کو چکھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ پیارے بچو! سیخ پا اور حیران ہونے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں کہ یہ ساری کی ساری دیگ ہی زہریلی ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے جو دھما چوکڑی چل رہی ہے اس کا رشتہ چھانگوں مانگوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں سے بھی ملتا ہے تو حیرت، ہیجان اور ہذیان کیسا؟ ذرا غور فرمائیں کہ عام زندگی میں کیا ہوتا ہے؟ کاروں سے لے کر سیلولر فونوں تک کا ہر نیا ماڈل گزشتہ ماڈل سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے تو سمجھ لیں کہ یہ 1970ماڈل کی جمہوریت نہیں نہ ہی 90,80ماڈل کی جمہوریت ہے... چشمِ بد دور یہ تو تازہ ترین ماڈل ہے جس میں چند نئے ’’فیچرز‘‘ کا اضافہ لازمی ہے۔
خوبصورت شاعر احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز نے اپنے ایک تازہ ترین بیان میں ’’پیسے کی سیاست‘‘ کا حوالہ دیا اور یہ بھول گئے کہ صرف اولیا، صوفیا، شعرا اور فنکار ٹائپ لوگ ہی ’’پیسے‘‘ کے حوالے سے ذرا بےنیاز ہوتے ہیں ورنہ یہی پیسہ تو زندگی کی پہلی اور آخری حقیقت ہے۔
پیسہ ایک مادی حقیقت نہیں ایک نفسیاتی تصور ہے۔ کیا یہ بہت ہی عجیب بات نہیں کہ انسان صرف اور صرف ایک چیز پر متفق ہے اور وہ ہے ’’پیسہ‘‘۔ نہ مذہب، نہ ملک، نہ رنگت، نہ نسل، نہ زبان، نہ عقیدہ، نہ تاریخ نہ کچھ اور لیکن ’’پیسے‘‘ پر سب متفق ہیں تو آخر اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ یوووال ہراری لکھتا ہے....
دنیا بھر میں 60ٹریلین ڈالر کی رقم موجود ہے جبکہ سکوں اور نوٹوں کو ملا کر یہ مالیت صرف 6ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔ 90فیصد سے زیادہ نقدی یعنی تقریباً 50ٹریلین ڈالر محض کمپیوٹرز میں وجود رکھتی ہے۔ سو زیادہ تر کاروباری لین دین فقط الیکٹرونک اعدادوشمار اور ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر تک منتقلی پر مشتمل ہے۔ اقتصادیات کی تاریخ میں اصل موڑ ہی اس وقت آیا تھا جب لوگوں نے اس ’’پیسے‘‘ پر اعتبار کرنا شروع کر دیا جس کی اپنی کوئی اوقات اور حیثیت ہی نہیں تھی لیکن اسے اکٹھا کرنا اور کہیں بھی منتقل کرنا آسان تھا۔ یہ نقدی سب سے پہلے 3000سال قبل مسیح میں مسیو پوٹیمیا میں نمودار ہوئی جو چاندی کے سکوں کی شکل میں تھی۔
مختصر یہ کہ ہمارا سیاستدان ان پڑھ بھی ہو تو ’’سیانا‘‘ بہت ہے۔ معاف کیجئے میں پھر اک سنجیدہ موضوع کی طرف مڑ گیا حالانکہ اصولاً تو مجھے بھی اس سیاسی سرکس اور جمہوری جگاڑ پر ہی فوکس کرنا چاہئے تھا کہ یہی سکہ رائج الوقت ہے۔