میاں صاحب کا اسلامی نظام اور خان صاحب کی مدینہ اسٹیٹ کہاں گئے؟ ...کس سے منصفی چاہیں.. انصار عباسی

میاں صاحب کا اسلامی نظام اور خان صاحب کی مدینہ اسٹیٹ کہاں گئے؟ ...کس سے منصفی چاہیں......... انصار عباسی

289778_s.jpg

میاںنوازشریف نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اللہ نے انہیں تیسری بار وزیر اعظم بننے کا موقع دیا تو وہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں اللہ کا نظام نافذ کریںگے۔عمران خان نے2013 کی الیکشن مہم کے دوران بارہایہ کہاکہ اُن کا خواب پاکستان کو ایک صحیح اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا ہے۔ خان صاحب مدینہ کی اسلامی ریاست کو اپنا آئیڈیل کہتے اور اُسی نظام کے قیام کا وعدہ کرتے رہے۔ میاں صاحب تیسری بار وزیر اعظم بن گئے اور خان صاحب کی پارٹی کو خیبر پختون خوا میں حکومت مل گئی۔ تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزر گیا۔ یعنی دونوں حکومتوں نے اپنا اپنا نصف دور حکومت مکمل کرلیا مگر نہ میاں صاحب نے اور نہ ہی خان صاحب نے اپنا وعدہ وفا کیا۔ ان ڈھائی سالوں کے دوران پاکستان میں اللہ کا
نظام قائم کرنے کےلیے میاں صاحب نے کوئی ایک قدم نہیں اٹھایا۔ خان صاحب نے بھی خیبر پختون خوا میں اسلامی نظام کے قیام کےلیے اب تک کوئی ایک کام نہیں کیا۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے ساتھ تو جماعت اسلامی بھی حکومت میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت نے اسلامی نظام کے فروغ کے لیے وہ کچھ نہ کیا جو اُس کے اپنے دائرہ کار میں ہے۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے پاکستان میں اسلامی آئین کے ہوتے ہوے بھی یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ جنرل مشرف کے دور کی روشن خیالی مزید تقویت پکڑتی جا رہی ہے مگر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر خبر چلی جس کے مطابق گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ایک طالبہ کو اس لیے داخلہ نہ دیا گیا کیوں کہ وہ پردہ کرتی تھی۔ طالبہ نے اس سلسلے میں ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی اور یہ بتایا کہ انٹرویو لینے والے پینل جو مردوں پر مشتمل تھا، نے اس طالبہ کو پردہ کرنے کی صورت میں داخلہ نہ دینے کا کہاجس پر اُس نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا۔ یہ خبر ایک ٹی وی چینل پر چلی جبکہ دیگرچینلز نے اس واقعہ کو کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی۔ ویسے ایسی خبر کو میڈیا میں کوئی خاص لفٹ مل بھی کیسے سکتی تھی کیوں کہ ٹی وی چینلز تو روشن خیالی کے الم برداروں میں شامل ہیں۔ اس کے برعکس اگر خبر یہ ہوتی کہ کسی تعلیمی ادارے نے مغربی لباس پہننے پر کسی طالبہ کو داخلہ دینے سے انکار کردیا تو آپ دیکھتے کہ یہ ٹی وی چینل کیسے آسماں سر پر اٹھاتے اور منٹوں میں متعلقہ ادارہ کی انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ کوئی ایک دو سال پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے نسٹ (NUST) کی انتظامیہ نے طلبا و طالبات کو مہذب لباس پہننے کےلیے ایک نوٹس جاری کیا تاکہ تعلیمی ماحول کو روشن خیالی کی حدیں پار کرنے سے بچایا جاسکے۔ لیکن بجائے اس کے کہ اس پر ادارہ کی انتظامیہ کی تعریف کی جاتی اُس کا روشن خیال میڈیا کے ایک سیکشن کی طرف سے کھلے عام مذاق اڑایا گیا۔ چند سال پہلے پنجاب اسمبلی کی ایک خاتون ممبر نے اسمبلی میںایک قراداد پیش کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ تھیٹر ڈراموں میں فحش ڈانس روکا جائے۔ اس قرارداد کو متفقہ طور پر پاس کر دیا گیا جو ایک خوش آئین اقدام تھا لیکن جیسے ہی یہ خبر میڈیا (ٹی وی چینلز) کے ہاتھ لگی انہوں نے پنجاب اسمبلی اور قرارداد پیش کرنے والی خاتون کے خلاف ایک ایسی مہم شروع کر دی کہ کوئی اس قرارداد کا دفاع کرنے کےلیے تیار نہ ہوا۔ ٹی وی چینلز نے اس مسئلہ کو عورتوں کے حقوق، آزادی رائے اور تفریح کی اہمیت سے ایسا جوڑا کہ فحاشی کا فتنہ جیسے فتنہ ہی نہ رہا ہو بلکہ کوئی بڑا کام بن گیا ہو۔ ٹی وی دیکھنے والوں کو ایسا لگا جیسے فحش تھیٹر کوئی بڑا تعمیری کام کر رہے ہوں جبکہ اس دھندے کے خاتمے کےلیے قرداد پیش کرنے والے کوئی ولن ہوں۔ میں یہ بار پہلے بھی لکھ چکا کہ گزشتہ سال کے اوائل میں بنی گالہ میں وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں رہمنائوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھاکہ میڈیا کی روشن خیالی ہمارے مذہبی و معاشرتی اقدار کو تباہ و بربار کر رہی ہے جس کو روکا جانا چاہیے۔ لیکن افسوس کے اس بارے میں عملی قدم نہ حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا اور نہ ہی خان صاحب نے اس مسئلہ پر کوئی آواز اٹھائی اور یوں ہمارے بگاڑ کا سفر تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ہم اُس دنیا کے دھوکہ میںپڑے ہیں جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
’’اور دوزخ والے جنت والوں سے کہیں گے کہ ’ہم پر تھوڑا سا پانی ہی ڈال دو، یا اللہ نے جو تمھیں نعمتیں دی ہیں، ان کا کوئی حصہ (ہم تک پہنچا دو)‘۔ وہ (جنت والے)جواب دیں گے ’اللہ نے یہ دونوں چیزیں اُن کافروں پر حرام کر دی ہیں۔جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا تھا، اور جن کو دُنیوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال دیا تھا۔‘‘
اللہ کی دھرتی میں اللہ کے قانون کا نفاذ وہ اصل مقصد ہے جس کے حصول کےلیے ہمارے سیاسی رہمنائوں، پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور دوسرے ریاستی اداروں کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی روشن خیالی کے الم برداروں اور انکے بیرونی آقائوں سے گھبرانے کی۔کتنا ہی اچھا ہوتا کہ خان صاحب ایمپائر کے اشارہ اور اُس کی خوشی کی بجائے اپنے اللہ کی رضا کےلیے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف اس لیے سڑکوں پر آتے، لانگ مارچ کرتے اور ڈی چوک میں دھرنا دیتے کہ پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جائے۔
 

عثمان

محفلین
پڑھنے سے قبل ہی یقین تھا کہ اس کالم ساز کی تان حسب سابق اس کی تصور کردہ عریانی فحاشی پر ہی ٹوٹے گی۔ اور کالم حسب دستور فسانے سے لبریز ہوگا۔
 
گویا آپ نے اپنی حماقت کو تسلیم کیا! ;)
آپ نے تدوین کر لی تو ہم تسلیم بھی نہ کرتے؟ وہ کسی نے کہا ہے نا:
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے!​
آپ کے حق میں مزید دعا ہے صبر و تحمل کے لیے۔
حالیؔ کا قول ہے کہ
جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں؟​
مگر آپ کا دل رکھنے کے لیے ایک کراری سی آمین مع ثم آمین ارسالِ خدمت ہے!
آپ کا بھی!
 
Top