میاں طفیل انتقال کر گئے

زین

لائبریرین
میاں طفیل محمد تقریبآ 96 سال کی عمر میں‌انتقال کر گئے ۔



میاں طفیل محمد سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی نے اشاعت دین کے لیے علمی اور عملی سطح پر جس کار عظیم کو منظم تحریک کی صورت دی، اسے دنیا جماعت اسلامی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ یہ کام اسلامی تہذیب کو درپیش چیلنج کا جواب بھی ہے اور مثبت صورت میں دعوت و تنظیم اور فکر وعمل کا سیل رواں بھی۔
سید مودودی نے بہ یک وقت قرطاس و قلم اور تحریک و تنظیم کا کام شروع کیا۔ اس دوران انھوں نے قرآن و سنت اور اسلامی تاریخ و روایت سے فیض پاتے ہوئے بے مثال اسلامی لٹریچر تخلیق کیا اور اسلامی تاریخ میں ایک قابل رشک تحریک منظم کی۔ اس جماعت کو منظم رکھنے، بنانے اور سنوارنے میں جس محسن شخصیت کا بجا طور پر مرکزی کردار ہے، اس رجل عظیم کا نام میاں طفیل محمد ہے۔
محترم میاں طفیل محمد1944ء سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل،1966 ء سے1971ء تک مغربی پاکستان کے امیر اور مرکزی نائب امیر اور پھر1972ء سے1987ء تک اس کے امیر رہے۔ اس دوران انھوں نے اسلامی تاریخ اور اسلامی تحریکات کی تاریخ میں ناقابل فراموش مجاہد کا کردار ادا کیا۔ میاں صاحب کی شخصیت صرف ایک رنگ میں رنگی ہوئی ہے' اور وہ ہے اللہ کا رنگ(صبغۃ اللہ)۔ ان کے ہاں نہ تصنع ہے اور نہ بڑے لوگوں کا سا گریز، بلکہ وہ سراپا محبت،خلوص اور دین حق کے لیے اپنی زندگی کے لمحے لمحے کو قربان کردینے کی عملی تصویر ہیں۔
آئیے! میاں طفیل محمد صاحب کے حالات زندگی پر مختصر نظر ڈالتے ہیں۔


پیدائش

میاں طفیل محمد نومبر1913ء میں مشرقی پنجاب کی ریاست کپورتھلہ کے ایک گاؤں صفدر پور ارائیاں کے ایک کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ تین بھائیوں اور چھ بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ دوبھائی محمد صدیق اور محمد رشید اور تین بہنیں بچپن میں انتقال کر گئے تھے۔ آپ کے والد میاں برکت علی کاشت کار کے ساتھ اسکول ماسٹر بھی تھے۔ گھر کا ماحول بحیثیت مجموعی پاکیزہ اور پابندِ صوم وصلوۃ تھا، خصوصاً آپ کی والدہ دینی احکامات کی پابندی کا بہت زیادہ اہتمام کرتی تھیں۔ اس لیے شروع سے ہی آپ کی تربیت مذہبی انداز میں ہوئی۔


تعلیم

پرائمری تک تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی جبکہ مڈل اپنے گاؤں سے تین کلومیٹر قصبہ نڈالہ کے اسکول سے کیا جہاں آپ پیدل جایا کرتے تھے۔میٹرک کا امتحان کپور تھلہ کے رندھیر ہائی اسکول سے فرسٹ ڈویژن میں امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا ، بعد ازاں رندھیر انٹر کالج' کپور تھلہ میں ایف ایس سی(پری انجینئرنگ) کے مضامین میں داخلہ لے لیا، اورانٹر کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ایف ایس سی کے بعد کالج سے رخصت ہونے لگے تو پرنسپل پروفیسر اربیل سنگھ نے آپ کے سرٹیفیکیٹ پر یہ الفاظ لکھے کہ "مجھے اس کا استاد ہونے پر فخر ہے۔"


گورنمنٹ کالج میں

کپور تھلہ میں مزید تعلیم کے حصول کے لیے کوئی ادارہ نہ تھا اس لیے آپ لاہور آگئے اور یہاں گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور فزکس کے ساتھ بی ایس سی آنرز میں داخلہ لیا۔ ان مضامین کے انتخاب میں یہ بات پیش نظر رہی کہ ہندؤوں نے یہ پراپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ یہ مضامین مشکل ہیں اور مسلمان طلبہ کند ذہن ہونے کی وجہ سے یہ مضامین پڑھ ہی نہیں سکتے۔ آپ نے یہ پراپیگنڈہ غلط ثابت کر دکھایا اور بی ایس سی کا امتحان بھی درجہ اول کے ساتھ پاس کیا اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ اسی زمانے میں مسلمانوں کی حالت زار اور مختلف مشاہدات نے آپ کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ آپ مادی لحاظ سے اپنا مستقبل بنانے کی جدوجہد کرنے کے بجائےاپنے دین،ملک اور قوم کا مستقبل بنانے کی کوشش کریں گے اور انگریز کی ملازمت نہیں کریں گے۔ چنانچہ آپ کے ساتھی بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے لیکن آپ نے ملک و قوم کی بہتری کا مشن سنبھالا اور اسی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔


ریاست کے پہلے مسلمان وکیل

بی ایس سی آنرزکے بعد آپ فزکس میں ایم ایس سی کرنا چاہتے تھے لیکن گھر والوں کے اصرار پرایل ایل بی کے لیے پنجاب یونیورسٹی لا کالج،لاہور میں داخلہ لیا۔ پہلے سال کا امتحان آپ نے درجہ اول میں پاس کیا اور1937ء میں ایل ایل بی کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان محمد منیر آپ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ایل ایل بی کرنے کے بعد آپ نے جالندھر میں شیخ محمد شریف(بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج) کے ہمراہ وکالت شروع کی۔ ایک سال تک ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد آپ نے کپورتھلہ منتقل ہو کر وہاں اپنی آزاد وکالت کا آغاز کردیا۔ آپ ریاست کپورتھلہ کے پہلے مسلمان(ایل ایل بی) وکیل تھے۔

زیارت نبوی

کپور تھلہ کالج میں پہلے سال میں آپ کو حضور نبی کریم کی زیارت نصیب ہوئی۔ اپنا خواب بیان کرتے ہوئے میاں صاحب کہتے ہیں " میں نے خواب دیکھا کہ اپنے مکان کی ڈیوڑھی سے ملحق بیٹھک میں سویا ہوا ہوں کہ باہر سے کسی صاحب نے مجھے آواز دی۔ آواز سن کر میں نے ڈیوڑھی کا دروازہ کھولا اور باہر نکلا۔ میں نے دیکھا کہ دروازے کے سامنے نیم کے درخت کے نیچے ایک پچاس پچپن سال کے نہایت ہی متین بزرگ کھڑے ہیں۔ سفید پگڑی، گورا رنگ، خوبصورت آنکھیں، سیاہ ڈاڑھی جس میں چند بال سفید، گھٹنوں تک سفید کوٹ میں ملبوس اور تہبند میں ملبوس۔ جسم قدرے دبلا، قد درمیانہ، پیشانی کشادہ۔ میں دروازے سے باہر نکل کر جب ان کے قریب پہنچا تو انھوں نے کوئی بات کیے بغیر مجھے سینے سے لگا لیا۔ میرے دل میں یہ بات ابھری کہ آپ آنحضرت صلی اللہ وسلم ہیں۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ خواب کے دوران اور اس کے بعد میرے دل میں یہ بات نقش ہو گئی کہ مجھے حضور نبی کریم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔"


مولانا مودودی سے تعارف

کپورتھلہ میں وکالت کے دوران مولانا مودودی کے اولین ساتھی مستری محمد صدیق نے آپ کو ترجمان القرآن مطالعے کے لیے دیا۔ یہ میاں صاحب کا ترجمان القرآن اور مولانا مودودی کے نام سے پہلا تعارف تھا۔23 مارچ1940ء کو مسلم لیگ کے قرار داد پاکستان والے اجلاس میں میاں صاحب شریک تھے۔ اجلاس کے بعد آپ اسلامیہ پارک میں واقع سید مودودی کے گھر پر مولانا سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اپریل1940ء میں مولانا مودودی نے کپور تھلہ میں ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ میاں صاحب اس میں شریک تھے۔ اس موقع پر بھی مولانا مودودی سے مختصر ملاقات رہی۔


سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تاکید

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے کپور تھلہ میں ایک اجتماع سے خطاب کے بعد میاں صاحب کے مولانا مودودی بارے ایک استفسار کے جواب میں کہا تھا" وکیل صاحب، خدا لگتی پوچھتے ہو تو کرنے کا اصل کام وہی ہےجو سید کا وہ لاہوری لعل(مولانا مودودی ) کہتا ہے۔ باقی تو یہ سب پیٹ کے دھندے ہیں۔ اگر ہمت ہے تو اسی سید کے پاس جاو اور اس کے ساتھ مل کر کام کرو۔" شاہ صاحب کی اس بے آمیز بات نے میاں صاحب کو مولانا مودودی کی فکر اور لائحہ عمل کے بارے میں یکسو کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور ہر طرح کے حالات میں سید مودودی کا ساتھ دیا


جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شرکت

میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے تاسیسی ارکان میں سے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت کا واقعہ بھی کافی دل چسپ ہے۔ آپ اپنی اہلیہ کو گھر لانے کے لیے سسرال صفدر پورجا رہے تھے۔ کپور تھلہ پہنچے تھے کہ چودھری عبدالرحمن اور مستری محمد صدیق نے بتایا کہ "ایک صالح جماعت کی ضرورت" کی تجویز کے مطابق مولانا مودودی کی دعوت پر لاہور میں اجتماع ہو رہا ہے۔ انھوں نے آپ کو بھی شرکت کی دعوت دی چنانچہ آپ سسرال جانے کے بجائے ان کے ہمراہ لاہور چل دیے۔ پہلے دن جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوئی۔ آپ جماعت کا دستور مرتب کرنے والی دستور ساز کمیٹی میں شامل تھے۔ دوسرے دن سید مودودی کے خطاب کے بعد جب تمام لوگوں نے اپنے آپ کو رکنیت کے لیے پیش کیا تو آپ نے بھی اٹھ کر کہا کہ "میں بھی اپنے آپ کو جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے پیش کرتا ہوں۔"
اس وقت آپ کی عمر27 برس تھی اور آپ حسب معمول کوٹ،پتلون،ٹائی میں ملبوس اور کلین شیو تھے۔ چنانچہ مولانا منظور نعمانی اس وضع قطع کو دیکھ کر اعتراض کیا کہ"ان فرنگی آلائشوں کے ساتھ کسی شخص کو جماعت اسلامی کی رکنیت میں کیسے لیا جا سکتا ہے۔" بعض دوسرے حضرات نے اس مؤقف کی تائید کی۔آپ کے اصرار اور اصلاح احوال کے وعدے پر مولانا مودودی نے تجویز دی کہ اگر چھ ماہ کے اندر ذریعہ معاش اور دوسری قابل اصلاح چیزوں کو درست کر لیا تو رکنیت برقرار رہے گی ورنہ ساقط کر دی جائے گی۔ اس طرح26 اگست1941 ء کو تاسیس جماعت کے موقع پر ہی آپ جماعت میں شامل ہوگئے۔اور مقرر کردہ میعاد سے پہلے23 جنوری1942ء کو شرائط داخلہ پوری کردیں۔


آزمائش کاآغاز

جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرنے کے بعد آپ نے وکالت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو والدین نے سختی سے مخالفت کی، بلکہ والد صاحب نے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی، دیگر اقارب نےبھی سرزنش کی، بلکہ ریاست کے تمام سرکردہ مسمانوں نے وکالت ترک کرنے کی مخالفت کی۔ ہائی کورٹ کے ہندو ججوں تک نے سمجھانے کی کوشش کی۔ سب کہتے کہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے روشن مستقبل تمھارا انتظار کر رہاہے۔ لیکن آپ نے جس دعوت کو حق سمجھ کر قبول کیا تھا اس کو چھوڑنے سے انکارکردیا، چنانچہ آپ کے بارے میں کہاجانے لگا کہ "اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔"21 جنوری1942ء کو آپ نے وکالت ترک کردی، گھر کا سامان گاوں بھجوا دیا اور خود لاہور آگئے۔ یہاں آکر تجارت کو ذریعہ معاش بنانا چاہا مگر رشوت، دھوکہ دہی اور فریب کے قریب نہ جانے کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ میاں صاحب کے بقول"معاشی اعتبار سے یہ انتہائی پریشانی مگر روحانی لحاظ سے بڑے سکون و اطمینان کا دور تھا۔"


قیم جماعت اسلامی

مارچ1944ء میں دارالاسلام پٹھانکوٹ میں جماعت کا کل ہند اجتماع منعقد ہوا۔ اس میں جماعت کے کام اور اس کی ضروریات کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ جماعت کے تنظیمی کام میں امیر جماعت کی مدد کے لیے ایک ہمہ وقتی قیم(سیکرٹری جنرل) مقرر کیا جائے جو ملک میں پھیلے ہوئے ارکان، جماعتوں اور متاثرین سے رابطہ رکھے، ملک کا دورہ کرے،کام کی رپورٹیں لے، ساری صورتحال سے امیر جماعت کو باخبر رکھے اور ان کی رہنمائی میں جماعت اور اس کے حلقہ اثر کو بڑھانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی لاہور ملک نصر اللہ خان کی تجویز آپ کو قیم مقرر کردیا گیا اورآپ نے17 اپریل1944ء کو دارالاسلام پہنچ کر جماعت کے کام کا چارج سنبھال لیا۔ قیم جماعت بننے کے بعد آپ نے تنظیمی امور کی طرف خاص توجہ دی، ارکان جماعت کو فعال کیا۔ اور ارکان و کارکنان سے رابطے اور دعوت و تنظیم کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کے لیے ہندوستان بھر میں دورے کیے۔ اس دوران آپ مذہبی و سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے ان تک جماعت کی دعوت پہنچاتے۔
میاں صاحب نے آغاز سے ہی اپنی پوری توجہ جماعتی امور پر مرکوز رکھی تاکہ امیر جماعت سید مودودی کو اپنے علمی اور فکری کاموں کو زیادہ سے زیادہ یکسوئی کے ساتھ کرنے کا وقت مل سکے۔ جماعت اسلامی اور سید مودودی کے ساتھ اس سفر میں کئی مراحل آئے، بڑے لوگ اسے چھوڑ کر گئے لیکن میاں صاحب کے ذہن میں کبھی اس کا خیال نہیں آیا۔آپ نے ہمیشہ سید مودودی کا ایک وفادار کارکن کی طرح ساتھ دیا، اور امیر جماعت بننے کے بعد ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔


ہجرت

14 اگست1947ء کو تقسیم ہند کے بعد آپ نے15 دن دارالاسلام پٹھان کوٹ میں گزارے۔ اس دوران جہاں آپ نے دارالاسلام اور ارد گرد میں آباد مسلمانوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا وہیں غیر مسلم دیہات میں بلاخوف و خطر وفود کے ساتھ گئے اور وہاں کے عوام و خواص کو فساد کے فوری اور دوررس اثرات سے آگاہ کیا۔ ان وفود کے جانےسے بلوائیوں نے سمجھا کہ یہ بہادر اور نڈر لوگ ہیں، اس طرح دارالاسلام قتل و غارت گری سے محفوظ رہا۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی ملیں کہ دارالاسلام پر زبردست حملہ ہوگا اور اسے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ لیکن جماعت کے دفاعی انتظامات کی وجہ سےکسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
حالات کی خرابی کے پیش نظر30 اگست کو آپ سید مودودی اور جماعت کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ہجرت کر کے لاہور آگئے۔ ہجرت کے بعد خود جماعت کے ساتھیوں کو رہائش اور دیگر ضروریات کے لیے شدید مشکلات کا سامنا تھا لیکن وہ اپنے اہل و عیال کو اسلامیہ پارک میں ایک کیمپ میں بٹھا کر واہگہ، والٹن، شاہدرہ اور باولی کے مہاجر کیمپوں میں مہاجرین کی دیکھ بھال، امداد اور بحالی کے کام پر چلے جاتے۔ جماعت کے کم وبیش چھ سو رضاکاروں نے منظم طور پر، دن رات اور اپنے گھر بار کی پروا کیے بغیر خدمات انجام دیں۔ میاں صاحب اس کام میں پیش پیش رہے۔


پہلی گرفتاری

پاکستان "پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ" کے نعرے کے ساتھ وجود میں آیا تھااور مسلمانان برصغیر سے اسلام نظام حیات کا وعدہ کیا گیا تھا مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد مسلم لیگ کے لیڈروں کی طرف سے کہا جانے لگا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست کے بجائے سیکولر ریاست ہونا چاہیے۔ چنانچہ جماعت اسلامی نے مسلمانان برصغیر کی قربانیوں کو رائیگاں ہونے سے بچانےکے لیے اسلامی نظام کے قیام کا مطالبہ زور و شور سے اٹھایا۔ یہ بات حکومتی کارپردازان کو سخت ناگوار گزری چنانچہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا، سید مودودی کو جہادِ کشمیر کا مخالف ظاہر کیا گیا، کئی اور جھوٹے الزامات لگائے گئے، سید مودودی نے اپنے اور جماعت کے دفاع میں کچھ کہنا چاہا تو ان کے بیانات پر سنسر شپ ، اورجماعت کے اخبارات و رسائل پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان ہتھکنڈوں کے باوجود اسلامی نظام کا مطالبہ زور پکڑتا گیا تو حکومت نے زچ ہوکر اس مطالبے کی آواز کو دھیما کرنے کے لیے جماعت کے رہنماوں کی گرفتاریاں شروع کردیں چنانچہ4 اکتوبر1948ء کو آپ کو گرفتار کر کے قصور جیل منتقل کردیا گیا۔(4 اکتوبر کو ہی مولانا مودودی کو گرفتار کر کے پہلے فیصل آباد اور پھر ملتان جیل منتقل کردیا گیا تھا۔) جبکہ14 اکتوبر کو آپ کو قصور سے ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ اپریل1950ء میں نظربندی کی مدت میں توسیع ہوئی لیکن اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ میں قرار دیا کہ"پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی شخص کو اٹھارہ ماہ سے زیادہ قید نہیں رکھا جا سکتا"۔ چنانچہ28مئی کو آپ کو مولانا مودودی کے ہمراہ ملتان سے رہا کردیا گیا۔ جیل میں قید کے دوران آپ نے سید مودودی سے سورہ یوسف سے سورہ الناس تک قرآن مجید سبقاً پڑھا۔ حدیث کی مشہور کتاب مؤطا امام مالک مع متن سبقاً مولانا امین اصلاحی صاحب سے پڑھی اور انہی سے اس دوران عربی زبان سیکھی۔
سید مودودی اور آپ کی گرفتاری کے بعد اسلامی نظام کے مطالبے کی شدت میں کمی آنے کے بجائے اس میں اضافہ ہوگیا چنانچہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے مجبور ہو کر12 مارچ کو قرارداد پاس کی جسے اب قرارداد مقاصد کہا جاتا ہے۔ اسے مولانا شبیر احمد عثمانی نے تیار کیا تھا اور یہ جیل میں مولانا مودودی کو دکھائی گئی تھی۔ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد جماعت اسلامی نے پاکستان کے باقاعدہ اسلامی ریاست ہونے کا اعلان کردیا تھا۔


اسلامی دستور کی مہم

قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی مہم چلائی۔ آپ اس مہم میں بھی پیش پیش رہے۔ جماعت اسلامی نے لاہور و کراچی اور دیگر مقامات پر اسلامی دستور کے حق میں جلسے کیے اور اس کے لیے آٹھ نکاتی مطالبات پیش کیے۔ یہ مہم چل رہی تھی کہ قادیانیوں کےخلاف تحریک ختم نبوت شروع ہو گئی اور حکومت نے وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں۔ آپ کو بھی28 مارچ کو سیدمودودیکے ہمراہ گرفتار کر کے سنٹرل جیل لاہور میں بند کردیا گیا۔ (اسی دوران سید مودودی کو "قادیانی مسئلہ" نامی پمفلٹ لکھنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ قومی و بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کی وجہ سے حکومت کو واپس لینا پڑاتھا۔)اس بار میاں صاحب گیارہ ماہ جیل میں رہے اور فروری1954ء کے آخر میں رہا ہوئے۔


پہلی دستور ساز اسمبلی کا مقدمہ

جماعت اسلامی نے حکومت وقت کی ساری رکاوٹوں اور مظالم کے باوجود اسلامی دستور کی جدوجہد جاری رکھی اور بالآخر حکومت کو اس مطالبے کوتسلیم کرنا پڑا اور وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے اعلان کیا کہ وہ25 دسمبر1954ء کو قائد اعظم کی سالگرہ کے موقع پر قوم کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کا تحفہ دیں گے۔ لیکن گورنر جنرل غلام محمد نے25 دسمبر سے قبل ہی بوگرا حکومت اور دستور ساز اسمبلی کو برخواست کر دیا۔ پورے ملک میں دہشت کی فضا مسلط کردی گئی، چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ اس غیر قانونی اقدام کے خلاف جماعت اسلامی واحد جماعت تھی جس نے آواز اٹھائی اور میاں صاحب نے بطور سیکرٹری جنرل بیان کیا کہ"گورنر جنرل کا یہ اقدام اپنے اختیارات سے تجاوز ہی نہیں بلکہ ان کا صریحاً غلط استعمال بھی ہے، اس لیے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔" افسوس کہ اس بیان کو کسی اخبار میں شائع نہ ہونے دیا گیا، البتہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اسے نشر کیا۔
سپیکر دستورساز اسمبلی مولوی تمیزالدین کو اس مقدمے کو عدالت میں لے جانے کے لیے میاں طفیل محمد صاحب نے ہی کراچی جا کر قائل کیا تھا اور اس کے لیے مالی معاونت بھی فراہم کی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف رٹ دائر کی گئی جس پر سندھ ہائی کورٹ نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ مرکزی حکومت نے اس فیصلے کو فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا تو مولوی تمیزالدین کے وکیلوں کی فیس ایک مرتبہ پھر میاں صاحب نے فراہم کی۔ فیڈرل کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے برخلاف گورنر جنرل کا اقدام درست قرار دے دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر نے اسی مقدمے میں نظریہ ضرورت کا سہارا لیا تھا۔


ایوبی دور : جمہوریت، بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد

اکتوبر1961ء میں شاہ عالم مارکیٹ مسجد، لاہور میں جنرل ایوب خان کے جاری کردہ فیملی لا آرڈیننس کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں آپ کو گرفتار کرکے ڈسٹرکٹ جیل، لاہور میں بند کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ساہیوال جیل منتقل کردیا گیا۔ کم وبیش نو ماہ بعد 23جون1962ء کو رہائی عمل میں آئی۔قید کے دوران آپ نے سید علی ہجویری کی مشہور کتاب "کشف المحجوب" کا اردو ترجمہ کیا۔
7مئی1963ء کو آپ کو "بغاوت" کےمقدمے میں گرفتار کر کے ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ جرم یہ تھاکہ آپ نے ڈیموکریٹک فرنٹ میں شامل جماعتوں کے مشترک اجلاس میں دیگر رہنماوں کے ساتھ مل کر جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بحالی کے مطالبے پر مشتمل قرارداد پاس کی تھی۔ اس قرارداد اور مطالبے کو "بغاوت" قرار دیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ مختلف جماعتوں کے نو افراد کے خلاف تھا۔ ایک ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر رہائی ہوئی۔ پھر 15 دسمبر1963ء کو "آفیشل سیکرٹ ایکٹ" کے تحت چودھری غلام محمد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے سرکاری ملازموں کے جماعت سے دور رہنے کی ہدایت پر مشتمل ایک خفیہ سرکاری مراسلے کی مذمت کی تھی۔ اس مقدمے میں بھی ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر رہائی عمل میں آئی۔


اسلامی دستور و بنیادی حقوق کی بحالی کی مہم

اکتوبر1963ء میں جماعت نے آپ کی سرکردگی میں پورے ملک میں اسلامی دستور اور بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے ایک محضر نامہ تیار کیا جس پر لاکھوں افراد کے دستخط کرائے گئے۔ یہ محضر نامہ ساڑھے تیرہ کلومیٹر طویل ہوگیاتھا۔ دسمبر1963ء میں اسے پارلیمنٹ کے ڈھاکہ اجلاس میں لے جایا اور پیش کیاگیا اور پارلیمنٹ کو منظور کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نام"جمہوریہ پاکستان" کے بجائے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" رکھ دیا گیا۔ اور حکومت کے اختیارات کو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے تابع کردیا گیا۔ اس پسپائی کا غصہ جنرل ایوب خان نے6 جنوری1964 ء کو جماعت اسلامی پر پابندی کی صورت میں نکالا۔ ترجمان القرآن کا ڈیکلریشن منسوخ کردیا گیا اور مولانا مودودی، میاں صاحب اور جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے تمام ارکان کو گرفتار کر لیا گیا۔25ستمبر 1964ء میں جماعت کو سپریم کورٹ نے بحال کیا اور9 اکتوبر کو جماعت کے رہنماوں کی رہائی عمل میں آئی۔


مادر ملت کے ساتھ

1965ء میں مادر ملت فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان الیکشن میں جماعت نے مادر ملت کا ساتھ دیا۔ میاں صاحب نے مادر ملت کی صدارتی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور مشرقی و مغربی پاکستان میں ان کے حق میں مہم کو منظم کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے مہم کے دوران ریل گاڑی میں پورے پاکستان کا دورہ کیا تو دوسری جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ جماعت اسلامی کی طرف سے آپ مسلسل شریک سفر رہے۔


بطور نائب امیر جماعت

میاں صاحب نے1965ء تک قیم جماعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جنوری1966ء میں نائب امیر جماعت کی ذمہ داری پر فائز ہوئے۔ اس دوران آپ جماعت اسلامی مغربی پاکستان کے امیربھی رہے، جبکہ متعد مرتبہ آپ نے سید مودودی کی جگہ قائم مقام امیر کے فرائض انجام دیے۔1965ء میں جوائنٹ اپوزیشن (سی او پی)کا قیام عمل میں آیا تو میاں صاحب اس کے مرکزی رہنماؤں میں سے تھے۔ عوام میں جمہوری شعور پیداکرنے اور ملک میں جمہوریت کے حق میں ایک مضبوط تحریک چلانے کے لیے آپ نے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ مشرقی و مغربی پاکستان کا دورہ کیا۔ اس تحریک نے ملک میں پہلی مرتبہ ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کو چیلنج کیا۔ بعد ازاں میاں صاحب نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) اور ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی(ڈیک) میں جماعت کی طرف سے نہایت فعال کردار اداکیا۔ انھی تحریکوں کا نتیجہ تھا کہ 1969ء میں ایوبی آمریت ختم ہوئی اور1970ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے۔ جولائی اگست1971ء میں جب مغربی پاکستان سے کوئی لیڈر مشرقی پاکستان جانے کے لیے تیار نہیں تھا، میاں صاحب نے مشرقی پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کو اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کا پیغام دیا۔


امیر جماعت اسلامی پاکستان

نومبر1972ء میں آپ نے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر کا حلف اٹھایا۔ امیر جماعت بننے کے بعد آپ نے تربیت گاہوں کے ذریعے جماعت کے بنیادی لٹریچر سے تجدید کی مہم شروع کی۔ کارکنان کی تربیت اور قیادت سے براہ راست رابطے کے لیے مرکز میں ماہانہ دس روزہ تربیت گاہ کا اہتمام کیا۔ اسی طرح پورے ملک میں قرآنی حلقوں کا نیا سلسلہ شروع کیا، اور کم از کم تین ہزار مقامات پر یہ حلقہ ہائے درس قائم ہوئے۔
مارچ1973ء میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل متحدہ جمہوری محاذ(یو ڈی ایف) کے قیام میں میاں صاحب نے بھرپور کردار ادا کیا۔ محاذ کی مسلسل جدوجہد سے قوم کو1973ء کا متفقہ آئین نصیب ہوا۔جنوری1977ء میں بھٹو فسطائیت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد(پی این اے) کے قیام میں بھی آپ نے کلیدی رول ادا کیا۔


بھٹو دور میں ابتلا

ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں موچی دروازہ لاہور کے جلسہ عام میں بلوچستان میں مرکزی حکومت کے فوجی ایکشن کے خلاف احتجاجی تقریر کی تو20 فروری1973ء کو بغاوت کے الزام میں آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران جیل میں تشدد اور توہین آمیز سلوک سے سابقہ پیش آیا۔ جس پر بعد خود ذوالفقار علی بھٹو نے معذرت کی۔ 16مارچ1973ء کو سپریم کورٹ سے ضمانت ہوئی۔ بعدازاں1977ء میں پیپلزپارٹی کی انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحادکی تحریک کے دوران آپ کو متعدد بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران سہالہ جیل،راولپنڈی میں اتحاد کے دوسرے رہنماوں کے ساتھ اور بہاولپور جیل میں اکیلے نظربند رہے۔


خمینی سے ملاقات

فروری1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران میں انقلاب آیا تو دنیا کی سبھی اسلامی تحریکوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے اس کی تائید کی۔ اسی بنا پر تمام اسلامی تحریکوں نے مشترک پروگرام بنایا کہ"ہمیں ایران جا کر اپنی اخلاقی تائید کا اعادہ اور ایران کی اسلامی تعمیر نو میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔" چنانچہ اخوان المسلمون، ترکی کی ملی سلامت پارٹی،امریکہ کی مسلم اسٹوڈنٹس یونین، اسلامک کونسل آف یورپ، جماعت اسلامی انڈیا سمیت دنیا کے دوسرے کئی ممالک سے اسلامی تحریکوں کے نمائندے کراچی میں اکٹھے ہوئے اور28 فروری1979ء کو انقلاب کے چند روز بعد میاں طفیل محمد صاحب کی قیادت میں ایران کی نئی حکومت کی خصوصی اجازت سے تہران پہنچے کہ ان دنوں تہران ائیرپورٹ بیرونی پروازوں کے لیے بند تھا۔ امام خمینی نے اپنی ملاقات میں علامہ محمد اقبال، امام حسن البنا اور سید مودودی کا نام لے کر کہاکہ قی الوقع ہمارے انقلاب کے یہ فکری رہنما ہیں۔ان کی فکر اور لٹریچر نے ہماری رہنمائی کی ہے، اس لیے یہ صرف ایران کا نہیں عالم اسلام کا انقلاب ہے۔ہماری رہنمائی کا سرچشمہ قرآن اور سنت رسول ہے، انھی کے مطابق ہم ایرانی معاشرہ تعمیر کریں گے۔ اس موقع پر امام خمینی نے میاں صاحب کو قبلہ اول مسجد اقصی کی تصویر سے بنے ہوئے سیپ کے بکس کا وہ تحفہ دیا، جس میں قرآن مجید تھا، اور جو انھیں فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے یہ کہتے ہوئے پیش کیا تھا"آپ ایران میں کامیاب انقلاب کے بعد بیت المقدس کو بھی آزاد کرائیں گے۔" خمینی صاحب نے یہ قیمتی تحفہ میاں صاحب کو پیش کرتے ہوئے کہا" اب یہ امانت میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کے سپرد کرتا ہوں۔"


جہاد افغانستان

آپ کی امارت کے دوران جب روس نے دسمبر1979ء میں افغانستان پر قبضہ کیا تو آپ نے اس کو دفاع پاکستان کی جنگ سمجھتے ہوئے افغانوں کا ساتھ دیا، اور جماعت اسلامی اپنے کارکنوں سے اور جو وسائل بھی اپنے اثرورسوخ سے فراہم کرسکی، ان سے افغان مجاہدین و مہاجرین کی اعانت کی۔ اور ساری قوم، حکومت پاکستان اور عالم اسلام کو ان کی پشت پر لا کھڑا کیا۔ جماعت اسلامی کے کارکنان نے بھرپور جوش و خروش سے جہاد افغانستان میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی اور حکومت پاکستان کے افغانوں سے تعاون اور خود افغان عوام کی بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں روس کو افغانستان سے پسپائی اختیار کرنی پڑی، اور وسطی ایشیا میں کئی مسلم ریاستیں وجود میں آئیں۔


امارت سے فراغت

میاں صاحب نے اکتوبر1987ء تک امیر جماعت کے فرائض انجام دیے۔ امارت سے فارغ ہونے کے بعد ادارہ معارف اسلامی، منصورہ کے چئیر مین اور عالمی مساجد کونسل کے رکن کی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔ میاں صاحب نے جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ،بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوری عمل کو روبہ عمل میں لانے اور دستور کی حکمرانی قائم کرنے کی تحریکوں میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا۔


بیرون ملک دورے

مختلف اسلامی تحریکوں کی دعوت پر آپ نے1974ء میں برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا جبکہ1975ء میں عراق اور سعودی عرب کا دورہ کیا۔ کئی دیگر ممالک میں بھی آپ نے دعوتی دورے کیے۔ آپ رابطہ عالم اسلامی اور عالمی مساجد کونسل کے بانی ارکان میں سے ہیں۔1976ء میں آپ نے اسلامی فقہ کانفرنس میں شرکت کی۔

تصانیف

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات(شریک مصنف)، دعوت اسلامی اور مسلمانوں کے فرائض،( اردوترجمہ) کشف المحجوب از سید علی ہجویری، نیز متعدد مقالات اور پمفلٹ۔
1959ء میں آپ نے اسلامک پبلی کیشنز کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد سید مودودی اور جماعت اسلامی کے دوسرے مصنفین کی تصانیف اور اسلامی و تعمیری لٹریچر کی تجارتی بنیادوں پر اشاعت کا اہتمام کرنا تھا۔
 
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ دھرتی پاکستان سے ایک اور بزرگ کا سایہ اٹھا لیا گیا ہے ، اللہ رحم کرے۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
انا للہ و انا الیہ راجعون
موت العالِم موت العالم ۔
پاکستان یقینا اک اچھے عالم اور انسان سے محروم ہو گیا ۔
اللہ تعالی محترم محمد طفیل مرحوم کی مساعیوں کا بہتر اجر عطا فرمائیں ۔ آمین
نایاب
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جنگ اخبار میں انکے چند مضامین نظر سے گذرے تھے مگر پھر بھی تعارف مکمل نہیں تھا۔
 
Top