میت کے لیے دعا

libral_guy

محفلین
میری۔امی کا انتقال 11-اگست 2008کو ھوا تھا۔ دسواں-بیسواں-تیسواں-اور چالیسواں (چھلم) کرنا کیا ضروری ھے؟قران و سنت کی روشنی میں جواب دیں-
انتقال کے بعد قزآن خوانی کروائی اور سوا لاکھ مرتبہ سورہ اخلاص اور سوالاکھ مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھا گیا-کیا اس کا صواب میری مرحوم والدہ کو پہنچے گا؟
سویم کرنا اور چنے باٹنا اور کھانے کا اھتمام کرنا کیا ضروری ھے؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں-
 

شمشاد

لائبریرین
libral_guy آپ نے غلط جگہ پر اپنا سوال اٹھایا تھا۔ میں نے اسے یہاں منتقل کر دیا ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی والدہ کو اپنی رحمتوں سے نوازے اور آپ سبکو صبر جمیل عطا فرمائے۔

مرنے والے/والی کا سوگ تین دن تک ہوتا ہے۔ یہ جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے یہ سب بدعت میں شامل ہے۔ ہاں آپ اپنی والدہ کے لیے دعا ضرور کر سکتے ہیں۔ ان کی طرف سے صدقہ خیرات بھی کی جا سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قران اور سنت کی روشنی میں مرنے کے بعد میت کے کیا چیز فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
قران اور سنت کی روشنی میں مرنے کے بعد میت کے کیا چیز فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو جاننے یا عمل کرنے کا ہمیں جو معیار دیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ " میں اور میرے ساتھی " صحابہ " جس دین پر تھے " ۔ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری حیاتِ مبارکہ میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی ۔ آپ ص نے جو بات فرمائی ہے وہ تو ہے کہ ' لوگوں ایمان اور عمل کی زندگی اختیار کرو ۔ نجات کی بنیاد ایمان اور عمل ہے ۔ جو کچھ تم کرو گے وہ تمہارے کام آئے گا ۔ " قرآن میں سورہ نجم میں اس بات کا اعلان کیا کہ " انسان کے لیئے وہی ہے ۔ جس کی اس نے سعی کی ۔ جس کے لیئے تگ و دو کی ۔ " ہم کسی کے لیئے مغفرت کی دعا کرسکتے ہیں ۔ دعا کوئی ایصالِ ثواب نہیں ہوتا ۔ یہ تو اللہ کے حضور میں درخواست ہے ۔ اللہ اپنے قانون اور انصاف کے مطابق جو دعائیں چاہے قبول فرما لیں گے ۔ یہ باتیں قرآن مجید میں بیان ہوئیں ہیں ۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بات واضع کردی کہ " جب کوئی شخص دنیا سے رخصت ہوتا ہے ۔ تو اس کا ہر عمل ختم ہو جاتا ہے ۔ تین چیزیں باقی رہ جاتیں ہیں ۔ اگر ا س نے علم کی کوئی روایت پیچھے چھوڑی ہے تو اس کا اجر کو ملتا رہے گا ۔ اگر اس نے اولاد کی اچھی تربیت کی ہے تو اس کی دعائیں اس کے لیئے سود مند ہوتیں رہیں گی ۔ اور اگر کوئی ایسا کام کیا ہے جو لوگوں کی فلاح کے لیئے کام میں آکر صدقہ جاریہ بن گیا ہے تو اس کا اجر اسکو ملتا رہے گا ۔ "
یہ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ۔ یہ کلمے پڑھ کر بخشنا ، بہت بعد کی چیزیں ہیں ۔ اور یہ غیر مستند بات ہے ۔ کیونکہ یہ باتیں نہ ہی قرآن میں بیان ہوئیں ہیں اور نہ ہی اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں ملتا ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔اور اگر کوئی ایسا کام کیا ہے جو لوگوں کی فلاح کے لیئے کام میں آکر صدقہ جاریہ بن گیا ہے تو اس کا اجر اسکو ملتا رہے گا ۔۔۔۔۔

کیا اولاد اپنے مرحوم والدین کے لیے کوئی ایسا فلاحی کام کر سکتی ہے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے؟ مثلاً اپنے مرحوم والدین کی طرفے کوئی نلکہ لگوا دیا، کسی مسجد میں پنکھا لگوا دیا، بچوں کے کسی اسکول میں ضرورت کی کوئی چیز بنوا دی، وغیرہ۔
 
کیا اولاد اپنے مرحوم والدین کے لیے کوئی ایسا فلاحی کام کر سکتی ہے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے؟ مثلاً اپنے مرحوم والدین کی طرفے کوئی نلکہ لگوا دیا، کسی مسجد میں پنکھا لگوا دیا، بچوں کے کسی اسکول میں ضرورت کی کوئی چیز بنوا دی، وغیرہ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی شمشاد ، جو حدیث بھائی ظفری نے لکھی وہ مرنے والے کو موت کے بعد اجر و ثواب ملنے والوں کاموں اور ذرائع کے بارے میں فیصلہ کن حدیث ہے ، جہاں تک معاملہ اولاد کا ہے تو وہ کسی بھی اور سے مختلف ہے ، اولاد کو اپنے فوت شدہ والدین کے اجر و ثواب کے لیے کوئی کام کرنے کے لیے الگ سے نیت کی ضرورت نہیں ، اور اگر نیت کر کے کوئی نیک عمل کرے تو کوئی حرج نہیں ، پھر عرض کرتا چلوں کہ یہ معاملہ صرف اولاد کے لیے ہے ،
میں نے اللہ کی عطا کردہ توفیق سے کافی عرصہ پہلے """ ایصال ثواب اور اس کی حقیقیت """ نامی ایک کتاب لکھی تھی ، اس میں اس موضوع سے متعلق تمام مسائل کا تفصیلی اور الحمد للہ تحقیقی ذکر ہے ، اس میں سے """ اولاد کے نیک اعمال """ کے بارے میں ایک اقتباس یہاں نقل کیے دے رہا ہوں ،
"""
عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ رَسْولْ اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ::
( إِنَّ أطیبَ مَا أکَلَ الرَّجُُْْلُ مِن کَسبِہِ ، وَ إِنَّ وَلَدُہ ُ مِن کَسبِہِ ::: اِنسان کا سب سے اچھا کھانا وہ ہے جو وہ خود کما کر کھائے ، اور اِنسان کی اولاد اْسکی کمائی ہے ) سْنن ا بو داؤد ::: حدیث ، ٣٥٢٩ ::: سْنن النسائی ::: حدیث ، ٤٤٦١ ::: سْنن الترمذی ::: حدیث ، ١٣٥٨ ::: سْنن الدارمی ::: حدیث ، ٢٥٣٨ ، سْنن ابنِ ماجہ ::: حدیث ، ٢٢٩٠ ::: المْستَدرَک الحاکم ::: حدیث ، ٢٢٩٨ ۔
::: پہلا مسئلہ ::: چْونکہ اِنسان کی اولاد اْس کی کمائی ہے لہذا مرنے والے کو اْس کی نیکو کار اولاد کے نیک أعمال کا برابر ثواب ہوتا ہے ، اور کرنے والوں کے أجر و ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ،
درج ذیل احادیث میں ہمیں اِس مسئلے کی دلیل ملتی ہے ::
::: ( ١ ) عَن عَائشۃَ رَضی اللَّہ ُ عَنھَا :: '' أنَّ رَجُلاً قَالَ :: إِنَّ اُْمی افتُلِتَت نَفسَھَا [ وَ لَم تُوصِ ] ، وَ أظُنُھَا لَو تَکلَّمَت تَصَدَقَت ، فَھَل لَھا أجرٌ إِن تَصَدَّقت ُ عَنھا [ وَ لِی أجرٌ ] قَالَ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ( نَعم ) [ فَتَصَدَّق َ عَنھا ] ''
ترجمہ ::: عائشہ رضی ا للہ عنھا سے روایت ہے کہ '' ایک آدمی نے ( رَسْولَ اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ) کہا ::: میری ماں اچانک مر گئی ، اور اْس نے کوئی وصیت بھی نہیں کی میرا خیال ہے کہ اگر ( اْسے مہلت ملتی اور ) وہ بولتی تو وہ صدقہ کرتی ، اب اگر میں اْس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اْسے اور مْجھے اِس صدقہ کا أجر مِلے گا ؟ رَسْولْ اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( جی ہاں ) تو اْس شخص نے ( اپنی ماں کی طرف سے ) صدقہ کیا ''
صحیح مْسلم : ::حدیث ، ١٠٠٤ : :: صحیح البْخاری ::: حدیث ، ٢٨٦٠ ::: سْنن ابنِ ماجہ حدیث ، ٢٧١٧ ::: سْنن ابو داؤد ::: حدیث ، ٢٨٧٨ ::: سْنن النسائی ::: حدیث ، ٣٦٥١

اگر آپ اس کتاب کا مکمل مطالعہ کرنا چاہے تو اس کا برقی نسخہ میں کسی جگہ اپ لوڈ کر کے آپ کو لنک دے دوں گا ، و السلام علیکم۔
 

ظفری

لائبریرین
کیا اولاد اپنے مرحوم والدین کے لیے کوئی ایسا فلاحی کام کر سکتی ہے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے؟ مثلاً اپنے مرحوم والدین کی طرفے کوئی نلکہ لگوا دیا، کسی مسجد میں پنکھا لگوا دیا، بچوں کے کسی اسکول میں ضرورت کی کوئی چیز بنوا دی، وغیرہ۔

ان کی لیئے مغفرت کی دعا کرنی چاہیئے ۔ نمازوں میں کریں بلکہ ہر موقع پر کریں ۔ کیونکہ یہی وہ اصل کام ہے جو انبیاء السلام نے سیکھایا ہے ۔ اگر والدین نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی ہے تو اولاد کے ہر اچھے کام کا ان کو اجر مل رہا ہے ۔ اصل میں کسی اچھے کام کے اجر ملنے کا اصول یہی ہے کہ کوئی انسان اس کا محرک بنا ہو ۔ اس کی نیت اور ارادہ اسمیں شامل ہو ۔ کیونکہ " اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے " ۔ چناچہ اگر والدین کی نیت اولاد کے معاملے میں اچھی تھی تو ان کو ا سکا اجر ملے گا ۔ البتہ اولاد کو ان کے لیئے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیئے ۔ جب کسی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ " کیا میں اپنے والدین کے لیئے نیکی کا کام کرلوں ۔ " تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرایا کہ " کر لو ۔۔۔ مگر ا سکا اجر تم کو ہی ملے گا ۔ "
لہذا ایصالِ ثواب کا تصور اسلام میں کہیں نہیں ہے ۔ آپ خود دیکھ لیں کہ ایسا کوئی کام نہ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ کرام کے زمانے میں ہوا ۔ ہاں البتہ مغفرت کی دعائیں کرتے تھے ، جس حد تک کی جاسکتیں تھیں ۔
 
ان کی لیئے مغفرت کی دعا کرنی چاہیئے ۔ نمازوں میں کریں بلکہ ہر موقع پر کریں ۔ کیونکہ یہی وہ اصل کام ہے جو انبیاء السلام نے سیکھایا ہے ۔ اگر والدین نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی ہے تو اولاد کے ہر اچھے کام کا ان کو اجر مل رہا ہے ۔ اصل میں کسی اچھے کام کے اجر ملنے کا اصول یہی ہے کہ کوئی انسان اس کا محرک بنا ہو ۔ اس کی نیت اور ارادہ اسمیں شامل ہو ۔ کیونکہ " اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے " ۔ چناچہ اگر والدین کی نیت اولاد کے معاملے میں اچھی تھی تو ان کو ا سکا اجر ملے گا ۔ البتہ اولاد کو ان کے لیئے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیئے ۔ جب کسی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ " کیا میں اپنے والدین کے لیئے نیکی کا کام کرلوں ۔ " تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرایا کہ " کر لو ۔۔۔ مگر ا سکا اجر تم کو ہی ملے گا ۔ "
لہذا ایصالِ ثواب کا تصور اسلام میں کہیں نہیں ہے ۔ آپ خود دیکھ لیں کہ ایسا کوئی کام نہ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی صحابہ کرام کے زمانے میں ہوا ۔ ہاں البتہ مغفرت کی دعائیں کرتے تھے ، جس حد تک کی جاسکتیں تھیں ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی ظفری ، آپ نے اپنے اس مراسلے کے آخر میں جو حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف کام کرنے والی اولاد کو ہی اجر ملنے کا حکم فرمایا ، اگر اس کا کوئی حوالہ مل سکے تو بڑی اچھی بات ہو گی ، یہ میری سابقہ تحقیق میں ایک اچھے اضافے کا سبب بنے گی ، اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ،
والسلام علیکم۔
 

کاشف رفیق

محفلین
مرحومین کیلئے قرآن خوانی برائے ایصال ثواب کرائی جاتی ہے اس کے بارے میں بھی کچھ بیان فرمائیے۔

مزید یہ کہ دیکھا گیا ہے کہ مساجد یا مدارس میں مرحومین کی جانب سے نسخہ قرآن پاک رکھوایا جاتا ہے کہ جب بھی یہ پڑھا جائے گا تو اس کا ثواب مرحوم کے ملے گا اس بارے میں بھی آپ کی آراء درکار ہیں۔
 
مرحومین کیلئے قرآن خوانی برائے ایصال ثواب کرائی جاتی ہے اس کے بارے میں بھی کچھ بیان فرمائیے۔

مزید یہ کہ دیکھا گیا ہے کہ مساجد یا مدارس میں مرحومین کی جانب سے نسخہ قرآن پاک رکھوایا جاتا ہے کہ جب بھی یہ پڑھا جائے گا تو اس کا ثواب مرحوم کے ملے گا اس بارے میں بھی آپ کی آراء درکار ہیں۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم بھائی کاشف رفیق ، سب سے پہلی گذارش تو یہ ہے کہ دین کے معاملات آراء کی بنا پر نہیں سمجھے جانے چاہیں اور نہ ہی آراء کسی حکم یا فیصلے کے لیے کوئی شرعی حیثیت رکھتی ہیں ،
اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف تو اس کء جواب میں میں اپنی کتاب """ ایصال ثواب اور اس کی حقیقت """ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں ،


""""" اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( کْلّْ نَفسٍ بِمَا کَسَبَت رَھَینَۃٌ ::: ہر جان اپنے کیئے ( ہوئے کاموں ) بدلے میں ( اللہ تعالیٰ کے پاس ) گِروی رکھی ہوئی ہے ) سْورت المْدثر ::: آیت ، ٣٨
اور فرمایا :
( لَھَا مَا کَسَبَت وَ عَلِیھَا مَا اکتَسَبَت :::اْس ( ہر جان ) کے لیئے وہی ( أجر و ثواب ) ہے جو اْس نے کمایا اور اْس پر وہی ( عذاب ) ہے جو اْس نے کمایا ) ( یعنی کوئی شخص کِسی دوسرے کی نیکی یا گْناہ کا أجر یا عذاب نہیں پائے گا بلکہ ہر جان اپنے اپنے عمل کے مْطابق جزا ء پائے گی )سْورت البقرہ ::: آیت ، ٢٨٦
مزید فرمایا : ( وَ أنَّ لَیسَ لِلإِنسَانَ إِلَّا مَا سَعَی ::: اور بے شک اِنسان کے لیئے صِرف وہی ( جزاء ) ہے جِس کے لیئے اْس نے کوشش کی ) سْورت النجم ::: آیت ، ٣٩
اِس آیت کی تفسیر میں إِمام ابنِ کثیر رحمۃ ْ اللہ علیہ نے لکھا ہے ''' اِس ( آیت ) کا مطلب کہ جِس طرح کِسی اِنسان پر کِسی دوسرے کے گْناہ کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اِسی طرح اْسے اپنے کمائے ہوئے أجر کے سِوا ( کِسی دوسرے کے أجر میں) سے کْچھ نہیں مِلے گا، اس مْقدس آیت کی روشنی میں إِمام شافعی رحمہ ْ اللہ اور اْن کے پیرو کاروں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ قْرآن پڑھ کر اْس کا جو ثواب مْردوں کو بھیجا جاتا ہے وہ اْن ( مْردوں ) تک نہیں پْہنچتا کیونکہ ( جو قْرآن پڑھا گیا ہے ) یہ نہ تو اْن کا اپنا عمل ہے اور نہ ہی اْن کی اپنی کمائی ، اور اِسی لیئے رَسْولْ اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اْمت کو اِس کام کی طرف مائل نہیں کیا ، اور نہ اِس کی ترغیب دی ، اور نہ اِس کی ہدایت کی نہ تو کِسی قول یا فعل کے ذریعے اور نہ ہی اِشارتاً ، اور نہ ایسی کوئی خبر ہے کہ صحابہ ( رضی اللہ عنہْم جمعیاً ) میں سے کِسی ایک نے بھی ایسا کوئی کام کیا ہو ( یا کِسی کو کرنے کا کہا ہو ) اور اگر ایسا کر نے میں ( تھوڑی سی بھی ) خیر ہوتی تو یقیناً صحابہ نے یہ کام کیا ہوتا ، اور اللہ تعالیٰ کا قْرب حاصل کرنے کے لیئے ( یعنی اْس کی عِبادت اور اطاعت کے لیئے ) صِرف واضح دلائل کے مْطابق عمل کیا جائے گا ، اور اِس میں کِسی بھی قِسم کی قیاس اور رائے کو داخل نہیں کیا جائے گا '''
شیخ الإسلام إِمام ابنِ تیمیہ رحمہْ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے ( سلف ، یعنی صحابہ رضی اللہ عنھْم کبھی ایسا نہیں کیا کرتے تھے کہ نفلی نماز روزے حج یا قْرآن پڑھنے کا ثواب مرے ہوئے مْسلمانوں کو بخشتے ، لہذا صحابہ کے راستے سے انحراف ہر گِز نہیں کرنا چاہیئے ، کیونکہ اْن کا راستہ بہترین اور مْکمل ترین ہے )
الاختیارات العِلمیہ ۔ بحوالہ احکام الجنائز و بِدْعھا ، إِمام الالبانی
اور رَسْولْ اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا :::
( إِذا مَاتَ الإِنسانْ أنقَطَعَ عَنہْ عَملْہْ إِلَّا مِن ثَلاثَۃِ ( أشیاء ) إِلَّا مِن صَدَقَۃٍ جَارِیۃٍ ، عِلمٍ یْنتَفَعْ بِہِ ، أو وَلَدٍ صَالح ٍ یَدعْو لَہ ُ ::: جب کوئی انسان مر جاتا ہے تو اْس کا ہر عمل کٹ جاتا ہے سِوائے تین ( اعمال ) کے ( ١ ) جو صدقہ اْس نے کیا تھا اور وہ جاری ہو ( یعنی مرنے والے کے بعد وہ صدقہ رْک نہ گیا ہو ) ، ( ٢ ) ایسا عِلم جو کہ ( دینی طور پر ) فائدہ مند ہو ، ( ٣ ) صالح ( یعنی ) نیک اولاد جو دْعا اْس کے لیئے کرے ( یعنی اْس دْعا کا فائدہ مرنے والے کو پْہنچتا ہے ) ) صحیح المْسلم : حدیث ، ١٦٣١ : سْنن النسائی : حدیث ، ٣٦٥٣ : سْنن ابی داؤد : حدیث ، ٢٨٧٧ : سْنن الترمذی : حدیث ، ١٣٧٦
اِس کے عِلاوہ اور بہت سی احادیث اور اقوالِ ائمہ اِس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ مرنے والے کو سِوائے اپنے یا اپنی اولاد کے اعمال کے کِسی اور کے عمل کا کوئی ثواب نہیں پْہنچتا ، اِس موضوع پر مزید کْچھ دلائل ((( نیک اولاد کے نیک اعمال کا فائدہ ))) میں ذِکر کیئے جائیں گے ، اِنشاءِ اللہ ۔
کاش یہ لوگ اللہ تعالیٰ ، رَسْولْ اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، اور اْمت کے جلیل القدر إِماموں کے اِن اِرشادات پر غور کرتے جِن کو ابھی ابھی بیان کیا گیا ، یا اب اِن کے پیرو کار ہی غور کر لیں ، ا ور پھر اپنے اور اپنے بزرگوں کے اِس عمل کے بارے میں خْود ہی فیصلہ کر لیں کہ اْنکا یہ عمل مقبول ہے کہ نا مقبول ، سنت ہے کہ بِدعت ، باعثِ ثواب ہے کہ باعثِ عذاب ۔ """""

اگر کوئی اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہے تو اس کا برقی نسخہ یہاں سے اتارا جا سکتا ہے ،
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
 
Top