قران اور سنت کی روشنی میں مرنے کے بعد میت کے کیا چیز فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو جاننے یا عمل کرنے کا ہمیں جو معیار دیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ " میں اور میرے ساتھی " صحابہ " جس دین پر تھے " ۔ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری حیاتِ مبارکہ میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی ۔ آپ ص نے جو بات فرمائی ہے وہ تو ہے کہ ' لوگوں ایمان اور عمل کی زندگی اختیار کرو ۔ نجات کی بنیاد ایمان اور عمل ہے ۔ جو کچھ تم کرو گے وہ تمہارے کام آئے گا ۔ " قرآن میں سورہ نجم میں اس بات کا اعلان کیا کہ " انسان کے لیئے وہی ہے ۔ جس کی اس نے سعی کی ۔ جس کے لیئے تگ و دو کی ۔ " ہم کسی کے لیئے مغفرت کی دعا کرسکتے ہیں ۔ دعا کوئی ایصالِ ثواب نہیں ہوتا ۔ یہ تو اللہ کے حضور میں درخواست ہے ۔ اللہ اپنے قانون اور انصاف کے مطابق جو دعائیں چاہے قبول فرما لیں گے ۔ یہ باتیں قرآن مجید میں بیان ہوئیں ہیں ۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بات واضع کردی کہ " جب کوئی شخص دنیا سے رخصت ہوتا ہے ۔ تو اس کا ہر عمل ختم ہو جاتا ہے ۔ تین چیزیں باقی رہ جاتیں ہیں ۔ اگر ا س نے علم کی کوئی روایت پیچھے چھوڑی ہے تو اس کا اجر کو ملتا رہے گا ۔ اگر اس نے اولاد کی اچھی تربیت کی ہے تو اس کی دعائیں اس کے لیئے سود مند ہوتیں رہیں گی ۔ اور اگر کوئی ایسا کام کیا ہے جو لوگوں کی فلاح کے لیئے کام میں آکر صدقہ جاریہ بن گیا ہے تو اس کا اجر اسکو ملتا رہے گا ۔ "
یہ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ۔ یہ کلمے پڑھ کر بخشنا ، بہت بعد کی چیزیں ہیں ۔ اور یہ غیر مستند بات ہے ۔ کیونکہ یہ باتیں نہ ہی قرآن میں بیان ہوئیں ہیں اور نہ ہی اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں ملتا ہے ۔