راحیل فاروق
محفلین
تو صاحبو اور صاحباؤ!
بچپن تو امید ہے آپ سب ہی پہ گزرا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کچھ کا ہنوز جاری و ساری ہو۔ میری بیگم کی طرح۔ مدعا اس فقیر کا اس لڑی سے یہ ہے کہ اس عمر کے واقعات کی بازیافت کی جائے جب بندہ اپنے پیدا کردہ لطیفوں پر ہنس بھی نہیں سکتا۔ یعنی اپنے بچپن کے سریع الاثر واقعات حیطہءِ تحریر میں لا کر انھی تاریخ میں امر کرنے کی اجتماعی کوشش کی جائے۔ زور لگا کے، ہیا!
گو کہ بارش کا پہلا قطرہ چمن میں دیدہ ور کی طرح نرگس کی چیخیں نکلوائے بغیر نہیں آتا لیکن کوئی بات نہیں۔ ہم روایت شکن، روایت ساز! میں اپنے دورِ طفولیت (طفیلیت؟) کی چیدہ چیدہ حکایات سے آغاز کرتا ہوں۔ بعد ازاں آپ لوگ بھی اپنا حصہ بقدرِ غصہ ڈال کر عند اللہ ماجور ہوں۔
میرا بچپن گو کہ عام لوگوں کی طرح میری ولادتِ با سعادت کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا مگر اہلِ محلہ کا اتفاق بلکہ پرزور اصرار تھا کہ ثبت است بر جریدہءَ عالم دوامِ ما۔ یعنی چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ لہٰذا معمولی امور کی جانب اوائل ہی سے توجہ نہیں فرمائی۔ مثلاً سکول جانے کے لیے عوام کالانعام کی طرح پیدل چلنے کو ہمیشہ عار سمجھا۔ بلکہ سکول جانے ہی کو عار سمجھا (تلمیذالرحمٰن؟)۔ ہیڈماسٹر صاحب نے بڑی عمر کے چند لڑکوں کو مامور کر دیا تھا جومجھے بستر پہ لیٹے ہوئے ہی بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھاتے اور اسی آرام دہ افقی حالت میں لے جا کر احتیاط سے سکول کے احاطے میں رکھ دیتے جہاں میں رقتِ دل سے تحصیلِ علم میں مشغول ہو جاتا۔ نابغہ ہونے کی ایک اور علامت جو اس عاجز نے روزِ اول سے ظاہر کرنی شروع کی یہ تھی کہ فقیر چار سال کی عمر ہی سے یا تو اپنی پنسل سکول لے جانا بھول جاتا تھا یا اپنے ہم جماعتوں کی بھی گھر لے آتا تھا!
فقیر بچپن ہی سے دنگا فساد وغیرہ سے غایت درجہ دلچسپی رکھتا تھا جس کا حال اوپر دی گئی تصویر سے صاف ظاہر ہے۔ اگر طالبان نہ ہوتے تو فقیر آج طالبان ہوتا!
خدا معلوم کہاں سے میں نے ایک جملہ سیکھ لیا تھا۔
"یہ لیلی کی دنیا ہے!"
(گھر والے مجھے لیلی (لی+لی) کے نک نیم سے پکارتے تھے، پکارتے ہیں اور پکارتے رہیں گے، انشاءاللہ العزیز۔ کسی صاحب کو اعتراض ہو تو وہ ٹھنڈا پانی پئیں، کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، لیٹے ہوں تو بے ہوش ہو جائیں، بے ہوش ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں)
تو صاحبو اور صاحباؤ! سارے جھگڑے اسی پہ ہوتے تھے۔ میں نعرہ لگاتا تھا، "یہ لیلی کی دنیا ہے!" ایک کزن کو اس برانڈنگ سے تپ چڑھتی تھی۔ وہ چیخ کے کہتیں: "یہ میری دنیا ہے!" میں جوابی کارروائی کے طور پر جگر سے وہی تیر پھر پار کرتا۔ "لیلی کی دنیا!" اس کے بعد کرہءِ ارض ذرا تیز گھمایا جاتا۔ یعنی بات ڈوئل تک پہنچ جاتی۔ اور تھوڑی نوچ کھسوٹ، چیخ پکار کے بعد گھر کے بڑے آ کر دونوں دنیاؤں میں خلا پیدا کر دیتے۔ یہ خلا رفتہ رفتہ اتنا بڑا ہو گیا کہ اب پُر ہی نہیں ہوتا!
ادبا و شعرا کا ایک ٹیمپلیٹ ہے کہ "... سال کی عمر ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔" فقیر نے چار پانچ سال کی عمر ہی سے "دیکھنا" شروع کر دیا تھا۔ جماعت اول کی استانی نوجوان، خوب صورت اور طرحدار تھیں۔ لائق طالبِ علم ہونے کے ناتے مجھ سے پیار بھی تھا۔ پہلے پہل انھی کو دیکھنا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ رات کو سوتے وقت میں آنکھیں بند کر کے ان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ آخری جملے کا متن کچھ یوں ہوتا تھا کہ آپ بہت اچھی ہیں (لفظ خوب صورت کا استعمال اس وقت معلوم نہیں تھا)۔ لیکن آپ ہنسا نہ کریں۔ ہنستی ہوئی بری لگتی ہیں۔ اور وہ موٹے سر ... کے ساتھ کمرے میں نہ جایا کریں (خدا جانے کیا نام ہو گا۔ یاد ہوتا تو انھیں کوس کوس کے دمے کا مریض ہو جاتا!)۔
ہم کراچی سے پنجاب، ددھیال آئے ہوئے تھے۔ چچا کو کتے پالنے کا شوق تھا۔ لوگ گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی ڈرتے تھے۔ ایک دن ایک خاتون آئیں۔ میں دروازے پر گیا۔ خاتون کی آنکھیں سرخ، چہرہ زرد۔ کپکپاتی ہوئی کہنے لگیں، "کتا ہے؟ کتا؟" مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا "نہیں" اور کھٹاک سے دروازہ بند کر دیا۔ واپس آیا تو کسی نے پوچھا کون تھا۔ میں نے نہایت متانت سے جواب دیا:
"کوئی نہیں۔ کسی عورت کا کتا گم ہو گیا تھا۔ وہ ڈھونڈ رہی تھی!"
بچپن تو امید ہے آپ سب ہی پہ گزرا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کچھ کا ہنوز جاری و ساری ہو۔ میری بیگم کی طرح۔ مدعا اس فقیر کا اس لڑی سے یہ ہے کہ اس عمر کے واقعات کی بازیافت کی جائے جب بندہ اپنے پیدا کردہ لطیفوں پر ہنس بھی نہیں سکتا۔ یعنی اپنے بچپن کے سریع الاثر واقعات حیطہءِ تحریر میں لا کر انھی تاریخ میں امر کرنے کی اجتماعی کوشش کی جائے۔ زور لگا کے، ہیا!
گو کہ بارش کا پہلا قطرہ چمن میں دیدہ ور کی طرح نرگس کی چیخیں نکلوائے بغیر نہیں آتا لیکن کوئی بات نہیں۔ ہم روایت شکن، روایت ساز! میں اپنے دورِ طفولیت (طفیلیت؟) کی چیدہ چیدہ حکایات سے آغاز کرتا ہوں۔ بعد ازاں آپ لوگ بھی اپنا حصہ بقدرِ غصہ ڈال کر عند اللہ ماجور ہوں۔
میرا بچپن گو کہ عام لوگوں کی طرح میری ولادتِ با سعادت کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا مگر اہلِ محلہ کا اتفاق بلکہ پرزور اصرار تھا کہ ثبت است بر جریدہءَ عالم دوامِ ما۔ یعنی چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ لہٰذا معمولی امور کی جانب اوائل ہی سے توجہ نہیں فرمائی۔ مثلاً سکول جانے کے لیے عوام کالانعام کی طرح پیدل چلنے کو ہمیشہ عار سمجھا۔ بلکہ سکول جانے ہی کو عار سمجھا (تلمیذالرحمٰن؟)۔ ہیڈماسٹر صاحب نے بڑی عمر کے چند لڑکوں کو مامور کر دیا تھا جومجھے بستر پہ لیٹے ہوئے ہی بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھاتے اور اسی آرام دہ افقی حالت میں لے جا کر احتیاط سے سکول کے احاطے میں رکھ دیتے جہاں میں رقتِ دل سے تحصیلِ علم میں مشغول ہو جاتا۔ نابغہ ہونے کی ایک اور علامت جو اس عاجز نے روزِ اول سے ظاہر کرنی شروع کی یہ تھی کہ فقیر چار سال کی عمر ہی سے یا تو اپنی پنسل سکول لے جانا بھول جاتا تھا یا اپنے ہم جماعتوں کی بھی گھر لے آتا تھا!
خدا معلوم کہاں سے میں نے ایک جملہ سیکھ لیا تھا۔
"یہ لیلی کی دنیا ہے!"
(گھر والے مجھے لیلی (لی+لی) کے نک نیم سے پکارتے تھے، پکارتے ہیں اور پکارتے رہیں گے، انشاءاللہ العزیز۔ کسی صاحب کو اعتراض ہو تو وہ ٹھنڈا پانی پئیں، کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں، لیٹے ہوں تو بے ہوش ہو جائیں، بے ہوش ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں)
تو صاحبو اور صاحباؤ! سارے جھگڑے اسی پہ ہوتے تھے۔ میں نعرہ لگاتا تھا، "یہ لیلی کی دنیا ہے!" ایک کزن کو اس برانڈنگ سے تپ چڑھتی تھی۔ وہ چیخ کے کہتیں: "یہ میری دنیا ہے!" میں جوابی کارروائی کے طور پر جگر سے وہی تیر پھر پار کرتا۔ "لیلی کی دنیا!" اس کے بعد کرہءِ ارض ذرا تیز گھمایا جاتا۔ یعنی بات ڈوئل تک پہنچ جاتی۔ اور تھوڑی نوچ کھسوٹ، چیخ پکار کے بعد گھر کے بڑے آ کر دونوں دنیاؤں میں خلا پیدا کر دیتے۔ یہ خلا رفتہ رفتہ اتنا بڑا ہو گیا کہ اب پُر ہی نہیں ہوتا!
ادبا و شعرا کا ایک ٹیمپلیٹ ہے کہ "... سال کی عمر ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔" فقیر نے چار پانچ سال کی عمر ہی سے "دیکھنا" شروع کر دیا تھا۔ جماعت اول کی استانی نوجوان، خوب صورت اور طرحدار تھیں۔ لائق طالبِ علم ہونے کے ناتے مجھ سے پیار بھی تھا۔ پہلے پہل انھی کو دیکھنا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ رات کو سوتے وقت میں آنکھیں بند کر کے ان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ آخری جملے کا متن کچھ یوں ہوتا تھا کہ آپ بہت اچھی ہیں (لفظ خوب صورت کا استعمال اس وقت معلوم نہیں تھا)۔ لیکن آپ ہنسا نہ کریں۔ ہنستی ہوئی بری لگتی ہیں۔ اور وہ موٹے سر ... کے ساتھ کمرے میں نہ جایا کریں (خدا جانے کیا نام ہو گا۔ یاد ہوتا تو انھیں کوس کوس کے دمے کا مریض ہو جاتا!)۔
ہم کراچی سے پنجاب، ددھیال آئے ہوئے تھے۔ چچا کو کتے پالنے کا شوق تھا۔ لوگ گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی ڈرتے تھے۔ ایک دن ایک خاتون آئیں۔ میں دروازے پر گیا۔ خاتون کی آنکھیں سرخ، چہرہ زرد۔ کپکپاتی ہوئی کہنے لگیں، "کتا ہے؟ کتا؟" مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے کہا "نہیں" اور کھٹاک سے دروازہ بند کر دیا۔ واپس آیا تو کسی نے پوچھا کون تھا۔ میں نے نہایت متانت سے جواب دیا:
"کوئی نہیں۔ کسی عورت کا کتا گم ہو گیا تھا۔ وہ ڈھونڈ رہی تھی!"
آخری تدوین: