ملک حبیب
محفلین
میرا نام ملک حبیب اللہ ہے،،،،،،،، چکوال کی تحصیل چوآسیدنشاہ سے تعلق رکھتا ہوں،،،،
اسلام آبادمیں ایک پرائیویٹ کمپنی میں مُلازمت کرتا ہوں،،،،
شعر و ادب سے لگاؤ ہے ۔
اردو ادب میں میر،غالب،داغ،اقبال،نوح ناروی،امیر مینائی،اکبر،فیض فراز،پیر نصیرالدین نصیر جیسے شعراء پسند ہیں۔
فارسی میں رومی،سعدی،جامی،بیدل،سرمد،امیر خسرو،عراقی،اقبال،قرةالعین طاہرہ کا کلام پسند ہے۔
پنجابی میں میاں محمد بخش،وارث شاہ،بلھے شاہ،مولوی غُلام رسول عالمپوری،مولوی عبدالستار،جوگی جہلمی، حافظ برخوردار کی شاعری اچھی لگتی ہے۔
سرائیکی میں خواجہ غُلام فرید، شاکر شُجاع آبادی کو پڑھا ہے۔
کبھی کبھی ایک آدھ غزل خود بھی کہہ دیتا ہوں، اِک غزل پیشِ خِدمت ہے اُمید ہے سُخن شناس حضرات پسند کریں گے۔۔
تلاشِ ذات میں صاحب یہ واقعہ بھی ہُوا
میں اپنی ذات سے اُلجھا بھی اورجُدا بھی ہُوا
کہیں ہُوا ہے وہ ظاہر، کہیں چُھپا بھی ہُوا
وہ بھید ہے تو، مگر ہم پہ ہے کُھلا بھی ہُوا
مِری ہی ذات، مجھے چار سُو دِکھائی دی
میں جُستجُو میں تِری ایک آئینہ بھی ہُوا
خودی کی ڈھونڈ میں مجھ کو وہ مرحَلے بھی دِکھے
کہ بار ہا مِرا ، تجھ سے ہے سامنا بھی ہُوا
کبھی ہُوا ہُوں میں شیطاں، کبھی ہُوا میں ملک
کبھی، جو ذات میں کھویا، تو اِک خُدا بھی ہُوا
جِسے ہُوا ہے مُیسر، یہ شوق اوریہ جُنوں
وہی تو، ذات سے تیری ہے آشنا بھی ہُوا
تِری تلاش میں تیری ہی جُستجُو میں حبیب
کبھی میں ٹُوٹ کے بِکھرا تو جابجا بھی ہُوا
اسلام آبادمیں ایک پرائیویٹ کمپنی میں مُلازمت کرتا ہوں،،،،
شعر و ادب سے لگاؤ ہے ۔
اردو ادب میں میر،غالب،داغ،اقبال،نوح ناروی،امیر مینائی،اکبر،فیض فراز،پیر نصیرالدین نصیر جیسے شعراء پسند ہیں۔
فارسی میں رومی،سعدی،جامی،بیدل،سرمد،امیر خسرو،عراقی،اقبال،قرةالعین طاہرہ کا کلام پسند ہے۔
پنجابی میں میاں محمد بخش،وارث شاہ،بلھے شاہ،مولوی غُلام رسول عالمپوری،مولوی عبدالستار،جوگی جہلمی، حافظ برخوردار کی شاعری اچھی لگتی ہے۔
سرائیکی میں خواجہ غُلام فرید، شاکر شُجاع آبادی کو پڑھا ہے۔
کبھی کبھی ایک آدھ غزل خود بھی کہہ دیتا ہوں، اِک غزل پیشِ خِدمت ہے اُمید ہے سُخن شناس حضرات پسند کریں گے۔۔
تلاشِ ذات میں صاحب یہ واقعہ بھی ہُوا
میں اپنی ذات سے اُلجھا بھی اورجُدا بھی ہُوا
کہیں ہُوا ہے وہ ظاہر، کہیں چُھپا بھی ہُوا
وہ بھید ہے تو، مگر ہم پہ ہے کُھلا بھی ہُوا
مِری ہی ذات، مجھے چار سُو دِکھائی دی
میں جُستجُو میں تِری ایک آئینہ بھی ہُوا
خودی کی ڈھونڈ میں مجھ کو وہ مرحَلے بھی دِکھے
کہ بار ہا مِرا ، تجھ سے ہے سامنا بھی ہُوا
کبھی ہُوا ہُوں میں شیطاں، کبھی ہُوا میں ملک
کبھی، جو ذات میں کھویا، تو اِک خُدا بھی ہُوا
جِسے ہُوا ہے مُیسر، یہ شوق اوریہ جُنوں
وہی تو، ذات سے تیری ہے آشنا بھی ہُوا
تِری تلاش میں تیری ہی جُستجُو میں حبیب
کبھی میں ٹُوٹ کے بِکھرا تو جابجا بھی ہُوا