میرا جانا نہ ہوا، آپ کا آنا نہ ہوا - سرور عالم راز سرور

کاشفی

محفلین
غزل
( سرور عالم راز سرور)

میرا جانا نہ ہوا، آپ کا آنا نہ ہوا
بات اتنی تھی مگر اس پہ یہ افسانہ ہوا

جان دینے میں مجھے عذر نہیں ہے لیکن
ہاں! اگر پھر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہوا؟

گر گیا ہو گا لہو آنکھ سے انجانے میں
ورنہ کب ہم کو ترا درد گوارا نہ ہوا

زخم دل، زخم جگر، زخم الم، خون امید
دامن اپنا کبھی شرمندہء گریہ نہ ہوا

تھی خبر چاروں طرف تیری مسیحائی کی
کیوں ترا غم مرے حق میں ہی میسحا نہ ہوا؟

عشق میں روز نیا رنج ہو ایسا تو ہوا
اور مشکل کوئی حل ہو کبھی ایسا نہ ہوا

تیرا بننے کی کشاکش میں ہوئی شام حیات
غم تو یہ ہے کہ اسی غم میں خود اپنا نہ ہوا

سرور سوختہ ساماں کی شکایت کیسی؟
اس کو کب ہوش ہے، دیوانہ تو دیوانہ ہوا
 

محمداحمد

لائبریرین
سرور سوختہ ساماں کی شکایت کیسی؟
اس کو کب ہوش ہے، دیوانہ تو دیوانہ ہوا

واہ کاشفی بھائی اچھی غزل ہے۔
 
Top