طارق شاہ
محفلین
جگر مُراد آبادی
میرا جنُونِ شوق، وہ عرضِ وفا کے بعد
وہ شانِ احتیاط تِری ہر ادا کے بعد
تیری خبر نہیں، مگر اتنی تو ہے خبر!
تُو اِبتدا سے پہلے ہے، تُو اِنتہا کے بعد
شاید، اِسی کا نام مُقامِ فنا نہ ہو
نازک سا ہوتا جاتا ہے دل ہر صدا کے بعد
گو دل سے تنگ ہوں، مگر آتا ہے یہ خیال
پھر جی کے کیا کروں گا دلِ مُبتلا کے بعد
ہاں پھر انہیں حسِین نِگاہوں کا واسطہ
تھوڑا سا زہر بھی مِری خاطر دوا کے بعد
جگر مُراد آبادی