میرا دفاع کون کرے گا

logo.jpg

1101451097-2.gif

عبدالقادر حسن
ایکسپریس
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


يہ عجيب بات ہے کہ ايک طرف آپ ایک امریکی کانگریس کے رکن کے نقطہ نظر کو بڑے کھلے دل سے قبول کرتے ہیں ليکن دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ جو سرکاری طور پر وائٹ ہاوس سميت امريکی حکومت کی اجتماعی حیثیت سے نمائیند گی کرتی ہے کے بيان کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم نے يہ واضع طور پر کہا ہے کہ امريکہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔امریکی کانگریس خارجہ امور کے متعلق بہت سے موضوعات پر سماعت کرتی ہے اور ان سماعتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امريکی حکومت اس پالیسی کی حمایت کرتی ہے۔ سٹيٹ ڈيپارٹمنٹ عام طور پر زیر التواء قانون سازی پر تبصرہ نہیں کرتا ليکن يہ امريکی حکومت کی پاليسی نہیں ہے کہ بلوچستان کی آزادی کی حمایت کرے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
يہ امريکی حکومت کی پاليسی نہیں ہے کہ بلوچستان کی آزادی کی حمایت کرے۔
افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرنا بھی تو آپ کی پالیسی نہیں تھی۔
پالیسی بدلتے آپ کو دیر ہی کتنی لگتی ہے؟؟؟۔ جن صاحب نے بلوچستان پر قرارداد پیش کی ہے وہ آپ کی وزارت خارجہ میں ایک ذیلی کمیٹی کے سربراہ ہیں گویا حکومتی نمائندے ہیں ۔ یہی تو کاریگری ہے کہ "قتل کرتے ہیں ہاتھ میں خنجر بھی نہیں"۔
کل کلاں ایسی ہی ایک قرارداد پر "اتفاق رائے" سے سینٹ میں ووٹنگ کروائی جائے گی اور اسے پاس کرنے کے بعد دمادم مست قلندر کرتے ہوئے آپ کی حکومت پاکستان سے دوستی کے تکلف سے بھی آزاد ہو جائے گی۔
 

Fawad -

محفلین
افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرنا بھی تو آپ کی پالیسی نہیں تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے 911 کے واقعات کے بعد طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا اور دہشت گردوں کو پناہ دينے کی پاليسی کا اعادہ کيا۔

امريکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہمارے فوجی اہداف کی اہميت سے قطع نظر افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہمارے مشترکہ مقاصد کی تکميل محض قوت کے استعمال سے ممکن نہيں ہے۔ يہ ايک عالمی چيلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے ليے گلوبل سطح پر کوششيں کی جارہی ہيں۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت اور مقصد ايسی حکمت عملی ہے جسے افغان قيادت اور عوام ليڈ کريں۔ اس ضمن میں امريکی حکومت نے نيٹو کے تيارہ کردہ پلان کی حمايت کی ہے جس کے تحت افغان حکومت کے تعاون سے صوبہ وار مشروط بنيادوں پر سيکورٹی کی منتقلی کے عمل کو يقينی بنايا جا سکے۔ يہ پس پائ ہرگز نہيں ہے۔اس حکمت عملی کی بنياد افغان عوام کی مدد اور ان کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دينا ہے۔

اس ضمن ميں بہت سے پروگرامز سامنے لائے گئے ہيں جن کے تحت افغانستان مرحلہ وار سيکورٹی کی ذمہ دارياں، بہبود و ترقی اور حکومت سنبھالنے کے ايجنڈے کی جانب پيش رفت کر رہا ہے جو افغانستان کے مستقبل کے ليے انتہائ اہم ہے۔
طالبان سے سياسی مفاہمت کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف واضح اور مستقل ہے۔ يہ موقف ايک اصول اور ضابطہ کار کے عين مطابق ہے۔ اس ضمن ميں مختلف اشخاص کی انفرادی حيثيت اور گروہوں کی اہميت نہيں ہے۔

امريکہ افغان قيادت کے زير اثر مفاہمت اور بحالی کے ايسے عمل کی حمايت کرتا ہے جس کا مقصد ان عناصر کو دوبارہ معاشرے ميں شامل کرنا ہے جو تشدد کو ترک کريں، القائدہ اور ان سے ملحق گروہوں سے تعلقات کو ختم کريں اور افغان آئين کے تحت زندگی گزارنے کو ترجيح ديں جس ميں افغان مردوں اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔
حضور، ہم نے کبھی خود کو تجزیہ نگار نہیں گردانا اور نہ ہی چٹ پٹی شہ سرخیاں میرا موضوع سخن رہی ہیں۔ دراصل کبھی کبھی غیر متوقع نتائج کچھ افراد کے اوسان اس برے طریقے سے خطا کر دیتے ہیں کہ ان کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کسی معاملہ میں ان کا مؤقف کیسے گرگٹ کی طرح رنگ بدل جاتا ہے۔
آپ مذاکرات کے جس آپشن کی بابت فرما رہے ہیں آپ ہی کی حکومت کی موجودہ وزیر خارجہ اور سابقہ صدر اس کی دھجیاں یہ کہہ کر اڑا چکے ہیں کہ "ہم طالبان کو وسطی ایشیا میں اثر ورسوخ بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے"۔اس قطعی بات کے بعد آپ کے طالبان سے مذاکرات کے آپشن والے نئے مؤقف پر وہی شخص یقین کر سکتا ہے جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو یا پھر وہ انسانی احساسات سے عاری ہو۔
آپ جن یقین دہانیوں کے حصول کی بات کر رہے ہیں وہ یقین دہانیاں پاکستان آپ کو نہ دلا سکا اور اب آپ کی اپنی فوج بمعہ نیٹو کے اس یقین دہانی کے حصول میں کس قدر کامیاب ہو چکی ہے؛ مہربانی فرما کر ہمیں اس سے آگاہ کر دیں۔ آپ انہی سے بات کر رہے ہیں جن کو آپ تمام دنیا کے لئیے خطرہ گردانتے ہیں اور غور فرمائیے کہ یہ خطرہ دنیا میں وہیں گھر کرلیتا ہے جہاں آپ کی دخل اندازی شروع ہوتی ہے۔ اب یہ سمجھنے کے لئیے کوئی غیر معمولی دماغ درکار نہیں کہ اس "عالمگیر خطرے"کے پیچھے آپ کی وزیر خارجہ کی بیان کردہ "انویسٹمنٹ" کام دکھا رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو آپ کبھی بھی اس "عالم گیر خطرے" سے بات نہ کرتے۔
اگر یہ آپ سے پٹنے کے بعد امن پسند بن گئے ہیں تو مجھے کہنے دیجئیے کہ آپ افغانوں کی تاریخ کو نہایت بھونڈے انداز میں جھٹلانے کی ناکام کو شش کر رہے ہیں۔ آپ کسی ایک افغانی کو قتل کر کے روپوش ہو جائیں اور 50 سال بعد بھی اس کے ورثاء آپ کو دیکھ لیں تو وہ آپ سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ آپ نے اسے قتل کیوں کیا؟ بلکہ یہ قاتل کو مقتول سے ملانے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرتے۔ اس قوم کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ آپ سے ہار گئی ہے آپ کی خوش فہمی تو ہو سکتی ہے حقیقت ہرگز نہیں۔
نہ تو افغانستان کی جنگ سے قبل آپ کو یقین دہانیاں مل سکیں اور نہ ہی دس سال کی قتل و غارت گری کے بعد آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہاں سے واپس ہی نکل جائیں ؛ ناکامی اسی کا نام نہیں ہے؟؟؟۔
آپ اس خطے میں عدم استحکام پھیلانے آئے تھے اور یہ کام آپ نے بلوچستان پر قرارداد پیش کر کے اور تیز کر دیا ہے۔ جس روز ایران ، افغانستان اور پاکستان کے رہنما اسلام آباد میں یہ کہہ رہے تھے کہ "اب بیرونی طاقتوں کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دیں گے" اسی روز آپ نے تینوں ملکوں میں آباد بلوچوں سے ہمدردی دکھانا شروع کر دی ہے۔ یہ آپ کی کاریگری سے زیادہ اس خطے کی حکومتوں کا امتحان ہے کہ وہ یک جہت ہوتی ہیں یا آپ کی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ آپ کی حکومت نے بلوچوں والا پتہ بہت مناسب وقت پر کھیل کر پکا کھلاڑی ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت دیا ہے۔
 
Top