آج کل جب کسی سينير امريکی اہلکار کی جانب سے طالبان کی قيادت کے ساتھ کسی امن معاہدے کے امکانات کے بارے ميں کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اور رائے دہندگان چٹی پٹی شہ سرخياں اور طويل کالم لکھنا شروع کر ديتے ہيں۔ جو تجزيہ نگار سياسی مفاہمت اور بات چيت کے آپشن کو افغانستان ميں امريکی شکست قرار ديتے ہيں ان کو باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکام کی جانب سے تو اس آپشن کا استعمال افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل کيا گيا تھا۔
حضور، ہم نے کبھی خود کو تجزیہ نگار نہیں گردانا اور نہ ہی چٹ پٹی شہ سرخیاں میرا موضوع سخن رہی ہیں۔ دراصل کبھی کبھی غیر متوقع نتائج کچھ افراد کے اوسان اس برے طریقے سے خطا کر دیتے ہیں کہ ان کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کسی معاملہ میں ان کا مؤقف کیسے گرگٹ کی طرح رنگ بدل جاتا ہے۔
آپ مذاکرات کے جس آپشن کی بابت فرما رہے ہیں آپ ہی کی حکومت کی موجودہ وزیر خارجہ اور سابقہ صدر اس کی دھجیاں یہ کہہ کر اڑا چکے ہیں کہ "
ہم طالبان کو وسطی ایشیا میں اثر ورسوخ بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے"۔اس قطعی بات کے بعد آپ کے طالبان سے مذاکرات کے آپشن والے نئے مؤقف پر وہی شخص یقین کر سکتا ہے جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو یا پھر وہ انسانی احساسات سے عاری ہو۔
آپ جن یقین دہانیوں کے حصول کی بات کر رہے ہیں وہ یقین دہانیاں پاکستان آپ کو نہ دلا سکا اور اب آپ کی اپنی فوج بمعہ نیٹو کے اس یقین دہانی کے حصول میں کس قدر کامیاب ہو چکی ہے؛ مہربانی فرما کر ہمیں اس سے آگاہ کر دیں۔ آپ انہی سے بات کر رہے ہیں جن کو آپ تمام دنیا کے لئیے خطرہ گردانتے ہیں اور غور فرمائیے کہ یہ خطرہ دنیا میں وہیں گھر کرلیتا ہے جہاں آپ کی دخل اندازی شروع ہوتی ہے۔ اب یہ سمجھنے کے لئیے کوئی غیر معمولی دماغ درکار نہیں کہ اس "عالمگیر خطرے"کے پیچھے آپ کی وزیر خارجہ کی بیان کردہ "انویسٹمنٹ" کام دکھا رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو آپ کبھی بھی اس "عالم گیر خطرے" سے بات نہ کرتے۔
اگر یہ آپ سے پٹنے کے بعد امن پسند بن گئے ہیں تو مجھے کہنے دیجئیے کہ آپ افغانوں کی تاریخ کو نہایت بھونڈے انداز میں جھٹلانے کی ناکام کو شش کر رہے ہیں۔ آپ کسی ایک افغانی کو قتل کر کے روپوش ہو جائیں اور 50 سال بعد بھی اس کے ورثاء آپ کو دیکھ لیں تو وہ آپ سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ آپ نے اسے قتل کیوں کیا؟ بلکہ یہ قاتل کو مقتول سے ملانے میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہیں کرتے۔ اس قوم کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ آپ سے ہار گئی ہے آپ کی خوش فہمی تو ہو سکتی ہے حقیقت ہرگز نہیں۔
نہ تو افغانستان کی جنگ سے قبل آپ کو یقین دہانیاں مل سکیں اور نہ ہی دس سال کی قتل و غارت گری کے بعد آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہاں سے واپس ہی نکل جائیں ؛ ناکامی اسی کا نام نہیں ہے؟؟؟۔
آپ اس خطے میں عدم استحکام پھیلانے آئے تھے اور یہ کام آپ نے بلوچستان پر قرارداد پیش کر کے اور تیز کر دیا ہے۔ جس روز ایران ، افغانستان اور پاکستان کے رہنما اسلام آباد میں یہ کہہ رہے تھے کہ "اب بیرونی طاقتوں کو دخل اندازی کی اجازت نہیں دیں گے" اسی روز آپ نے تینوں ملکوں میں آباد بلوچوں سے ہمدردی دکھانا شروع کر دی ہے۔ یہ آپ کی کاریگری سے زیادہ اس خطے کی حکومتوں کا امتحان ہے کہ وہ یک جہت ہوتی ہیں یا آپ کی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ آپ کی حکومت نے بلوچوں والا پتہ بہت مناسب وقت پر کھیل کر پکا کھلاڑی ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت دیا ہے۔