میرا شعری مجموعہ شائع ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ عمران شناور

شمشاد

لائبریرین
السلام علیکم! میں یہاں کتاب کا سرورق اور نمونہِ کلام پوسٹ کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میری پوسٹ میں تدوین یا edit کی کوئی آپشن نہیں ہے۔ رہنمائی درکار ہے

تدوین کی سہولت مراسلہ ارسال کرنے کے بعد 30 منٹ تک رہتی ہے۔

بعد میں تدوین کرنی ہو تو مراسلہ رپورٹ کر دیں۔ کوئی بھی مدیر آپ کا مراسلہ تدوین کر دے گا۔
 
”ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے“ میں سے نمونہِ کلام احباب کی نذر:
کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو
میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو
،،،،،،،،،،
لوگ پابندِ سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں
بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں
پیش خیمہ ہے شناور یہ کسی طوفان کا
سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں
،،،،،،،،،،
ستارے سب مرے مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے
میں تھک کر گر گیا ٹوٹا نہیں ہوں
بہت مضبوط ہیں اعصاب میرے
،،،،،،،،،،
راز کی بات کوئی کیا جانے
میرے جذبات کوئی کیا جانے
میرے حصے میں ہجر آیا ہے
ہجر کی رات کوئی کیا جانے
،،،،،،،،،،
بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے
اب تو جینے کی آس کم کم ہے
اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں
وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے
،،،،،،،،،،
کتنا اچھا دور تھا ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے
،،،،،،،،،،
انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام
حالانکہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام
،،،،،،،،،،
تُو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر
جاتے ہوئے بس ایک نظر دیکھ لیا کر
،،،،،،،،،،
خوبصورت لگے گی یہ دنیا
اپنے باطن کی تُو سنوار آنکھیں
،،،،،،،،،،
جابجا خون نظر آتا ہے
یہ مرے شہر کی تصویر نہیں
،،،،،،،،،،
مسندوں پر ہوگئے قابض یزید
اس نگر کو کربلا ہونا ہی تھا
،،،،،،،،،،
اپنی تنہائی بھی قبول نہیں
تجھ سا ہرجائی بھی قبول نہیں
،،،،،،،،،،
اس حقیقت سے تو انکار نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ کردار نہیں ہو سکتا
یہ محبت تو اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس اذیت سے وہ دوچار نہیں ہو سکتا
،،،،،،،،،،
اس قدر مصروف رکھتی ہیں تری یادیں مجھے
میں تو اکثر بھول جاتا ہوں ضروری کام تک
،،،،،،،،،،
کچھ نہ کہتا ہو کسی سے اور سنتا سب کی ہو
ایک ایسے شخص سے بھی پیار کرکے دیکھیے
،،،،،،،،،،
کس قدر خوش ہیں تری بستی کے لوگ
ایک دیوانے کو پتھر مار کر
،،،،،،،،،،
میرے جیسے اگر ہزاروں ہیں
شہر میں تُو بھی بے نظیر نہیں
میرا خیال ہے نمونے کے طور پر کافی اشعار لکھ دئیے ہیں۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

بہت عمدہ اور فکرانگیز کلام ہے، دل کررہا ے مجموعہ فوری طور پہ خرید کر پڑھ لیا جائے۔
 

شیہک طاہر

محفلین
نمونہء کلام پڑھا۔ بہت خوب ہے۔
محفل کے تمام احباب کو سلام اور دعائیں
میرا پہلا شعری مجموعہ ”ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے"
کے نام سے خزینہ علم و ادب الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور 04237314169 نے شائع کیا ہے۔
945473_4145571857003_7526954_n.jpg

تمام احباب کا بہت شکریہ

”ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے“ میں سے نمونہِ کلام احباب کی نذر:
کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو
میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو
،،،،،،،،،،
لوگ پابندِ سلاسل ہیں مگر خاموش ہیں
بے حسی چھائی ہے ایسی گھر کے گھر خاموش ہیں
پیش خیمہ ہے شناور یہ کسی طوفان کا
سب پرندے اڑ گئے ہیں اور شجر خاموش ہیں
،،،،،،،،،،
ستارے سب مرے مہتاب میرے
ابھی مت ٹوٹنا اے خواب میرے
میں تھک کر گر گیا ٹوٹا نہیں ہوں
بہت مضبوط ہیں اعصاب میرے
،،،،،،،،،،
راز کی بات کوئی کیا جانے
میرے جذبات کوئی کیا جانے
میرے حصے میں ہجر آیا ہے
ہجر کی رات کوئی کیا جانے
،،،،،،،،،،
بھوک کم کم ہے پیاس کم کم ہے
اب تو جینے کی آس کم کم ہے
اپنی حالت اسے بتا نہ سکوں
وہ جو چہرہ شناس کم کم ہے
،،،،،،،،،،
کتنا اچھا دور تھا ہم نے بزرگوں سے سنا
چھوڑ کر جاتے تھے جب ہم اپنے اپنے گھر کھلے
،،،،،،،،،،
انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام
حالانکہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام
،،،،،،،،،،
تُو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر
جاتے ہوئے بس ایک نظر دیکھ لیا کر
،،،،،،،،،،
خوبصورت لگے گی یہ دنیا
اپنے باطن کی تُو سنوار آنکھیں
،،،،،،،،،،
جابجا خون نظر آتا ہے
یہ مرے شہر کی تصویر نہیں
،،،،،،،،،،
مسندوں پر ہوگئے قابض یزید
اس نگر کو کربلا ہونا ہی تھا
،،،،،،،،،،
اپنی تنہائی بھی قبول نہیں
تجھ سا ہرجائی بھی قبول نہیں
،،،،،،،،،،
اس حقیقت سے تو انکار نہیں ہو سکتا
ہر کوئی صاحبِ کردار نہیں ہو سکتا
یہ محبت تو اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس اذیت سے وہ دوچار نہیں ہو سکتا
،،،،،،،،،،
اس قدر مصروف رکھتی ہیں تری یادیں مجھے
میں تو اکثر بھول جاتا ہوں ضروری کام تک
،،،،،،،،،،
کچھ نہ کہتا ہو کسی سے اور سنتا سب کی ہو
ایک ایسے شخص سے بھی پیار کرکے دیکھیے
،،،،،،،،،،
کس قدر خوش ہیں تری بستی کے لوگ
ایک دیوانے کو پتھر مار کر
،،،،،،،،،،
میرے جیسے اگر ہزاروں ہیں
شہر میں تُو بھی بے نظیر نہیں
میرا خیال ہے نمونے کے طور پر کافی اشعار لکھ دئیے ہیں۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
 

اسلم رضا غوری

لائبریرین
جناب ،عمران شناور ۔
آپ کو آپ کی کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔امید کرتا ہوں کہ جلد ہی آپ اپنی اس کتاب کی پسندیدگی کے بعد دیگر کتابیں بھی اشاعت کرائیں گے۔اور ہم جیسے افراد کی اصلاح بھی فرمائیں گے۔
 
Top