ن
نامعلوم اول
مہمان
غزل یہ بڑی اچھی ہوئی ہے۔ مبارک ہو۔ پہلے شاید میں نے نہیں دیکھی!
آپ نے اوپر کہا:
میں نے جناب شیخ کو دیکھ کر کہا:
نہ وہ سمجھیں گے۔ نہ فتویٰ دیں گے! پھر یہ دیکھو:
آپ نے اوپر کہا:
اس معاملے میں ایک اور طریقہ بھی ہے۔ یعنی جب "ویسی" بات کرنی ہو، تو ایسے انداز میں کرو، کہ "شیخ" صاحب سمجھ ہی نہ سکیں۔ میں نے مفتی ملاؤں کے ساتھ بڑا وقت گزارا ہے۔ موٹے موٹے لفظ وہ خوب سمجھتے ہیں۔ مگر لطیف بات نہیں سمجھ سکتے۔ بس طریقہ یہ ہونا چاہیے، کہ بات چاہے موٹے الفاظ میں ہو، چاہے ہلکے، ہونی ایسے لطیف انداز میں چاہیے، کہ جنابِ شیخ کے سر کے اوپر سے ہی گزر جائے!!جی بہتر ہے، میں آپ کا شکرگزار ہوں اور آئندہ کوشش بھی کروں گا کہ تذکر و مضامینِ خمریات کو سوائے برائے تشبیہات و استعارات استعمال نہ کروں۔
میں نے جناب شیخ کو دیکھ کر کہا:
نیرنگِ آرزو کو بعنوانِ بندگی
ڈھالا کیے بشکلِ قیام و سجود ہم
نہ وہ سمجھیں گے۔ نہ فتویٰ دیں گے! پھر یہ دیکھو:
رکھوں کیا خیر کی امید کامل ؔ، وہ بتِ ظالم
کرے جب کار فرمائی، ستم کی انتہا کیوں ہو!
کوئی نہ سمجھا!!