رانا
محفلین
اللہ کے فضل سے گذشتہ ہفتے MCS کے خاتمہ بالخیرپر ہم نے سوچا کہ اب جاب کے لئے انٹرویو دینا شروع کردینا چاہئے۔ پچھلے ہفتہ میں 4 جابز آئی تھیں 3 جگہ سی وی میل کیا تو صرف ایک نے اس جوہر قابل کو قابل التفات جانا اورجونئیر پروگرامر کی جاب کے انٹرویو کے لئے کل بروز ہفتہ بلا لیا۔ تین دن سے ہم اس کی تیاری کررہے تھے اور دل میں خود ہی سوال سوچتے اور خود ہی اس کا جواب دیتے۔ پہلا انٹرویو تھا اس لئے سب سے معلومات کرتے رہے کہ کیا پوچھا جاتا ہے۔
جب وقت مقررہ پر پہنچے تو وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گئے جہاں کوئی بیس کے قریب کرسیاں قرینے سے لگی تھیں اور سامنے ٹیبل پر ایک کاغذ اور پینسل رکھی تھی۔ یااللہ خیر یہ تو کوئی امتحانی ہال لگ رہا ہے۔ تین دن کی محنت جو انٹرویو کے لئے مختلف پوز بنا بنا کر کی تھی مٹی میں ملتی نظر آئی۔ کرسیوں پر نظر دوڑائی تو ایک محترمہ کے علاوہ سب ہی اپنے ڈپارٹمنٹ کے ساتھی نظر آئے۔ عجیب اتفاق تھا بہرحال سب سے ہیلو ہائے ہوئی۔ پھر ایک نوجوان مولانا تشریف لائے آتے ہی پہلے تو اپنی کمپنی کا تعارف کرایا پھر ایک لیکچر دیا کہ حلال چیزیں کھانی چاہئیں۔ بڑی حیرت ہوئی کہ پروگرامر کی جاب ہے اور لیکچر اسلامیات کا۔
خیر سب کو ٹیسٹ پیپرز بانٹے گئے۔ کل بارہ سوال تھے۔ پہلا تو سر کے اوپر سے گزرگیا دوسرا ہم نے گزار دیا تیسرے میں کچھ abbreviation پوچھی گئی تھیں جن میں سے ایک PIN تھی جو کہ کبھی پڑھی تھی لیکن اب یاد نہیں آرہی تھی بڑا سٹپٹائے کہ پروگرامر کی جاب کے لئے آئے ہیں لیکن لگتا ہے طارق عزیز شو میں کار کے مقابلے کا امتحان دے رہے ہیں۔ اس سوال کو بھی چھوڑا نیچے دیکھا تو صفحہ ختم شد۔ باقی اگلے صفحہ پر۔ اب شرم آرہی ہے صفحہ پلٹتے ہوئے کہ پہلا صفحہ بالکل خالی چھوڑ کر کس منہ سے اگلے صفحے کا منہ دیکھیں۔ ادھر اُدھر دیکھا کوئی متوجہ نہیں تھا۔ خاموشی سے صفحہ پلٹا تو سوال تھا کہ کچھ ریکارڈز میں سے 1000ریکارڈز خراب ہیں۔ اگرخراب ریکارڈز40 فیصد ہیں تو ٹوٹل کتنے ریکارڈز ہیں۔ بڑے حیران ہوئے کہ کہیں غلطی سے پرائمری کے امتحان کا صفحہ تو نہیں لگا دیا انہوں نے۔ بڑی خوشی سے اس سوال کو حل کیا اورآستینیں چڑھا لیں کہ اب دیکھتے ہیں کوئی سوال کیسے بچ کر جاتا ہے۔ لیکن اگلا ہی سوال آدم بو کی طرح ڈراونا چہرہ لئے کھڑا تھا۔ اسے پاس کرکے آگے گئے تو بس چلتے ہی چلے گئے۔ 12 میں سے صرف 2 کا یقین تھا کہ درست کئے ہیں باقی 10 کے بارے میں یہی سوچتا رہا کہ کس سبجیکٹ کے سوال تھے۔ شائد جس دن ان کے بارے میں پڑھایا گیا تھا ہو نہ ہو ہم یونیورسٹی سے غیر حاضر ہوں۔ اس طرح کے خیالات سے دل کو تسلی دی۔ آدھ گھنٹے کے بعد پیپر ختم ہوا۔ ہمارا تو دس منٹ میں ہی ہوگیا تھا وہ تو بس ذرا بھرم رکھنے کے لئے آدھے گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ برابر میں اپنی کلاس کا CR بیٹھا تھا اس سے پوچھا کیسا ہوا تو کہنے لگا کہ ایک کا تو یقین ہے کہ درست ہوگا۔ میں نے کہا پھرمیں تم سے زیادہ لائق ہوں کیونکہ مجھے تو دو کا یقین ہے۔ خیر اس کے بعد چائے پیش کی گئی یہ ہمارے لئے نیا تجربہ تھا کیونکہ کسی نے یہ نہیں بتایا تھا چائے بھی ملے گی۔ لیکن دوست نے بتایا کہ یہ صرف یہاں ملی ہے ورنہ کوئی پوچھتا بھی نہیں ہم خواروں کو۔ چائے پی کر پیپر بنانے والے کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے وہاں سے نکلے۔ تمام راستے یہ بحث ہوتی رہی کہ پیپر کس نے بنایا ہوگا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپر ایڈمنسٹریشن نے بنایا ہوگا جسے معلوم ہی نہیں ہوگا کہ یہ پروگرمر کی جاب ہے۔
تو جناب یہ تھا ہمارا پہلا انٹرویو۔ یہ تفصیلات ان کے لئے شئیر کی گئی ہیں جنہوں نے ابھی نئی نئی جوتیاں خریدی ہیں چٹخانے کے لئے۔ انشاء اللہ آئیندہ بھی اپنے تجربات شئیر کرتا رہوں گا۔ ابھی تو پہلا عشق تھا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
جب وقت مقررہ پر پہنچے تو وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گئے جہاں کوئی بیس کے قریب کرسیاں قرینے سے لگی تھیں اور سامنے ٹیبل پر ایک کاغذ اور پینسل رکھی تھی۔ یااللہ خیر یہ تو کوئی امتحانی ہال لگ رہا ہے۔ تین دن کی محنت جو انٹرویو کے لئے مختلف پوز بنا بنا کر کی تھی مٹی میں ملتی نظر آئی۔ کرسیوں پر نظر دوڑائی تو ایک محترمہ کے علاوہ سب ہی اپنے ڈپارٹمنٹ کے ساتھی نظر آئے۔ عجیب اتفاق تھا بہرحال سب سے ہیلو ہائے ہوئی۔ پھر ایک نوجوان مولانا تشریف لائے آتے ہی پہلے تو اپنی کمپنی کا تعارف کرایا پھر ایک لیکچر دیا کہ حلال چیزیں کھانی چاہئیں۔ بڑی حیرت ہوئی کہ پروگرامر کی جاب ہے اور لیکچر اسلامیات کا۔
خیر سب کو ٹیسٹ پیپرز بانٹے گئے۔ کل بارہ سوال تھے۔ پہلا تو سر کے اوپر سے گزرگیا دوسرا ہم نے گزار دیا تیسرے میں کچھ abbreviation پوچھی گئی تھیں جن میں سے ایک PIN تھی جو کہ کبھی پڑھی تھی لیکن اب یاد نہیں آرہی تھی بڑا سٹپٹائے کہ پروگرامر کی جاب کے لئے آئے ہیں لیکن لگتا ہے طارق عزیز شو میں کار کے مقابلے کا امتحان دے رہے ہیں۔ اس سوال کو بھی چھوڑا نیچے دیکھا تو صفحہ ختم شد۔ باقی اگلے صفحہ پر۔ اب شرم آرہی ہے صفحہ پلٹتے ہوئے کہ پہلا صفحہ بالکل خالی چھوڑ کر کس منہ سے اگلے صفحے کا منہ دیکھیں۔ ادھر اُدھر دیکھا کوئی متوجہ نہیں تھا۔ خاموشی سے صفحہ پلٹا تو سوال تھا کہ کچھ ریکارڈز میں سے 1000ریکارڈز خراب ہیں۔ اگرخراب ریکارڈز40 فیصد ہیں تو ٹوٹل کتنے ریکارڈز ہیں۔ بڑے حیران ہوئے کہ کہیں غلطی سے پرائمری کے امتحان کا صفحہ تو نہیں لگا دیا انہوں نے۔ بڑی خوشی سے اس سوال کو حل کیا اورآستینیں چڑھا لیں کہ اب دیکھتے ہیں کوئی سوال کیسے بچ کر جاتا ہے۔ لیکن اگلا ہی سوال آدم بو کی طرح ڈراونا چہرہ لئے کھڑا تھا۔ اسے پاس کرکے آگے گئے تو بس چلتے ہی چلے گئے۔ 12 میں سے صرف 2 کا یقین تھا کہ درست کئے ہیں باقی 10 کے بارے میں یہی سوچتا رہا کہ کس سبجیکٹ کے سوال تھے۔ شائد جس دن ان کے بارے میں پڑھایا گیا تھا ہو نہ ہو ہم یونیورسٹی سے غیر حاضر ہوں۔ اس طرح کے خیالات سے دل کو تسلی دی۔ آدھ گھنٹے کے بعد پیپر ختم ہوا۔ ہمارا تو دس منٹ میں ہی ہوگیا تھا وہ تو بس ذرا بھرم رکھنے کے لئے آدھے گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ برابر میں اپنی کلاس کا CR بیٹھا تھا اس سے پوچھا کیسا ہوا تو کہنے لگا کہ ایک کا تو یقین ہے کہ درست ہوگا۔ میں نے کہا پھرمیں تم سے زیادہ لائق ہوں کیونکہ مجھے تو دو کا یقین ہے۔ خیر اس کے بعد چائے پیش کی گئی یہ ہمارے لئے نیا تجربہ تھا کیونکہ کسی نے یہ نہیں بتایا تھا چائے بھی ملے گی۔ لیکن دوست نے بتایا کہ یہ صرف یہاں ملی ہے ورنہ کوئی پوچھتا بھی نہیں ہم خواروں کو۔ چائے پی کر پیپر بنانے والے کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے وہاں سے نکلے۔ تمام راستے یہ بحث ہوتی رہی کہ پیپر کس نے بنایا ہوگا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیپر ایڈمنسٹریشن نے بنایا ہوگا جسے معلوم ہی نہیں ہوگا کہ یہ پروگرمر کی جاب ہے۔
تو جناب یہ تھا ہمارا پہلا انٹرویو۔ یہ تفصیلات ان کے لئے شئیر کی گئی ہیں جنہوں نے ابھی نئی نئی جوتیاں خریدی ہیں چٹخانے کے لئے۔ انشاء اللہ آئیندہ بھی اپنے تجربات شئیر کرتا رہوں گا۔ ابھی تو پہلا عشق تھا آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔