محسن حجازی
محفلین
دل چھوٹا مت کریں، آپ جنہیں سندھی سمجھ رہے ہیں وہ سندھی بھی نہیں ہیں زرداری بلوچ ہیں اور بھٹو فیملی بھی سندھی نہیں ہے اس کے متعلق مزید تفصیلات پھر کبھی سہی۔ اسٹیبلشمنٹ کا پنجاب سے کوئی لینا دینا نہیں پنجابی تو خود مظلوم ہے چاہے کاشت کار ہو یا مزدور۔ صرف کسی خاص علاقے سے نسبت ہی اگر معیار ٹھہرتا ہے تو پھر بیشتر انبیا پر اعتماد مشکل ہے۔معاف کیجیے گا میں کچھ اسی طرح چیر پھاڑ کر کے سوچتا ہوں۔
بے نظیر کے قتل کے پیچھے خود حکومتی ہاتھ ہے یہ بات میں پورے بقین سے کہتا ہوں جائے وقوعہ کو دھو دھلا کر فورا صاف کر دیا گیا اور بات ختم۔ جرنیلوں کے ٹولے نے پہلے جہاد کے نام پر ملک کی ایسی تیسی پھیری اب روشن خیالی کے نام پر لوٹ رہے ہیں اس ملک پر فوج کی اجارہ داری ہے باقی سب کٹھ پتلیاں ہیں یہ تلخ حقیقت ہمیں تسلیم کراناہوگی۔ مرحومہ نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ اگر اس ملک میں حکمرانی کرنا ہے تو عوامی طاقت پر نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کیں اور امریکی ایوانوں میں یہ بات بہ تکرار پہنچائی کہ مسٹر مشرف صحیح کاکردگی نہیں دکھا رہے۔ اس پر امریکیوں نے مشرف پر دباؤ دالنا شروع کیا کہ انہیں بھی شامل اقتدار کیا جائے۔ مشرف کو جمالی ، شوکت شجاعت اور سومرو جیسے شریک اقتدار لوگوں کی لت لگ چکی تھی کہاں بے نظیر جیسی تیڑ طرار خاتون جو دو بار وزیر اعظم بھی رہی۔ کارساز بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی اور اب یہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔۔
اگر نواز شریف اور بے نظیر کا موازنہ کیا جائے تو بے نظیر بہرحال بے حد ذہین سیاستدان تھیں اور جیسے انہوں نے جنرل کو دیوار سے لگانےکا سفر شروع کر رکھا تھا وہ جنرل کے لیے خاصا پریشان کن تھا۔ باقی یہ کہ اب پارٹی کی قیادت جیسے تبدیل ہوئی ہے وہ بھی ماشااللہ ہے اور بادشاہت کی درخشاں مثال ہے۔ رنگ نسل یا علاقے اور قومیت کی بنیاد پر صحیح غلط کا فیصلہ کرنا بذات خود جہالت پر دلیل ہے۔ ہمارے رہنما ہم خود ہیں۔۔۔ اپنے پاسباں ہم خود ہیں۔۔۔۔ بے نظیر جیسی اہم شخصیت کو شہید کرنے بعد اس کی تحقیقات سے جیسے پہلو تہی کی جارہی ہے تو آپ سوچیئے کہ اگر خدا نخواستہ اگر آپ کا کوئی عزیز ہوتا تو۔۔۔۔ ہمارا کون محافظ ہے؟ اگر میں اور آپ زندہ ہیں تو یہ محض حسن اتفاق ہے اور یہ بھی کہ ہمارا کوئی جانی دشمن نہیں ہے۔ (اس مراسلے کے بعد شاید کچھ میرے ہو جائیں۔۔۔۔)
یہ میری ڈاتی آرا ہیں جن سے اتفاق ضروری نہیں۔ (اور نہ اختلاف ضروری ہے!)
بے نظیر کے قتل کے پیچھے خود حکومتی ہاتھ ہے یہ بات میں پورے بقین سے کہتا ہوں جائے وقوعہ کو دھو دھلا کر فورا صاف کر دیا گیا اور بات ختم۔ جرنیلوں کے ٹولے نے پہلے جہاد کے نام پر ملک کی ایسی تیسی پھیری اب روشن خیالی کے نام پر لوٹ رہے ہیں اس ملک پر فوج کی اجارہ داری ہے باقی سب کٹھ پتلیاں ہیں یہ تلخ حقیقت ہمیں تسلیم کراناہوگی۔ مرحومہ نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ اگر اس ملک میں حکمرانی کرنا ہے تو عوامی طاقت پر نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کیں اور امریکی ایوانوں میں یہ بات بہ تکرار پہنچائی کہ مسٹر مشرف صحیح کاکردگی نہیں دکھا رہے۔ اس پر امریکیوں نے مشرف پر دباؤ دالنا شروع کیا کہ انہیں بھی شامل اقتدار کیا جائے۔ مشرف کو جمالی ، شوکت شجاعت اور سومرو جیسے شریک اقتدار لوگوں کی لت لگ چکی تھی کہاں بے نظیر جیسی تیڑ طرار خاتون جو دو بار وزیر اعظم بھی رہی۔ کارساز بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی اور اب یہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔۔
اگر نواز شریف اور بے نظیر کا موازنہ کیا جائے تو بے نظیر بہرحال بے حد ذہین سیاستدان تھیں اور جیسے انہوں نے جنرل کو دیوار سے لگانےکا سفر شروع کر رکھا تھا وہ جنرل کے لیے خاصا پریشان کن تھا۔ باقی یہ کہ اب پارٹی کی قیادت جیسے تبدیل ہوئی ہے وہ بھی ماشااللہ ہے اور بادشاہت کی درخشاں مثال ہے۔ رنگ نسل یا علاقے اور قومیت کی بنیاد پر صحیح غلط کا فیصلہ کرنا بذات خود جہالت پر دلیل ہے۔ ہمارے رہنما ہم خود ہیں۔۔۔ اپنے پاسباں ہم خود ہیں۔۔۔۔ بے نظیر جیسی اہم شخصیت کو شہید کرنے بعد اس کی تحقیقات سے جیسے پہلو تہی کی جارہی ہے تو آپ سوچیئے کہ اگر خدا نخواستہ اگر آپ کا کوئی عزیز ہوتا تو۔۔۔۔ ہمارا کون محافظ ہے؟ اگر میں اور آپ زندہ ہیں تو یہ محض حسن اتفاق ہے اور یہ بھی کہ ہمارا کوئی جانی دشمن نہیں ہے۔ (اس مراسلے کے بعد شاید کچھ میرے ہو جائیں۔۔۔۔)
یہ میری ڈاتی آرا ہیں جن سے اتفاق ضروری نہیں۔ (اور نہ اختلاف ضروری ہے!)