میرزا عبدلقادر بیدل کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ

حیدرآبادی

محفلین
ابوالمعانی میرزا عبدلقادر بیدل
کا شمار ہندوستان کے مشہور ترین فارسی شعراء میں کیا جاتا ہے۔
آپ 1644ء میں پٹنہ (بہار) میں پیدا ہوئے اور 1720ء میں دہلی میں انتقال کیا۔ آپ کے خاندان کا اصل تعلق بخارا سے تھا۔ شیخ سعدی کے ایک قطعہ سے متاثر ہو کر آپ نے اپنا تخلص "بیدل" منتخب کیا تھا۔ اس زمانے میں فارسی زبانی اور تحریری طور پر مستعمل اصل زبان تھی۔ اردو عالم طفولیت میں تھی اور اس کے زخیرہ الفاظ میں کئی ہندی الفاظ تھے۔ لیکن تعلیم یافتہ طبقہ فارسی زبان ہی کا استعمال کرتا تھا اسی لئے زیادہ تر کتابیں فارسی زبان ہی میں لکھی جاتی رہیں۔
بیدل کا کلام بہت ہی اعلیٰ معیار کا تھا اور ان کی مشکل پسندی کا اعتراف مرزا غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی کیا ہے۔ حالانکہ غالب کو فارسی زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی لیکن پھر بھی وہ اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے کہ بیدل کی طرز میں شاعری کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے

تین صدیوں بعد بیدل کے فارسی کلام کا اردو ترجمہ سید نعیم حامد علی الحامد نے "بہارِ ایجادی بیدل" کے زیرعنوان کیا ہے۔ نعیم حامد خود بھی اعلیٰ درجہ کے شاعر ہیں لہذا بیدل کے خیالات و احساسات کو گرفت میں لینے وہ کامیاب رہے۔
مشہور اردو نقاد پروفیسر انور مسعود نے کہا ہے کہ : اردو زبان اصلی فارسی متن کے صحیح معنوں کے اظہار کی اہلیت نہیں رکھتی اسی وجہ سے ترجمہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
پروفیسر انور مسعود نے اعتراف کیا کہ نعیم حامد کی طرف سے بیدل کے کلام کا اردو ترجمہ طبع زاد شاعری کی مثال بن گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس ترجمہ کیلئے نعیم حامد نے 20 برس صرف کئے ہیں۔

ساری تخیلاتی بلندیوں ، مسکراہٹوں اور خیالات کی گہرائیوں کو برقرار رکھتے ہوئے ، اور دونوں زبانوں کے مانوس اور عام الفاظ کو بھی ان کی اصل شکل میں جوں کا توں رکھتے ہوئے مطالب کی پیشکشی کا کارنامہ ایک قابل قدر کام بن گیا ہے۔

چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بےگناہ جب بھی سرِ دار نظر آتے ہیں
ایک نئے دور کے آثار نظر آتے ہیں
سرفرازی کے سب آثار نظر آتے ہیں
اہل حق دار پہ سردار نظر آتے ہیں
کسی صورت میں میرا سر تری ٹھوکر میں کیا ہوگا
یہ ممکن ہے کہ تیرا تاج ہوگا میری ٹھوکر میں

***
لالچی محترم نہیں ہوتا
شرم آتی نہیں بھکاری کو
شوخی بادِ صبا کی کارفرمائی کو دیکھ
اس نے گلشن کا ہر اک تنکا سنہری کر دیا
کوئی بھی مغموم دنیا میں نہیں میری طرح
عمر پنجرے میں کٹی دیکھا نہیں صیاد کو

***
دل بیاد پرتو جلوہ مجسم آگ ہے
سامنے سورج کے آئینہ مجسم آگ ہے


---
احمد الدین اویسی کے انگریزی مقالے (ترجمہ : رفعت صدیقی) سے انتخاب۔ (بشکریہ روزنامہ منصف ، حیدرآباد دکن)
 

محمد وارث

لائبریرین
ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل علیہ الرحمہ کے چند اشعار

بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مَشَو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا

بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔


بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر، در دلِ دریا کراں

میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔


چنیں کُشتۂ حسرتِ کیستَم من؟
کہ چوں آتش از سوختن زیستَم من

میں کس کی حسرت کا کشتہ ہوں کہ آتش کی طرح جلنے ہی سے میری زیست ہے۔
 
رمز آشنائے معنی ہر خیرہ سر نہ باشد
طبع سلیم فضل است ارث پدر نہ باشد

یار کے رمز کو سمجھنا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں ہے۔
طبیعت سلیم اللہ تبارک تعالیٰ کا فضل ہے باپ دادا کی میراث نہیں کہ دنیا کے دستور کے مطابق مل جائے گی۔
نہ جانے کیوں ناشناس کی گائی ہوئی ایک غزل کا مطلع اور مقطع آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے کو چاہ رہا ہے
دردِ آتش کدہ دل بہ کسے نتوان گفت
خبرے صاحبے در گوش کسے نتوان گفت
دل میں بھڑکتی ہوئی آگ کا درد اور محبوب کا حال ہر کسی کو نہیں بتایا جاسکتا ہے۔
اے تنک حوصلہ تو محرم اسرار نہ ای
راز سیمرغ بہ پیشے مگس نتوان گفت
اے کم حوصلہ تو محرم اسرار نہیں ہے(یعنی تھوڑی سی آزمائش سے ہی گھبرا جانے والوں میں سے ہے تو پھر اللہ کے رازوں کا امین کیسے ہوسکتا ہے)جیسے کہ مکھی کو سیمرغ کا راز نہیں بتایا جاسکتا ہے۔
بیدل کی طرح شاہ نیاز بریلوی نے بھی معرکہ کی شاعری کی ہے لیکن اب وہ ذوق کہاں اور وہ اخوان کہاں۔۔۔۔۔۔۔تبرکا ایک شعر پیش خدمت ہے
مست گشتم از دو چشمے ساقی اے پیمانہ نوش
الوداع اے ننگ و ناموس الفراق اے عقل و ہوش(نیاز)
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
حیدر آبادی صاحب غالب صرف متاثر نہیں تھے بلکہ وہ ساری عمر بیدل کے سحر سے نہ نکل سکے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مرزا صاحب بچپن میں طرزِ بیدلؔ، شوکتؔ اور اسیرؔ کے گرفتار تھے پھرجیسے جیسے ان کا شعور بلندیوں کو چھوتا گیا انہوں نے ظہوریؔ، اور عرفیؔ جیسے ستاروں پر کمند ڈالی اور ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے خود کو ان سے آگے نکلتا پایا
غالبؔ کے مزاج کو نہ سمجھنے والے آلسی بڑی آسانی سے اسے مرزا کی شاعرانہ بڑھک سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ صرف مرزا غالبؔ ہی کا اعجاز ہے کہ وہ بیک وقت اپنے مداح بھی تھے اور نقاد بھی
ایک شعر کا ترجمہ ملاحظہ ہو
غالبؔ اگر مزید شاعری نہ بھی کرو، تب بھی جس مقام پر تم ہو
شیخ علی حزیںؔ کے برابر تو ہو ہی چکے ہو

اے کہ تو ظہوری ؔ اور نظیری کی شاعری کے گن گاتا ہے
غالبؔ کو نظر انداز مت کر کہ تیرے زمانے میں ہے
 
Top