میرزا محسن تاثیر تبریزی کا تعارف

حسان خان

لائبریرین
میرزا محسن تاثیر تبریزی (۱۰۶۰-۱۱۳۱ھ) صفوی دور کے اواخر کے سبکِ ہندی میں شعر کہنے والے اور صفوی سلسلے کے بادشاہوں شاہ سلیمان اور شاہ سلطان حسین کی مداحی کرنے والے فارسی گو شاعروں میں سے ہیں۔
تاثیر نے اصفہان میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ اُن کے جدِ پدری ابوالخان تبریزی اور جدِ مادری محمد حسین چلبی تھے جنہیں شاہ عباس اول (متوفی ۱۰۳۸ھ) نے تبریز سے اصفہان منتقل کروا کر اپنے ہی ہاتھوں بنیاد رکھے گئے محلے عباس آباد میں آباد کر دیا تھا۔
اصفہان میں تاثیر نے دو استادوں آقا حسین خوانساری اور محمد طاہر 'وحید' قزوینی کے پاس درس پڑھا تھا۔ وہ جوانی میں صائب تبریزی (متوفی ۱۰۸۱ء) کے ہم نشیں رہے اور اس شاعرِ بزرگ کے ساتھ اُنہیں فکر و بحث اور مشاعرے کرنے کا موقع ملا۔ حزین لاہیجی کا شمار بھی تاثیر کے دیگر ہم نشینوں میں ہوتا تھا۔ اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہم نشینی تاثیر کے پختگی اور میانہ سالی کے دور میں واقع ہوئی تھی۔
شاہ سلیمان اور شاہ سلطان حسین کے علاوہ تاثیر کے ممدوحوں میں صفوی سلطنت کے چند وزیر بھی شامل تھے جن میں محمد طاہر قزوینی، عبدالعزیز خان، محمد خان اور مومن خان ایشیک آقاسی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ وہ شعر سرائی کے علاوہ علمِ حساب اور امورِ دیوانی میں بھی تبحر رکھتے تھے اور ظاہراً صفوی دور کے اواخر میں کچھ مدت عراق و یزد کے امورِ مالی و دیوانی کے انتظام کے عہدے دار تھے، ہرچند وہ ۱۱۲۰ھ میں بدخواہوں کی بدگوئی کے باعث معزول ہو گئے۔ اس ماجرے کے بعد تاثیر نے سرکاری مناصب سے ہاتھ کھینچ لیا اور اصفہان لوٹ گئے اور سرانجام اسی شہر میں فوت ہوئے۔ بہت سے محققوں نے تاثیر کی وفات کا ۱۱۲۹ھ میں ہونا تخمینہ لگایا ہے، لیکن نخجوانی نے تاثیر کے ہم عصر شاعر میرزا داؤد اصفہانی کے ایک مادۂ تاریخ سے استناد کرتے ہوئے اُن کی وفات کو ۱۱۳۱ھ میں مانا ہے۔
اُن کے کہے ہوئے اشعار کلیات میں جمع کیے جا چکے ہیں۔ ظاہراً یہ اشعار ابتدا ہی سے محلِ حوالہ رہے تھے کیونکہ اولاً تو اُن کے کلیات کے قدیم ترین قلمی نسخوں کی کتابت شاعر کی وفات سے بھی پہلے ہوئی تھی، اور ثانیاً اکثر تذکرہ نویسوں نے اُن کی شاعری کی کمیت و کیفیت کے بارے میں بحث کی ہے۔ مثلاً حزین کہتا ہے: اُن کے اشعار مرتبۂ کمال سے نزدیک ہو رہے تھے، لیکن اجل نے اُنہیں مہلت نہیں دی۔ علی ابراہیم خلیل کا ماننا ہے کہ اُن کے اشعار تازہ مضامین اور متاخرین کے شیوے کے حامل ہیں۔ وہ مزید کہتا ہے کہ تاثیر نے شاہجہاں آباد میں مقیم حکیم الممالک شیخ حسن شہرت کو اپنے اشعار بھیجے تھے اور اس طریقے سے ہند میں مقیم بہت سے شاعر اُن اشعار سے بہرہ یاب ہوئے تھے اور سراج الدین آرزو نے اپنی لغت چراغِ ہدایت میں بہت سے الفاظ کے شواہد تاثیر کے اشعار سے اخذ کیے ہیں۔
محسن تاثیر تبریزی نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ یزد اور اصفہان میں گذارا تھا۔ وہ اپنی جائے تولد اصفہان سے علاقۂ زیاد رکھنے کے باوجود بعض اوقات اُس سے اپنے ملال و دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہیں اور ہند کی جانب عازمِ سفر ہو جانے کی فکر کرنے لگتے ہیں، لیکن وہ اپنی اس آرزو کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔
محسن تاثیر تبریزی نے اپنے اسلامی اساس رکھنے والے اور توحید و نعت و منقبت میں کہے گئے قصائد میں سعدی، انوری، خاقانی، ظہیر فاریابی، سلمان ساوجی اور حتیٰ نظیری کی پیروی کی ہے اور ان قصائد کا فارسی کے بہترین قصائد کی فہرست میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اپنی ترکیب بندوں میں اُنہوں نے محتشم کاشانی کی واضح تقلید کی ہے اور اُن کی مثنویاں، اُن کی اپنی تائید کے مطابق، نظامی گنجوی کی پیروی میں کہی گئی ہیں۔ تاثیر تبریزی کی غزلیں، باوجودیکہ وہ تازہ نکات و مضامین پر مشتمل ہیں اور اپنا خاص سلیقہ رکھتی ہیں، ہم عصر بزرگ غزل گو شعراء، بالخصوص صائب سے متاثر ہیں۔
تاثیر تبریزی کے اشعار ایک درجے کے نہیں ہیں۔ گاہے تاثیر تبریزی کے اشعار میں بہت ہی بلند و بدیع مضامین و مفاہیم نظر آتے ہیں اور گاہے ناگوار، سست اور بے مزہ مضامین۔ اور بعض اوقات اُن کے اشعار کے مضامین بہت پیچیدہ بھی ہیں۔
محسن تاثیر تبریزی سبکِ ہندی کے برجستہ غزل گو شاعر ہیں۔ اُنہوں نے صائب اور حافظ کے علاوہ اسیر اصفہانی، طالب آملی، نظیری نیشابوری، عرفی شیرازی، سلیم تہرانی، فیضی دکنی اور بابا فغانی شیرازی جیسے غزل سرا شاعروں کی غزلوں کے جواب میں بھی غزلیں کہی ہیں۔
اُن کی غزلیں مختلف دینی، عرفانی، اخلاقی، اجتماعی اور عشقیہ مضامین پر مشتمل ہیں۔ تاثیر تبریزی نے غزل میں ہر ایک سے بیشتر اپنے ہم شہر اور ہم زبان صائب تبریزی پر توجہ رکھی ہے اور تنہا صائب کو خود پر برتری دینا روا سمجھا ہے۔
تاثیر تبریزی اپنے فارسی اشعار اور نیز اپنے ترکی اشعار میں صائب کے پیرو ہیں اور صائب کی کئی زمینوں پر اُنہوں نے غزلیں کہی ہیں اور کچھ مقطعوں میں اُنہوں نے خود اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اپنے اشعار میں جگہ جگہ وہ صائب کی تحسین بیان کرتے ہیں۔ بعض جگہوں پر اُنہوں نے صائب کی طرح اپنے تبریزی الاصل ہونے پر بھی ناز کیا ہے۔
تاثیر کی کلیات میں یہ چیزیں شامل ہیں:
۱۔ توحید، نعت، منقبت اور سلاطین و وزیرانِ صفوی کی ستائش میں کہے گئے قصائد اور ترکیب بند
۲۔ ائمہ اور میر محمد باقر داماد کی ستائش اور فرح آباد کی بادشاہی عمارات کی توصیف میں کہی گئی مثنوی 'جہان نما'
۳۔ معراج پیامبر (ص) سے متعلق مثنوی 'منہاج المعراج'
۴۔ عشق، عاشق، معشوق اور بزم و طرب کے بارے میں اور زمانے کے استادانِ موسیقی کے نام مثنوی 'دعوۃ العاشقین'
۵۔ سعادت آباد کی عمارات اور اصفہان کے دیگر شاہی قصروں کی توصیف میں مثنوی 'گلزارِ سعادت'
۶۔ مثنوی 'ثمرۃ الحجاب'
۷۔ اپنے رسالۂ معما کی تعریف میں اور اُس کے مقدمے کے طور پر ایک مثنوی
۸- یزد میں اپنے عمرانی کاموں اور تفت کی آب و ہوا کے متعلق مثنوی 'حسنِ اتفاق'
۹۔ اخلاق سے متعلق ایک مثنوی 'میمنت نامہ'
۱۰- غزلیات
۱۱- رباعیات
تاثیر تبریزی کا دیوانِ ترکی مفقود ہو چکا ہے اور اب اُن کی چند باقی ماندہ ترکی غزلیں اور اشعار ہی موجود ہیں جو تبریز سے نکلنے والے مجلے 'ئینی یول' میں تصحیح اور شائع کیے جا چکے ہیں۔

ماخذِ اول
ماخذِ دوم

محمد وارث
 
آخری تدوین:
Top