اقبال میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف

میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دَیر میں خونِ جگر نہ کر تلف
کھول کے کیا بیاں کرو سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ باشرف، مرگ حیاتِ بے شرف
صحبتِ پیرِ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف
مثلِ کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی
اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لاتخف
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
گو کہ میں اس قابل نہیں کلامِ اقبالؒ کی تعریف میں کچھ لکھ سکوں لیکن پھر بھی یہ دو مصرع تو ایسے ہیں کہ ایک ایک مصرع پوری پوری کھلی کتاب ہے
عشق ہے مرگِ باشرف، مرگ حیاتِ بے شرف
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف
اور آخری شعر تو جان ہے اس غزل کی

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
وہ جو موتیوں کی لڑی میں ایک سب سے سنہری دانہ رہ گیا، وہ دانہ یہ شعر ہے۔
پیر و مرشد بے شک ایک نعمت ہیں اللہ کی۔
جو پردہ فرمانے کے بعد بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور تاقیامت موجود رہیں گے۔
 
لاکھ حکیم سر بجیب ، ایک کلیم سر بکف
یہ مصرع اسرار او معنی کا ایک جہاں ہے
خوشی ہوئی کہ آپ کی اور میری پسند میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں
 

سید زبیر

محفلین
بہت خوب انتخاب کیا ہے سرکار
کیا بات ہے
کھول کے کیا بیاں کرو سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ باشرف، مرگ حیاتِ بے شرف
 
Top