میری اس غزل پر ایک نظر اصلاح کی

کیا ہے جو مرے دیدہِ حیراں سے پرے ہے​
ہر آہ مری آہِ زلیخاں سے پرے ہے​
گر تیغِ ستم گار مری جاں سے پرے ہے​
کیوں جوشِ لہو سینہِ ویراں سے پرے ہے​
قائم ہے جو اس پائے دگرگوں میں پڑے مت​
یکجا ہے جو اس زلفِ پریشاں سے پرے ہے​
سوتا ہوں مگر نیند کی لذت نہیں درکار​
ہر رات مری عیشِ شبستاں سے پرے ہے​
اب نیک اگر میں نہ رہا تیرا کرم ہے​
عفت اے شبِ غم دلِ عریاں سے پرے ہے​
ہر چند پری زادیاں کثرت سے ہیں لیکن​
وہ لولو و مرجان پرستاں سے پرے ہے​
یہ طرز و ادا خاص جو ہے میرے سخن کی​
دہلی کیا جہاں بھر کے دبستاں سے پرے ہے​
فاتح کی عیادت کا بھی سوچا ہے کسی نے​
جو عاشقِ گل ہو کے گلستاں سے پرے ہے​
 
جی شکریہ۔ میرا نام منیب احمد ہے اور تخلص فاتح کرتا ہوں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے بی اے آنرز - اردو کر رہا ہوں۔ چودہ سال کی عمر سے شعر کہتا ہوں مگر افسوس کہ آج تک کسی استاد کی نظر اور صحبت سے بیگانہ رہا۔ سو غزل خود کے بھروسے ہی کہتا ہوں۔ یہاں کا محترم وارث صاحب نے لنک دیا سو اب دیکھیے اس ابتداے عشق کے آگے کیا کیا آتا ہے۔
 
بہت خوب! آپکی غزل اتنی اچھی ہے کہ اس کا تنقیدی جائزہ لینے کا جی ہی نہیں چاہا۔ ماشاءاللہ تخیل میں اتنی سی عمر میں بہت پختگی ہے۔ ڈھیروں داد وصول کیجیئے۔ سلامت رہیئے! :applause:
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح کی بطاہر ضرورت نہیں۔ ماشاء اللہ اچھی غزل ہے اگرچہ دو ایک اشعار میری ناقص سمجھ میں نہیں آ سکے۔
 
کیا ہے جو مرے دیدہِ حیراں سے پرے ہے​
ہر آہ مری آہِ زلیخاں سے پرے ہے​
گر تیغِ ستم گار مری جاں سے پرے ہے​
کیوں جوشِ لہو سینہِ ویراں سے پرے ہے​
قائم ہے جو اس پائے دگرگوں میں پڑے مت​
یکجا ہے جو اس زلفِ پریشاں سے پرے ہے​
سوتا ہوں مگر نیند کی لذت نہیں درکار​
ہر رات مری عیشِ شبستاں سے پرے ہے​
اب نیک اگر میں نہ رہا تیرا کرم ہے​
عفت اے شبِ غم دلِ عریاں سے پرے ہے​
ہر چند پری زادیاں کثرت سے ہیں لیکن​
وہ لولو و مرجان پرستاں سے پرے ہے​
یہ طرز و ادا خاص جو ہے میرے سخن کی​
دہلی کیا جہاں بھر کے دبستاں سے پرے ہے​
فاتح کی عیادت کا بھی سوچا ہے کسی نے​
جو عاشقِ گل ہو کے گلستاں سے پرے ہے​

بہت ہی خوب غزل ہے جناب بہت ساری داد قبول فرمائیں۔ ایک بات غور طلب ہے کہ مطلع میں مصرع ثانی کا قافیہ درست نہیں۔ لفظ ”زلیخا“ ہے جس میں نون نہیں ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کیا ہے جو مرے دیدہِ حیراں سے پرے ہے​
ہر آہ مری آہِ زلیخاں سے پرے ہے​
گر تیغِ ستم گار مری جاں سے پرے ہے​
کیوں جوشِ لہو سینہِ ویراں سے پرے ہے​
قائم ہے جو اس پائے دگرگوں میں پڑے مت​
یکجا ہے جو اس زلفِ پریشاں سے پرے ہے​
سوتا ہوں مگر نیند کی لذت نہیں درکار​
ہر رات مری عیشِ شبستاں سے پرے ہے​
اب نیک اگر میں نہ رہا تیرا کرم ہے​
عفت اے شبِ غم دلِ عریاں سے پرے ہے​
ہر چند پری زادیاں کثرت سے ہیں لیکن​
وہ لولو و مرجان پرستاں سے پرے ہے​
یہ طرز و ادا خاص جو ہے میرے سخن کی​
دہلی کیا جہاں بھر کے دبستاں سے پرے ہے​
فاتح کی عیادت کا بھی سوچا ہے کسی نے​
جو عاشقِ گل ہو کے گلستاں سے پرے ہے​
خوب صورت غزل کے لیے دادِ تحسین قبول فرمائیے۔ مبارک ہو۔ اللہ کرےزورِ سخن اور زیادہ۔
فاتح صاحب زلیخا میں ’نون غنہ ‘ کہاں سے لے آئے۔ یہ معروف تاریخی نام ہے۔ آپ ضرورتِ شعری کی بناپر بھی ایسا نہیں کر سکتے۔
دہلی کیا جہاں بھر کے دبستاں سے پرے ہے
فاتح صاحب ! آپ کے سخن کی طرزِ ادا خاص ضرور ہے۔ لیکن اسے دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنئو یا دبستانِ لاہور یا دُنیا کے تمام دبستانوں سے پرے کہنا تجاہل عارفانہ تو ہو سکتا ہے حقیقت سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں۔
 
بہت ہی خوب غزل ہے جناب بہت ساری داد قبول فرمائیں۔ ایک بات غور طلب ہے کہ مطلع میں مصرع ثانی کا قافیہ درست نہیں۔ لفظ ”زلیخا“ ہے جس میں نون نہیں ہے۔
بسمل صاحب، اس بے ہودہ غلطی پر نہایت معذرت۔ یہ تو مطلع ہی اڑ گیا ہاتھ سے۔
 
خوب صورت غزل کے لیے دادِ تحسین قبول فرمائیے۔ مبارک ہو۔ اللہ کرےزورِ سخن اور زیادہ۔
فاتح صاحب زلیخا میں ’نون غنہ ‘ کہاں سے لے آئے۔ یہ معروف تاریخی نام ہے۔ آپ ضرورتِ شعری کی بناپر بھی ایسا نہیں کر سکتے۔
فاتح صاحب ! آپ کے سخن کی طرزِ ادا خاص ضرور ہے۔ لیکن اسے دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنئو یا دبستانِ لاہور یا دُنیا کے تمام دبستانوں سے پرے کہنا تجاہل عارفانہ تو ہو سکتا ہے حقیقت سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں۔
'زلیخاں' کی سنگین غلطی کی نشان دہی کا نہایت شکریہ۔ اور جی ہاں، بظاہر تو کسی دبستان سے خود کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسرے شعر میں جوشِ لہو کی ترکیب بھی غور طلب ہے، جوش فارسی اور لہو ہندی ہے اور اصولی طور پر عربی فارسی الفاظ کی ترکیب ہندی انگریزی الفاظ کے ساتھ غلط ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
جن اغلاط کی نشان دہی کی جا چکی ہے، ان کے علاوہ ان اشعار میں ابلاغ و ترسیل کا مسئلہ ہے
قائم ہے جو اس پائے دگرگوں میں پڑے مت
یکجا ہے جو اس زلفِ پریشاں سے پرے ہے
اب نیک اگر میں نہ رہا تیرا کرم ہے
عفت اے شبِ غم دلِ عریاں سے پرے ہے
اور اس شعر میں​
یہ طرز و ادا خاص جو ہے میرے سخن کی
دہلی کیا جہاں بھر کے دبستاں سے پرے ہے
مجھے یہ تو اعتراض نہیں کہ غلو کے ساتھ شاعرانہ تعلی سے کام لیا گیا ہے، البتہ یہاں ’دبستانوں‘ کہنا چاہئے تھا۔ اس کے علاوہ اگر ’ہی‘ کا اجافہ ممکن ہوتا تو بیابیہ اور زیادہ قوی ہو جاتا۔​
 
جن اغلاط کی نشان دہی کی جا چکی ہے، ان کے علاوہ ان اشعار میں ابلاغ و ترسیل کا مسئلہ ہے
قائم ہے جو اس پائے دگرگوں میں پڑے مت
یکجا ہے جواس زلفِ پریشاں سے پرے ہے
اب نیک اگر میں نہ رہا تیرا کرم ہے
عفت اے شبِ غم دلِ عریاں سے پرے ہے
اور اس شعر میں​
یہ طرز و ادا خاص جو ہے میرے سخن کی​
دہلی کیا جہاں بھر کے دبستاں سے پرے ہے​
مجھے یہ تو اعتراض نہیں کہ غلو کے ساتھ شاعرانہ تعلی سے کام لیا گیا ہے، البتہ یہاں ’دبستانوں‘ کہنا چاہئے تھا۔ اس کے علاوہ اگر ’ہی‘ کا اجافہ ممکن ہوتا تو بیابیہ اور زیادہ قوی ہو جاتا۔​
میں نے 'دبستاں' یوں استعمال کیا کہ ایک دہلی کیا جہان بھر پر مشتمل اگر کوئی ایک دبستان ہو تو میرا سخن اس سے علیحدہ طرز و ادا رکھتا ہے۔ کیا یہ مفہوم اس مصرعے سے ادا ہو رہا ہے؟
 
Top