میری الجھنیں اور آپ کے جوابات اور حل

شمشاد

لائبریرین
اس میں لکھا ہے۔۔۔
کوڈ:
Believe it or not, milk and chocolate do not match either. While milk is rich in protein and calcium, chocolate contains oxalic acid. Eaten together, calcium from milk and oxalic acid of chocolate can combine and form insoluble calcium oxalate, which is not only indigestible but also can cause diarrhea.
یہ تو ہمارا کھانا پینا بند کروا دے گا۔۔۔
ویسے کبھی سنا نہیں کہ چاکلیٹ والا دودھ پینے سے کسی کو ڈائریا ہوا ہو۔۔
میں تو ابھی کل ہی چاکلیٹ والے دودھ کا کارٹن لایا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ارے بھائی ہم تو جانے کیا کیا کھا جاتے ہیں۔۔۔
سنا تھا کہ پولو یعنی منٹ والی ٹافی کے اوپر کولڈرنک نہیں پینا چاہیے۔۔۔
میں نے تجربہ کیا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔
حالانکہ پاکستان کی کولڈرنک میں گیس زیادہ استعمال ہوتی ہے۔۔۔
اگر آپ منٹ والی گولی ڈائریکٹ کوکا کولا میں ڈالیں گے تو بہت زیادہ گیس پیدا ہو گی۔ لیکن اگر آپ اسے کھا کر کوکا کولا پئیں گے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔
وجہ یہ ہے کہ منٹ والی گولی کے اوپر جو پوڈر ہوتا ہے اس سے reaction ہوتا ہے۔ جونہی آپ منٹ والی منہ میں ڈالتے ہیں، وہ پوڈر آپ کے منہ میں ہی گُھل جاتا ہے، اس لیے گولی پر کوکا کولا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
 

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم

چھوٹا منہ بڑی بات

مگر جہاں تلک بات ہے احادیث اور قرآن پاک میں کہی گئی باتوں کی اس پر یقین لانا ایمان کی بات ہے
مگر اب کیا کریں فتنہ گر لوگ ایسے آئے جنہوں نے قرآن کی آیات تو نہیں تبدیل کیں بلکہ ان کا مفہوم
الگ الگ بیان کیا اور احادیث میں سند کا معاملہ نازک اور احتیاط طلب ہوگیا
بعض اسلام دشمن نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسی باتیں بھی منسوب کردیں جن کا کوئی
ثبوت نہیں اور یہ اس لئے کیا کہ پھر بحث کے دوران ایسے ہی حوالوں کو دے کر کہ دیکھو تمہارے
نبی کا یہ فرمان تھا اور آج سائنس اس کے الٹ کہتی ہے ۔۔۔ فلاں فلاں ۔۔۔۔ تو جناب تحقیق طلب بات یہ
نہیں کہ سرکہ یا شہد ساتھ استعمال کئے جاسکتے ہیں یا نہیں بلکہ تحقیق طلب بات ہے حدیث کا حوالہ
اور اس کی سند ۔۔۔ اور اگر حدیث کی سند مستند ہے تو پھر سائنسی تحقیق کی ضرورت نہیں رہتی اور
اگر سائنس اس کے الٹ بھی کہے تو بھی ہونا وہی ہے جو میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرما دیا ۔۔۔۔ مگر اصل ضرورت ہے حدیث کا حوالہ اور اسکی سند ۔۔۔۔۔

تحقیق اور جستجو کرنا ضروری ہے مگر اس لئے نہیں کہ حدیث کو چیک کیا جائے بلکہ اس لئے
کہ جو لوگ حدیث کو نہیں مانتے ان کے سامنے سائنسی دلیل دیکر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیکھ لو
یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ سائنس نہیں تھی عام جو آج عام ہے ۔۔ فلاں فلاں ۔۔۔

مگر اگر یہ سوچ کر تحقیق کی جائے کہ حدیث کو چیک کرلیا جائے کہ صحیح بھی کہا گیا ہے
کہ نہیں ۔۔۔۔ تو ایمان ہی رخصت ہو گیا ۔۔۔۔

فرمان پاک ہے جس کا کچھ مفہوم یہ ہے کہ
جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیں وہ لے لو اور جس کام سے روکیں اس سے باز آ جائو

یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کہنا کافی ہے اس پر کسی قسم کی سائنس کی گواہی ضروری نہیں

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں جب ایک یہودی اور مسلمان کے (اللہ معاف فرمائے اگر کمی بیشی
کر دوں میں) درمیان جھگڑا ہوا کسی چیز کی ملکیت پر تو یہودی نے کہا مسلمان سے تم اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات کا فیصلہ کروا لو ۔۔۔ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک بارگاہ میں پہنچے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ یہودی کے حق میں دیا ، وہ مسلمان مطمئن نہ ہوا اور خلیفہ اول حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جا پہنچا ۔۔۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اس یہودی کے حق میں
فیصلہ دیا ۔۔۔۔ وہ مسلمان باز نہ آیا اور یہودی کو لیکر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جا پہنچا ۔۔۔۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام معاملہ جان کر کہ یہ دونوں پہلے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے ہوکر آ رہے ہیں اور مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئے گئے فیصلہ کو ماننے کے بجائے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اور پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آن پہنچا ہے تو ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے گھر کے اندر سے تلوار لاکر اس مسلمان کی گردن اڑا دی ۔۔۔ واویلا ہوا ، کہیں حیرت ہوئی کہیں اعتراض کے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے مسلمان کو مار دیا ۔۔۔ مگر بیان یہ ہوا کہ وہ مسلمان رہا ہی نہیں تھا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی گئی بات کو ماننے کے بجائے دیگر در پر جانا اور ان سے فیصلہ طلب کرنا ۔۔۔۔ پس اسکے دل سے ایمان رخصت
ہو چکا تھا ۔۔۔ وہ فتنہ تھا ، مسلمانی کا لبادا اوڑھ کر ۔۔۔۔۔ مسلمان ہو کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے کئے گئے فیصلے کو رد کرنا، معاشرے میں انتشار پھیلانا اس کا مقصد تھا جیسے آج کل بہت سے لوگ ہیں

مختصر یہ کہ حدیث چاہے مستند ہو چاہے ضعیف سند کی ہو ، اس کے بارے میں احتیاط لازم ہے اس ہی طرح
جس طرح کسی بھی کہی بات کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کرنے میں احتیاط لازم ہے اس ہی
طرح احادیث کو ضیعف کہہ کر ان کے بارے میں مزاح انگیز یا کوئی نازیبا بات کہنے کی بھی قطعی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔۔

اور قرآن اور احادیث میں کہی گئی باتوں کو سائنس آج جب ثابت کرتی ہے تو کچھ ناسمجھ جذبات میں کہتے ہیں
کہ سائنس بھی گواہی دے رہی ہے وہ بھی سپورٹ کر رہی ہے قرآن اور احادیث میں کہی گئی باتوں کو ۔۔۔ تو سپورٹ کی ضرورت سائنس کو تو ہو سکتی ہے مگر قرآن اور حدیث کو نہیں ۔۔۔ ہاں اس سلسلے میں بس آیات کا
مفہوم اور احادیث کی سند پر تحقیق کرنا ضروری ہے ۔۔ اور جب ثابت ہوجائے کہ فلاں بات حدیث یا قرآن میں کہی گئی ہے تو کسی سائنسی اور عقلی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ۔۔۔

ایک فورم پر ایک محترمہ کا لکھا نظر سے گزرا، میں تکلیف سے بلبلا اٹھا، خوف سے لرز اٹھا، اور رب کے احسان پر
شکرگزار ہوا کہ لکھنے والا میں نہیں ۔۔۔۔
محترمہ نے لکھا جنت ماں کے قدموں کے نیچے کہا گیا ہے ، یہ بہن، بیوی اور بیٹی کے قدموں کے نیچے بھی تو ہونی چاہیئے ۔۔۔ وہ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے کرتے اپنا ایمان رخصت کرنے پر اتر آئی تھیں ۔۔۔ جب آپ اللہ اور اسکے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہی گئی باتوں پر ایسے سوال اٹھائیں گے، اس میں اضافہ کرنا چاہیں گے تو سمجھ جائیں آپ اس زمانے میں ہیں جس زمانے کی بات میرے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیوں پہلے ارشاد فرما دی تھی کہ ایک زمانہ ایسا ہوگا کہ صبح تو ایمان پاس ہوگا مگر رات کو سوتے وقت تک
ایمان گنوایا جا چکا ہوگا ۔۔۔۔۔ پس اس دھاگے میں یہ ہی کہنا اولین بات ہے کہ
اگر آپ کی بیان کردہ باتیں ایسی احادیث سے ہیں جن کی سند مستند ہے تو ان کے لئے سائنس کیا کہتی ہے یہ سوال
ضروری نہیں کیونکہ سائنس چاہے اسکی نفی کرے ایمان کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ حدیث میں کہی گئی بات پر یقین کیا جائے ۔۔۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شر انگیز ایسی باتیں یا ایسے سوالات ذہن میں لاکر آپ کو یا کسی کو بھی بھٹکانا چاہتا ہو ۔۔۔۔ جھوٹی اور غلط بات نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کرکے اور اسکو سائنس کی رو سے غلط ثابت کرکے یہ کہنا چاہ رہا ہو کہ دیکھو جس نبی پر تم ایمان لاتے ہو اس کی یہ بات تو غلط ہے (نغوذباللہ ۔۔ اللہ معاف فرمائے مجھے ) تو کلام کا اختتام یہ ہی کہہ کرکرتا ہوں کہ
حدیث کے لئے اس کی سند اہم ہے اور آیت کے لئے اس کا مفہوم سمجھنا ۔۔۔۔۔ باقی چاہے کل کائنات پھر اس کے خلاف بات کرے ایمان یہ ہی کہے گا کہ جو حدیث اور قرآن میں ہے وہی صحیح ہے ۔۔۔۔۔


اجازت چاہتا ہوں ۔۔۔

فقیر کی کوئی بات ناگوار لگی ہو تو معذرت کرتا ہوں ۔۔۔
اللہ آباد و کامران و بے مثال رکھے احباب کو ۔۔۔۔۔۔ آمین

س ن مخمور
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
پیارے نبیﷺ نے کئی چیزوں کو ایک ساتھ کھانے سے منع فرمایا ہے۔ ۔اور اسی طرح کئی چیزوں کو ایک ساتھ کھانے میں فائدہ بتایا ہے جیسے کدو اور گوشت۔
 

جاسمن

لائبریرین
انڈہ اور دہی بھی اکھٹے نہیں کھا سکتے۔ لیکن حدیث کا حوالہ نہیں دے سکتی ۔
 
Top