مزمل شیخ بسمل
محفلین
وہ بے مثال اب بھی ہے جو بے مثال تھا
جب بھی کسی نے دیکھا سراپا جمال تھا
وہ امتزاجِ حسن و محبت کمال تھا
دونوں کو کچھ خبر نہیں کیا اپنا حال تھا
منزل پہ جاکے عشٖق کی میرا یہ حال تھا
کہتا تھا آسمان جسے رخ پے خال تھا
بر مہر رو دو چشم کا جھرنا کمال تھا
پانی کا عکس تھا کہ طلسمِ جمال تھا
حاجت دوا کی تھی نہیں وہ اپنا حال تھا
غیرت میں مر رہا تھا یوں اتنا نڈھال تھا
اب تک ہے یاد مجھ کو جو وقتِ وصال تھا
وہ ماہِ چار دہ تھا کہ سن چودہ سال تھا
اک شاہِ پر غرور کا انجام یہ ہوا
سر کاسہِ گدا تھا بدستِ سوال تھا
بسمل زبان کٹ گئی اس میکدے میں آج
معلوم جب ہوا مجھے ساغر میں بال تھا