میری ایک غزل کی اصلاح درکار ھے تمام اساتذہ سے درخواست ھے کے مدد کریں.۔۔۔۔۔۔۔شکریہ


ساکن کو متحرک صرف ایک ہی صورت میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور وہ صورت یہ ہے کہ ساکن حرف سے پہلے بھی ساکن ہی ہو۔ جیسے درد میں اصولی طور پر ر اور د دونوں ساکن ہیں مگر دوسرا ساکن یعنی دال متحرک ہو جائے گا۔ اور اگر ساکن سے پہلے متحرک ہو تو ساکن کو متحرک نہیں کر سکتے، ہرگز نہیں کر سکتے حتی کہ اس کے آگے الف ہو اور ساکن کا وصال الف کے ساتھ ہو جائے۔ جیسے: تم اس کو کی بجائے ”تمسکو“
باقی آپ کی تقطیع کے حوالے سے بتا دوں کے اگر آپ تم کے میم کو انفرادی طور پر متحرک بنا رہے ہیں تو غلط ہے۔ اور الف کا وصال کر وادیں تو بھی وزن سے خارج ہے۔
اب ایک بات میں یہ کہنا چاہونگا کہ جہاں آپ نے ساکن کو متحرک بنانے کے حوالے سے پڑھا ہے وہ عبارت حوالہ کیساتھ یہاں نقل کردیں تا کہ اس کا اصل معنی سمجھایا جا سکے۔
 

مانی عباسی

محفلین
مزمل شیخ بسملؔ
بھائی بہت شکریہ یہ نئی بات ھے میرے لیے ۔۔۔۔۔۔ علم میں اضافہ کرنے پر آپ کا مشکور ھوں۔۔۔۔۔۔۔میں نے یہ بات نیچے دئیے گئے لنک پے پڑھی تھی ۔۔۔۔
https://www.facebook.com/photo.php?...9254031.125509.369764399705822&type=3&theater

ویسے بھائی اگر یوں کر دوں تو پھر صحیح ھو جاے گا نا ؟؟؟؟؟
جوتم سے دور ھے اسکو ہی رکھتے پاس ھو کیوں.
 
مزمل شیخ بسملؔ
بھائی بہت شکریہ یہ نئی بات ھے میرے لیے ۔۔۔ ۔۔۔ علم میں اضافہ کرنے پر آپ کا مشکور ھوں۔۔۔ ۔۔۔ ۔میں نے یہ بات نیچے دئیے گئے لنک پے پڑھی تھی ۔۔۔ ۔
https://www.facebook.com/photo.php?...9254031.125509.369764399705822&type=3&theater

وہاں بھی یہی بات لکھی ہے بس وضاحت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے آپ کو شک ہوا کہ ہر ساکن کو متحرک کیا جاسکتا ہے۔ وہاں ”یار“ کے ”ر“ کو متحرک کیا گیا ہے۔ کیونکہ ”ر“ دوسرا ساکن ہے۔ اور اس سے پہلے الف بھی ساکن ہے۔ تو دو ساکن حروف کا اجتماع جب ہو تو دوسرا ساکن متحرک کر لیا جاتا ہے۔ جیسا میں نے اوپر کہا۔ ہاں اگر ساکن سے پہلے متحرک ہو تو اس میں کوئی تصرف جائز نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
ارے معذرت، یہ یہاں کاپی پیسٹ ہونے سے رہ گئی۔


جہاں روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہاں کچھ بہتر مصرعے کا اضافہ، یا جہاں کچھ عروضی غلطی ہے، اسے وزن میں لانے کا کام کر رہا ہوں۔

اک اجنبی نے ھے پوچھا بھلا اداس ھو کیوں
جو دور ھے تم اسکو ہی رکھتے پاس ھو کیوں.
// اک اجنبی نے یہ پوچھا ہے، تم اداس ھو کیوں
جو اتنا دور ھے، رکھتے تم اس کو پاس ھو کیوں

یہ سوچ کر میں شکایت لبوں پہ لاتا نہیں
کہ سارا عالم میرا الم شناس ھو کیوں.
//عالم کا میم گر رہا ہے، یعنی وزن میں ’عال مرا‘ آ رہا ہے۔
یہ سوچ کر میں شکایت لبوں پہ لاتا نہیں
جہان سارا ہی میرا الم شناس ھو کیوں

رکھو یہ آرزو کہ کوئی آرزو نہ ھو اب
جو زندگی نہیں تو زندگی کا قیاس ھو کیوں
//پہلے مصرع میں ’کہ‘ ہجائے بلند آ رہا ہے، جسے کچھ لوگ جائز سمجھتے ہیں، لیکن میں محض مجبوری میں قبول کرتا ہوں، جب کوئی دوسری صورت نظر نہ آئے تب۔۔
دوسرا مصرع وزن سے خارج ہو رہا ہے، قیاس کا وزن قَیَاس، بر وزن فعول ہے، یہاں ’قاس‘ آ رہا ہے، بر وزن پیاس۔
رکھو یہ آرزو، اب کوئی آرزو ہی نہ ھو
جو زیست ہی نہ ہو ، تو پھر زیست کا قیاس ھو کیوں
دوسرے مصرع میں اگرچہ ’زیست تو‘ میں ت کی تکرار ہے، لیکن اس وقت دوسرا متبادل نہیں سوجھ رہا ہے۔

اسے کہو کہ ملاقات بے حجاب کرے
وصال عشق کا ھے یہ تو بالباس ھو کیوں
//شعر ویسے درست ہے، بس ابتذال ہے تھوڑا سا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
غزل کی اصلاح تو ہو گئی۔ اس کے باوجود میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

سینیئر اساتذہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی خاطر اپنے لہجے کو نرم سے نرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ امر ان کی شفقت کا مظہر ہوتا ہے۔ اب یہ طالب ِ علم کا فرض ہے کہ جاننے کی کوشش کرے کہ استاد نے کہاں کہاں از راہِ شفقت کوتاہیوں سے صرفِ نظر کیا ہے۔ محض اصلاح پا لینے سے ہر شعر زندہءِ جاوید نہیں ہو جاتا۔ آخر میں یہ سراسر طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے خونِ جگر سے شعروں کے چمن کی آبیاری کرتا رہے۔ اصلاح کے بعد بھی شعر میں بہتری لانا فقط طالبِ علم کا فرض ہے۔

میرا شمار چونکہ سینیئر اساتذہ میں نہیں ہوتا (بلکہ کسی طور اساتذہ میں شامل ہی نہیں)، اس لیے مجھے شاید زیادہ کھلے الفاظ میں غلطیوں کی نشاندہی کی اجازت ہے (چونکہ مجھ سے شفقت کی توقع نہیں)۔ پھر بھی لہجے کو "مہرباں" رکھنے کی کوشش ضرور کروں گا۔

1۔ اسا تذہ کرام نے یہاں نرم الفاظ میں مطالعہ کا مشورہ دیا ہے۔ طالبِ علم جان لے کہ اسے مطالعہ کی شدید ضرورت ہے۔ ورنہ کلام ہرگز ترقی نہ کرے گا۔
2۔ استادِ محترم الف عین صاحب نے آخری شعر کے بارے میں فرمایا: " بس ابتذال ہے تھوڑا سا"۔نرم الفاظ استعمال کرنے کا سبب وہی جو میں نے پہلے بیان کیا۔ حقیقت میں شدید ترین ابتذال ہے۔ اس شعر کوغزل سے یک قلم خارج کرنا ہی بہتر ہے۔ایسے مضامین پہلے زمانے میں تو پھر بھی چل جانے تھے مگر اب نہیں۔ یہ عامیوں کے مضامین ہیں۔
3۔ ردیف میں "ہو" کا واو گر رہا ہے۔ اگر بیچ بیچ میں با الاضطرار ایسا ہو تو شاید جائز۔ مگر ردیف میں اس کا گرنا مناسب نہیں۔

میری دانست میں یہ اور ایسی کچھ اور باتیں ہیں جن کا جاننا ہر طالب علم کے لیےازحد ضروری ہے۔ کیا اچھا نہ ہو گا کہ اس مقصد کے لیے ایک چسپاں لڑی بنا دی جائے تا کہ مبتدی اصلاح سے پہلے اپنے کلام کو اس کسوٹی پر خود ہی پرکھ لیں۔ اگر ان حضرات کو فرصت ہو تو اس اچھے کام کے لیے میرے ذہن میں مزمل شیخ بسمل، محمد یعقوب آسی اورمحمد وارث کے ہی نام آ رہے کہ میں خود بھی ابھی سب کو جانتا نہیں۔
 

مانی عباسی

محفلین
استاد @الف عین صاحب

بہت نوازش ۔۔۔۔۔۔میں نے ایک بات پوچھنی تھی آپ سی آخری شاعر کے بارے میں ۔اگر یہ کہوں کہ اس شعر کے لکھنے کی پیچھے جو سوچ ھے میری وہ عیاں کرنی تھی تو غلط نہ ہوگا۔۔۔۔۔ لباس کا مطلب کپڑے ہی ہوتا ھے مگر کپڑا آنچل یا گھونگٹ بن کے جلوہ چھپا لیتا ھے ۔۔۔۔۔ اگر محبوب( میں نے یہ شعر اللہ پاک کے لیے لکھا ھے ) کو اسکے تمام جلووں کے ساتھ دیکھنا ھے تو یو لباس یعنی ک پردہ ہٹا دینا چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔باقی آپ جو کہیں گے فائنل وہی کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر یہ مقطع رہ گیا ھے
شرارتی نہ کہے مانی تو کہے پھر کیا
ملا کے نظریں بڑھاتے پیاس ھو بھلا کیوں..........
 

مانی عباسی

محفلین
کاشف عمران
بھائی آپ سو فیصد درست فرما رہے ھیں ۔۔۔۔۔۔مجھے تو سیکھنا ہے اساتذہ ڈانٹ لیں تو زیادہ بہتر ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری شعر کے بارے میں آپ کی رائے مفید ثابت ھو گی اگر آپ اس کمنٹ سے اوپر والا کمنٹ پڑھ کے کچھ عرض کریں تو.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آپ سب کی نصیحتوں پی عمل کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔بہت نوازش.
 

الف عین

لائبریرین
بھئی اس شعر میں ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ ’وہ‘ خدا کے بارے میں ہے۔ اس لئے میرا مشورہ مانو تو اس کو نکال ہی دو۔
مقطع کاپی ہونے سے رہ گیا تھا، اس لئے اس کی اصلاح رہ گئی۔
شرارتی نہ کہے مانی تو کہے پھر کیا
ملا کے نظریں بڑھاتے کچھ اور پیاس ہو کیوں
جلدی میں کی ہے، ممکن ہے بعد میں اور غور کروں تو کچھ بہتر روپ سامنے آئے۔
 
Top