میری ایک نئی غزل - چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن

الف نظامی

لائبریرین
چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن

ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟

سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، سَم پیالہ لے جو چُن

قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
بہت خوب!!!
بہت عمدہ!!!
 

الف عین

لائبریرین
چلو اب کچھ اعتراض بھی ہو جائے۔۔
چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن
۔۔۔۔۔۔ دوسرے مصرعے میں "’گا تو گن" اچھا نہیں لگ رہا ہے۔
اس کے علاوہ یہ شعر بلکہ یہ مصرع بھی
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
اس میں بستی اور ترازو کے ب اور و (بالتریب) گرنا اچھا نہیں لگ رہا ۔

اور
یہاں
ہاں امَر وہ ہو گیا، سَم پیالہ لے جو چُن
"سم پیالہ" کی ترکیب محلِ نظر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ الف نظامی صاحب۔

اور آپ کی محبت اور توجہ کیلئے ایک بار پھر بہت شکریہ اعجاز صاحب، اس غزل پر اگر نظر ثانی ہوئی تو اسے ضرور بہتر کرنے کی کوشش کرونگا، انشاءاللہ!
 

فرخ منظور

لائبریرین
زہے نصیب فاتح صاحب کہ آپ کا دیدار تو نصیب ہوا، اور اگر آپ کا دیدار غزل کے ساتھ ہی مشروط ہے تو فرخ صاحب اور یہ خاکسار مل کر روزانہ غزلیں کہیں گے :)

اور شکریہ غزل پسند کرنے کے لئے، نوازش۔

:) واہ واہ بالکل ٹھیک کہا وارث صاحب - میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے - میں بالکل تیار ہوں اگر یہی شرط ہے - :)
 

محمد وارث

لائبریرین
:) واہ واہ بالکل ٹھیک کہا وارث صاحب - میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے - میں بالکل تیار ہوں اگر یہی شرط ہے - :)

لیکن حیف فرخ صاحب، کہ فاتح صاحب کو اب غزل کی بجائے غزالاں کی کشش ہی کھینچے گی اور ہم دونوں مل کر دو غزلہ تو کہہ سکتے ہیں غزالاں کہاں سے لائیں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
لیکن حیف فرخ صاحب، کہ فاتح صاحب کو اب غزل کی بجائے غزالاں کی کشش ہی کھینچے گی اور ہم دونوں مل کر دو غزلہ تو کہہ سکتے ہیں غزالاں کہاں سے لائیں :)

درست فرمایا وارث صاحب جو غزالاں میں کمالاں ہیں وہ ہم میں کہان - :)
 

محمداحمد

لائبریرین
چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن

ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن

لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟

سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، سَم پیالہ لے جو چُن

قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن


وارث بھائی
آداب

پچھلے دنوں کچھ مصروفیات ایسی رہیں کہ محفل میں آمد نہ ہونے کے برابر ہوگئی اسی دوران آپ نے یہ‌ خوبصورت غزل پیش کی۔ نتیجتاً ہماری نظر سے اوجھل ہو گئی ۔ لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "شکر خورے" کو "شکر" مل ہی جاتی ہے سو ہمیں بھی آپ کی غزل کی دید میسّر آہی گئی۔

غزل بہت اچھی ہے اور اچھوتی تراکیب سے مزین ہے۔ دل خوش ہوا یہ غزل دیکھ کر ۔ آپ بہت عرصے میں محفل میں کلام پیش کرتے ہیں لیکن بہت اچھا ہوتا ہے۔

ناچیز کی جانب سے نذرانہ ء تحسین پیشِ خدمت ہے، گر قبول افتد ۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
وارث صاحب ممکن ہو تو یہ غزل ہمیں اپنی آواز میں فراہم کرسکتے ہیں ، جیٹ آڈیو سے باآسانی ریکارڈ کیا جاسکتا ہے ، ہم اسے یوٹیوب پر لگنا چاہتے ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ راجا صاحب، نوازش برادرم!

ایک شعر میں کچھ تبدیلی کی ہے:

سانس ہیں یہ چند پل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امر وہ ہوگیا، سم پیالہ لے جو چُن

'سم پیالہ' واقعی عجیب و غریب ہو گیا تھا، اعجاز صاحب نے بھی اس کی نشاندہی کی تھی، نہ جانے ذہن میں اسکی جگہ 'زہر جام' کیوں نہیں آیا، بہرحال بدل دیا ہے:

سانس ہیں یہ چند پل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن
 
Top