کاشفی
محفلین
غزل
(میر مہدی مجروح)
میری بدخوئی کے بہانے ہیں
رنگ کچھ اور اُن کو لانے ہیں
رحم اے اضطراب رحم کہ آج
اُن کو زخمِ جگر دکھانے ہیں
کیسی نیند اور پاسباں کس کا
یاں نہ آنے کے سب بہانے ہیں
کر کے ایفائے عہد کا مذکور
اپنے احساں اُنہیں جتانے ہیں
اُس کی شوخی کی ہے کوئی حد بھی
اک نہ آنے کے سَو بہانے ہیں
سر اُٹھانا وبال ہے اور یاں
ناز اُن کے ابھی اُٹھانے ہیں
ظلم سے اُن کا پیٹ بھرنے تک
ہم کو تیغ و تیر ہی کھانے ہیں
ان بتوں ہی کو حُسن دینا تھا
کیا خدائی کے کارخانے ہیں
الم و درد و رنج و بیتابی
یار اپنے یہی پُرانے ہیں
کیا ہماری نماز، کیا روزہ
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
میں کروں جستجو کہاں جا کر
اُن کے تو سو جگہ ٹھکانے ہیں
قافیے کو بدل کے اے مجروح
اور اشعار کچھ سُنانے ہیں