میری بچی جسے گرم پانی میں پھینک دیا گیا۔۔۔۔۔عبدالقادر حسن

میری ایک پاکستانی بچی کلثوم جو ایک خانہ بدوش پاکستانی کے گھر پیدا ہوئی اور ہمارے درندہ صفت لوگوں کے معاشرے نے اس کی روزی گداگری میں رکھ دی۔ گزشتہ دنوں بھوک سے تنگ آ کر جب اپنے گھر والوں کے ساتھ شادی کی ایک تقریب میں بچے کھچے کھانے کی تلاش میں وہاں پہنچی اور نیچے گرا ہوا کھانا اٹھانا چاہا اور کھانا مانگنے کی بار بار کوشش بھی کی تو اسے جھڑک دیا گیا لیکن یوں لگتا ہے کہ اسے اتنی بھوک لگی تھی کہ وہ کھانا مانگنے سے باز نہ آئی اور ڈانٹ کھاتی رہی۔
اس بھوکی بچی کی ضد سے تنگ آ کر کھانا سمیٹنے والوں نے بے زار ہو کر بچی کو اٹھا کر گرم ابلتے پانی میں پھینک دیا جو برتنوں کو دھونے کے لیے رکھا ہوا تھا۔ یہ معصوم بچی جھلس گئی اور اتنی زیادہ کہ اسپتال میں دم توڑ گئی لیکن اپنی زندگی کے ساتھ ملک میں جاری الیکشن کا فیصلہ بھی سنا گئی کہ اس بے گناہ بھوکی بچی کو جن درندہ صفت لوگوں نے پانی میں پھینکا ہے وہ اور ان جیسے لوگ اگر الیکشن جیت گئے اور پاکستان کے حکمران بن گئے تو پھر غریبوں‘ گداگروں کے بچے گرم پانیوں میں پگھل جائیں گے۔ مختصر سی خبر میں بتایا گیا ہے کہ خانہ بدوشوں کا یہ خاندان محنت مزدوری کرتا ہے اور ساتھ ہی بھیک بھی مانگتا ہے کیونکہ مزدوری نہ ملنے سے دو وقت کی روٹی نہیں پکتی۔
گرم پانی میں جانوروں کے گوشت کی طرح ابال کر مار دینے والی یہ بچی اگر کسی گداگر خانہ بدوش کی جگہ میرے گھر میں پیدا ہوئی ہوتی تو آج یہ پھولدار کپڑے پہن کر لاہور کے ایک ایسے ۱سکول میں پڑھ رہی ہوتی جس کی فیس اس کے پورے خاندان کا زیادہ نہیں تو گھر میں ایک وقت کا کھانا پکوا سکتی تھی لیکن حالات نے اس کی نہیں میری آزمائش کے لیے اسے پاکستان کے خانہ بدوشوں کے گھر میں پیدا کر دیا تا کہ میں اس کے حصے کا رزق بھی کھاتا رہوں۔
میرے جد امجد حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ کسی کے سامنے اگر دو قسم کے سالن اور کھانا ہوتا ہے تو کسی ایک کے رزق کو مارا جا چکا ہوتا ہے اور میں آپ تو ہر روز جانے کتنے بھوکے پاکستانیوں کا رزق مار کر بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ ہمارا ایک معمول ہے۔ ہمیں اپنے بھائیوں کا حق مارنے کا کچھ قلق نہیں ہوتا بلکہ لطف آتا ہے اور اگر کوئی احتجاج کرے اور ہمارا بس چلے تو ہم اسے کسی اندھے کنویں‘ کسی ابلتے ہوئے پانی کے برتن یا کسی بھوکے کتے کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔
انسان صرف ہم ہیں باقی سب ہماری تفریح ہیں کہ ہم ان کی زندگیوں تک سے کھیل کر خوش ہوتے ہیں اور پنجاب کے اس دیہی علاقے میں یہ سانحہ میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے تو پولیس اس کو رفع دفع کر دے گی اور شادی کے گھر والے ان خانہ بدوشوں کو کچھ دے دلا کر ان سے ان کی مردہ بچی خرید لیں گے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ جناب سیٹھی صاحب نے ماشاء اللہ اس کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور متعلقہ اداروں کو اس کی تفتیش پر لگا دیا ہے۔ ہماری نئی حکومت بچے سقے کی حکومت ہے اور چاہے تو اپنا یہ اقتدار یادگار بھی بنا سکتی ہے۔
کاش کہ خبر یہ آتی کہ وزیر اعلیٰ صاحب یہاں پہنچ چکے ہیں اور اس پاکستانی بچی کا ماتم کر رہے ہیں۔ یوں ہوتا تو آج پورا صوبہ ان کے اس ماتم میں ان کے ساتھ شریک ہوتا اور اس صوبے کی یہ حکومت یادگار بن جاتی۔ اس کی طوالت کی دعائیں کی جاتیں لیکن کیوں۔ یہ سب حکمران عارضی ہوں‘ نگران ہوں یا مستقل یہ سب خانہ بدوشوں کے بادشاہ ہیں اور ایسے درندہ صفت کہ بچا کھچا ضایع کیا جانے والا کھانا بھی کسی بھوکے گداگر کو نہیں دیا جا سکتا۔ اس پر بھی ان رؤسا کے کتوں کا حق زیادہ ہے۔
ہمارے صوبائی وزیر ا علیٰ جناب نجم سیٹھی صاحب چونکہ بہت ہی روشن خیال ہیں اور ان کو حلف برداری کی عبارت جس میں اسلام وغیرہ کا ذکر تھا انھیں بہ ہوش و حواس سب کے سامنے پڑھنی پڑی جو کئی دنوں تک ایک لطیفہ بنی رہی۔ ویسے دیکھئے کہ اقتدار بڑی بلا ہے جس کے لیے انسان کو اپنے نظریات سے بھی انکار کرنا پڑ جاتا ہے، خیر چھوڑیئے ان لطیفوں کو، میں ان کے سامنے اپنے ماضی کے حکمرانوں کی معمول کی زندگی کے ایسے ایسے واقعات بیان کر سکتا ہوں کہ وہ اب تک ہمارے لیے زندہ ہیں۔
ویسے ان دنوں ایک اور حکمران بھی زیربحث اور زیرتفتیش ہے جو سیٹھی صاحب کے لیے باعث عبرت ہے لیکن بات اس بچی کی ہو رہی تھی جو گرم پانی میں ابل کر مر گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ پولیس کسی مدعی کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا مقدمہ داخل دفتر کرنے والی ہے اور گھر والوں کا فیصلہ درست ہے کہ زندگی بھر ابلتے پانیوں میں تڑپ تڑپ کر زندگی گزارنے سے یہ بچپن کی موت ہی بہتر ہے۔ ہم جو حکمران بنانے والے ہیں وہ سب اس نمبردار جیسے ہی ہیں جن کے ہاں یہ شادی تھی اور اس میں یہ سانحہ پیش آیا اور ایک پاکستانی بچی اپنے پاکستانی انجام کو پہنچ گئی۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
Top