میری بیٹی تو میری بیٹی ہے!!!

میری بیٹی تو میری بیٹی ہے!!!
محمد اسامہ سَرسَری۔کراچی
’’جمیلہ...! وہ سامنے جو عورت کھڑی ہے نا... سانولی سی، وہی کلثوم ہے۔ جس کے بارے میں، میں نے تمہیں بتایا تھا کہ ہروقت اپنی بیٹی کے ہی گن گاتی رہتی ہے...چلو آؤ...ذرا اس سے حال احوال لیتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں جمیلہ کو کلثوم کے پاس لے گئی۔ ہم لوگ ابھی ابھی اس تقریب میں پہنچے تھے۔
’’السلام علیکم ...کیسی ہو کلثوم؟‘‘
’’وعلیکم السلام... بالکل ٹھیک ہوں اور تم سناؤ زرینہ...! تم کیسی ہو؟‘‘
خیر خیریت کے بعد میں نے ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کرایا پھر میں نے مذاق کے طور پر کہا:
’’ارے کلثوم...!وہ بچی کتنی پیاری لگ رہی ہے، سچ پوچھو تو... بالکل تمہاری بیٹی لگ رہی ہے۔‘‘
میری بات سن کر کلثوم چونکی اور اس بچی کی طرف گھور کر دیکھا اور تھوڑی دیر تک دیکھنے کے بعد بولی:
’’اونہہ...اس کا ناک نقشہ اتنا خاص نہیں... میری بیٹی کو اس سے کیاتشبیہ دے رہی ہو ... میری بیٹی تو میری بیٹی ہے... میری بیٹی کی تو ہرن جیسی آنکھیں ہیں... چیتے جیسی چال ہے...لومڑی جیسی چالاکی ہے...کوئل جیسی آواز ہے...شیرنی جیسی بہادری ہے... گھوڑی جیسی ہمت ہے... گائے جیسی معصومیت ہے اور... اور...‘‘
’’بس بس... رہنے دو...مجھے ایک بات پتا چل گئی۔‘‘ میں نے اس کی بات کو درمیان سے کاٹ کر کہا۔
’’کیا بات پتا چل گئی...؟‘‘ کلثوم نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یہی کہ تمہاری بیٹی میں ساری جانوروں والی صفات ہیں۔‘‘
میں آگے بھی کچھ بولتی لیکن کلثوم پھٹ پڑی:
’’اے...اے...!میری بیٹی کے بارے میں اپنی زبان سنبھال کر بات کرنا...وہ توگلاب کا پھول ہے... چمن کی بہار ہے...صبح کی تروتازہ شبنم ہے... چودھویں رات کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی ہے... وہ تو...وہ تو...‘‘ کلثوم نہ جانے اور کیا کیا بولتی کہ جمیلہ نے ٹوک دیا:
’’بس کرو... معلوم ہوگیا۔‘‘
’’اب تمھیں کیا معلوم ہوگیا...؟‘‘ کلثوم نے پھر حیران ہوکر پوچھا تو جمیلہ نے کہا:
’’یہی کہ تمہاری بیٹی میں ساری بے جان چیزوں کی صفات ہیں۔‘‘
اور پھر اس سے پہلے کہ کلثوم کاٹ کھانے کو دوڑتی ہم دونوں وہاں سے کھسک گئیں۔
٭……٭
دودن بعد ایک اور تقریب میں میرا جانا ہوا...کافی دیر تک ملنا ملانا ہوتا رہا۔ پھر اچانک میری نظر کلثوم پر پڑی۔ بے اختیار میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ عورت ہی ایسی تھی کہ اپنی سانولی بیٹی کے آگے کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہ تھی... اس وقت وہ کسی سے لڑائی کے انداز میں باتیں کرنے میں مصروف تھی... میں نے سوچا ذرا میں بھی تو سنوں کیا باتیں کررہی ہے۔ چناں چہ میں ان کے قریب آگئی... کلثوم کہہ رہی تھی:
’’تمہاری بیٹی کی تو مستقل ناک بہتی رہتی ہے...میری بیٹی کو دیکھو... اس کی توصفائی ستھرائی دیکھ کر ہی اس پر پیار آجاتا ہے... میری بیٹی تو میری بیٹی ہے...!!!‘‘
’’ارے جاؤ...!تمہاری بیٹی کیا آسمان سے اتری ہے...؟“ دوسری عورت نے کہا وہ شکل سے تیزلگ رہی تھی۔
’’ہاں...ہاں...!میری بیٹی آسمان سے اتری ہے...“ کلثوم نے اکڑ کر کہا۔
”اچھا! تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تمہاری سگی بیٹی نہیں... بل کہ منہ بولی بیٹی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب...!کیا کہنا چاہ رہی ہو...؟ ارے وہ میری سگی بیٹی ہے، جبھی تو اس پرجان دیتی ہوں۔‘‘
”تو پھر تم غلط بیانی کررہی ہو...کیوں کہ ابھی تم کہہ رہی تھیں کہ میری بیٹی آسمان سے اتری ہے... جب آسمان سے اتری ہے تو تمہاری سگی بیٹی تو نہ ہوئی نا...؟“
’’واہ...کیوں نہ ہوئی...ارے میں محاورۃ کہہ رہی تھی...۔‘‘
اسی وقت ہمارے سامنے ایک بچہ آگیا...کپڑے پھٹے ہوئے... میلا کچیلا... چہرہ غبار آلود... بڑی بھونڈی آواز میں رورہا تھا...شاید اپنی ماں کو تلاش کررہا تھا... اچانک میں نے کلثوم کو دیکھا... مجھے اندازہ تھا کہ یہ اس بچے کی گندی حالت کو دیکھ کر ضرور تپ رہی ہوگی۔ لیکن اگلالمحہ انتہائی حیران کن اور چونکا دینے والا تھا۔
میں نے دیکھا کہ کلثوم نے آگے بڑھ کر اس بچے کو گود میں لے لیا اور گلے سے لگاکر اسے چپ کرانے لگی۔
کیا کلثوم ہمارے ساتھ مذاق کرتی تھی کہ اسے صرف اپنی بیٹی ہی اچھی لگتی ہے...؟
کیا ہم اس سے نہیں بل کہ وہ ہم سے تفریح لیتی تھی...
میرے ذہن میں عجیب عجیب خیالات کلبلانے لگے...
دوسری عورت بھی میری طرح حیرانی کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی۔
میں نے ہمت کر کے پوچھا:
’’ کلثوم...!خیریت تو ہے...؟کیا یہ بچہ... تمہاری بیٹی سے اچھا ہے...؟‘‘
”اونہہ...کہاں یہ بھنگی...اور کہاں میری چاند جیسی پری بیٹی... میں تو صرف اس لیے اسے پیار کررہی ہوں کہ یہ میری بیٹی کی طرح روتا ہے... اور یہ رونا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’دھت تیرے کی...!!‘‘ میرے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
…٭٭…
 

ماہا عطا

محفلین
hahaha bht khub...zabardast....wasy har maa ko uski awald sb sy zyda achi lgti hai...bht umda likha hai....Allah apki qalam ko taraki dy...khush rahen...mazeed ka intezar rahe ga...mjhe tag kr di jye ga...shukria
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
:) عمدہ :)
بچپن میں ماں لوری سنایا کرتی تھی۔۔۔

۔۔۔۔ میرا چاند، ۔۔۔ میرا تارا (خالی جگہ پر اپنے بچے کا نام لگا لیجیئے)
اور کافی لمبی ساری تھی۔ اب تو بھول گئی۔۔ :)
مگر یہ سچ ہے کہ والدین کے لیئے اولاد سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ :) لیکن اس محبت کو بنیاد بنا کر دوسروں کے جذبات اور بچوں کی تضحیک بھی قبیح فعل ہی شمار ہوگا۔ اور کسی بھی طور مناسب نہ ٹھہرے گا۔
عمدہ کہانی لکھی سرسری صاحب۔ :)
 
:) عمدہ :)
بچپن میں ماں لوری سنایا کرتی تھی۔۔۔

۔۔۔ ۔ میرا چاند، ۔۔۔ میرا تارا (خالی جگہ پر اپنے بچے کا نام لگا لیجیئے)
اور کافی لمبی ساری تھی۔ اب تو بھول گئی۔۔ :)
مگر یہ سچ ہے کہ والدین کے لیئے اولاد سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ :) لیکن اس محبت کو بنیاد بنا کر دوسروں کے جذبات اور بچوں کی تضحیک بھی قبیح فعل ہی شمار ہوگا۔ اور کسی بھی طور مناسب نہ ٹھہرے گا۔
عمدہ کہانی لکھی سرسری صاحب۔ :)
ظاہر ہے اپنی دہی کو کون کھٹی کہے گا۔ یہ تو پھر اپنی اولاد کی بات ہو رہی ہے۔
hahaha bht khub...zabardast....wasy har maa ko uski awald sb sy zyda achi lgti hai...bht umda likha hai....Allah apki qalam ko taraki dy...khush rahen...mazeed ka intezar rahe ga...mjhe tag kr di jye ga...shukria
تعریف کا شکریہ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!
 
بلاشبہ ہر ماں کو اپنے بچے عزیز ضرور ہوتے ہیں لیکن دوسرے بچوں کے لیئے بھی محبت و شفقت اس میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔
جو کسی بھی روتے ہوئے بچے کو دیکھ کر اس میں فوراَ جاگ اُٹھتی ہے ۔اور یہی والہانہ محبت اس کے اپنے بچوں سے شفقت کا اظہار ہے ۔جیسے اس کہانی میں کلثوم کو اس روتے ہوئے بچے میں بھی اپنی بیٹی کی جھلک نظر آئی ۔۔یہی مامتا ہے جو سب کے لیئے یکساں ہے ۔ماشاءاللہ بہت خوبصورت لکھا آپ نے بیٹا ۔جیتے رہیئے۔
 
Top