میری تازہ غزل ۔ قیودِ زیست نے مشکل میں ڈال رکھا ہے

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک قدرے تازہ غزل پیش ہے۔احباب کی نظروں کی نذر۔ (تنقیدو تبصرہ بسرو چشم۔)

قیودِ زیست نے مشکل میں ڈال رکھا ہے
ترے خیال نے لیکن، سنبھال رکھا ہے
۔۔۔
جو تیرے سامنے ہم نے سوال رکھا ہے
یہی سمجھ لے کہ امرِ محال رکھا ہے
۔۔۔
جو زخم تجھ سے نہ دیکھا گیا نظر بھر کے
وہ ہم نے ایک زمانے سے پال رکھا ہے
۔۔۔
کسے ہو تا ب ،کہ تجھ کو نظر لگائے ذرا
کہ زیبِ عارض گلگوں یہ خال رکھا ہے
۔۔۔
حریفِ ثروتِ قارون ہم بھی ہیں کہ یہاں
خزینہء ِ غم و حزن و ملال ،رکھا ہے
۔۔۔
یہ آبگینے سجائے ہیں شیخ جی کے لیے
اور اپنے واسطے جام ِ سفال رکھا ہے
؎۔۔۔
چہکتے پھرتے عنادل سے کاش کہہ دے کوئی
کہ پہلوئے گلِ تر میں بھی جال رکھا ہے
۔۔۔
تمہارےکاکل پیچاں میں ہے یہ قلب ِ اسیر
اسی لیے تو پس ِپشت ڈال رکھا ہے
۔۔۔
یہ منصفی کی دلیلیں وضاحتیں کیا جب ؟
ہمارا نام ہی غیروں میں ڈال رکھا ہے
۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تکنیکی باتیں تو اساتذہ جانیں، مگر یہاں لیکن کی جگہ مگر آ سکتا ہے؟
جی ہاں ، معنوی طور پر تو ضرور آسکتا ہے۔لیکن اوزان اور بحر (مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن) کے تقاضےکے مطابق الفاظ کی ترتیب بدلنی پڑے گی۔
 

ساقی۔

محفلین
واہ ! زبردست غزل ہے ۔


آخری شعر مجھے یوں دکھائی دیا۔

یہ منصفی کی دلیلیں وضاحتیں کیا جب ؟
ہمارا نام ای سی ایل میں ڈال رکھا ہے :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کیا بات ہے بھائی جان آج کل کوب غزل کہہ رہے ماشاء اللہ

جو زخم تجھ سے نہ دیکھا گیا نظر بھر کے
وہ ہم نے ایک زمانے سے پال رکھا ہے
 
ایک قدرے تازہ غزل پیش ہے۔احباب کی نظروں کی نذر۔ (تنقیدو تبصرہ بسرو چشم۔)

قیودِ زیست نے مشکل میں ڈال رکھا ہے
ترے خیال نے لیکن، سنبھال رکھا ہے
۔۔۔
جو تیرے سامنے ہم نے سوال رکھا ہے
یہی سمجھ لے کہ امرِ محال رکھا ہے
۔۔۔
جو زخم تجھ سے نہ دیکھا گیا نظر بھر کے
وہ ہم نے ایک زمانے سے پال رکھا ہے
۔۔۔
کسے ہو تا ب ،کہ تجھ کو نظر لگائے ذرا
کہ زیبِ عارض گلگوں یہ خال رکھا ہے
۔۔۔
حریفِ ثروتِ قارون ہم بھی ہیں کہ یہاں
خزینہء ِ غم و حزن و ملال ،رکھا ہے
۔۔۔
یہ آبگینے سجائے ہیں شیخ جی کے لیے
اور اپنے واسطے جام ِ سفال رکھا ہے
؎۔۔۔
چہکتے پھرتے عنادل سے کاش کہہ دے کوئی
کہ پہلوئے گلِ تر میں بھی جال رکھا ہے
۔۔۔
تمہارےکاکل پیچاں میں ہے یہ قلب ِ اسیر
اسی لیے تو پس ِپشت ڈال رکھا ہے
۔۔۔
یہ منصفی کی دلیلیں وضاحتیں کیا جب ؟
ہمارا نام ہی غیروں میں ڈال رکھا ہے
۔۔۔

ایک عمدہ غزل ہے روایت جڑی ہوئی اور ’’ قدرے تازہ ‘‘۔

یہ مصرع لفظی سطح پر کچھ بوجھل سا لگ رہا ہے:
چہکتے پھرتے عنادل سے کاش کہہ دے کوئی
توجہ فرمائیے گا۔

تمہارےکاکل پیچاں میں ہے یہ قلب ِ اسیر
اسی لیے تو پس ِپشت ڈال رکھا ہے
پَسِ پُشت ڈالنے والی بات بہت خوب کہی۔ عمدہ اور نزاکت آمیز مضمون آفرینی ہے۔

اور ۔۔۔ یہ شعر بھی خوب ہے!
یہ آبگینے سجائے ہیں شیخ جی کے لیے
اور اپنے واسطے جام ِ سفال رکھا ہے

خوش رہئے۔
 

محمد محبوب

محفلین
حریفِ ثروتِ قارون ہم بھی ہیں کہ یہاں
خزینہء ِ غم و حزن و ملال ،رکھا ہے

تمہارےکاکل پیچاں میں ہے یہ قلب ِ اسیر
اسی لیے تو پس ِپشت ڈال رکھا ہے

:best:
واہ صاحب کیا کہنے :)
 
Top