ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! اس لڑی میں اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے کچھ ’’فن پارے ‘‘ پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔ میں کوئی باقاعدہ خطاط یا مصور نہیں ۔ خطاطی اورمصوری میراایک مشغلہ ہے ہ جس کا شوق مجھے ابتدائی عمر سے رہا لیکن بدقسمتی سے کبھی باقاعدہ سیکھنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ ساٹھ کی دہائی کا آخر میرے پرائمری اسکول کا زمانہ تھا ۔ اس زمانے میں اسکولوں میں خوش خطی پر بہت زور دیا جاتا تھا ۔ ہمارے اسکو ل میں اگرچہ تختی کا التزام نہیں تھا لیکن تجربہ کار ماسٹر صاحبان او ر خاندان کے بڑے بوڑھے اکثر اس کا مشورہ دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ کچھ دن تک تو ہم نے بھی تختی لکھی لیکن پھر چھوڑدی ۔ تختی کی صفائی اور دوبارہ تیاری میں ایک گھنٹہ لگتا تھا اور لکھنے بیٹھو تو پانچ منٹ میں تختی ختم ۔ یعنی یہ طریقہ ٹائم ایفیشینٹ نہیں تھا ۔ اور ہماری عجلت پسندی کو یہ طریقہ راس بھی نہیں آیا ۔ لیکن ہم نے اس کا متبادل بھی بہت جلد ڈھونڈ لیا ۔ ہمارے گھر سے بیس پچیس منٹ کے فاصلے پر شام کے ایک ا خبار کا دفتر تھا ۔ دفتر کا جو بڑا سا ہال نما کمرہ باہر سڑک پر کھلتا تھا اس میں کئی کاتب حضرات ایک چوبی تخت پر بیٹھے بٹر پیپر پرکتابت کیا کرتےتھے ۔ وہاں سے گزر ہوتا تو میں اکثر انہیں دیکھنے کے لئے رک جاتا ۔ اسی مشاہدے کی مدد سے میں نے بیٹھنے اور قلم پکڑنے کا طریقہ سیکھا ۔ قلم بنانے کا طریقہ بھی وہیں ایک کاتب صاحب نے بتایا ۔ مختلف قسم کے نب اور نب ہولڈر ز کے بارے میں بھی معلومات میسر آئیں ۔ بہت اچھے لوگ تھے ۔ ایک بچے کا ذوق و شوق دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور جو پوچھو وہ بخوشی بتادیا کرتے تھے ۔ چھٹی ساتویں جماعت کے زمانے میں معلوم ہوا کہ میرے تایا زاد کے اسکول میں ایک ماسٹر صاحب کسی زمانے میں کاتب ہوا کرتے تھے ۔ وہ بخوشی تیار ہوگئے کہ میں اور میرا کزن کبھی کبھار شام کو ان کے گھر کتابت سیکھنے کے لئے آجایا کریں ۔ ان کے حکم پر بازار سے خاکی (براؤن) رنگ کے کاغذ کا ایک دستہ خریدا اور اسے بڑے سائز میں کاٹ کر سوئی دھاگے کی مدد سے درمیان میں سی دیا ۔اس طرح گویا ایک بڑا سا جرنل وجود میں آگیا ۔ یہ کاغذ اس وقت اسٹیشنری کی دکانوں پر سستا اور عام ملتا تھا اور کتابوں کاپیوں پر گردپوش کی طرح چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔ مشق کے لئے یہ کاغذ استعمال کرنے کی خاص وجہ تھی ۔ ایک تو یہ کہ اس کاغذ کی ایک سطح چکنی اور دوسری نسبتاً کھردری ہوتی تھی ۔ دوسری یہ کہ چکنی سطح پر باریک باریک سیدھی لکیریں کاغذ کی ساخت کے اندر موجود ہوتی تھیں چنانچہ لکھنے سے پہلے اس پر پینسل سے لکیریں بنانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی تھی ۔ چکنی سطح پر سرکنڈے کے قلم اور کالی روشنائی سے مشق کی جاتی تھی ۔ ماسٹر صاحب ہی سے پہلی دفعہ قط اور حروف کے اوزان کا پتہ چلا ۔ وہ کاغذ کے اوپر پہلی سطر میں نستعلیق جلی میں الف ب لکھ دیتے اور ہم نیچے ان کی نقل کرتے ۔ بد قسمتی سے ہمارے کزن دو تین اسباق کے بعد ہی ہمت ہار بیٹھے یا پھر ان کا شوق ختم ہوگیا اور انہوں نے جانا بند کردیا ۔ مجبوراً ہمیں بھی ترک کرنا پڑا ۔ صد حیف کہ اس کے بعد زندگی میں پھر کبھی کسی سے سیکھنے کا موقع نہیں ملا ۔ باقاعدہ تربیت کی اس کمی کو مشاہدے اور مطالعے سے پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہتا ہوں لیکن ظاہر ہے کہ تربیت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا خصوصاً کتابت جیسے فن میں ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ مصوری کے ساتھ رہا ۔ نجانے کب اور کیسے ڈرائنگ کا شوق ہوگیا اور ہوتا چلا گیا ۔ رہنمائی کے لئے مشاہدے اور مطالعے کی کوئی کمی نہ تھی ۔ انٹرنیٹ کی آمد نے اور آسانیاں پیدا کردیں ۔ اب تک درجن بھرکے قریب اسکیچ بکس کالی کرچکا ہوں ۔ اگر پین پاس ہو اور سفید کاغذ نظر آجائے تو مجھ سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا ۔ میں doodling کرتا ہوں ۔ اور میں نے اس کا اردو ترجمہ خط کشی کیا ہے ۔ اس مشغلے میں میرے لئے ایک طرح کا تھیراپیوٹک ایفیکٹ ہے ۔ یہ میرے لئے بوریت اور ذہنی خلفشار سے نجات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ آسان ہے ۔
زیادہ تر ڈرائنگ سفید لیٹر سائز (ایسڈ فری بیس پونڈ وزن والے ) کاغذ پر سیاہ جیل پین سے ہیں ۔ کچھ کام ایک سو دس پونڈ والے کارڈ اسٹاک پر بھی کیا گیا ہے ۔ میرا پسندیدہ پین پائلٹ جی ٹو( اعشاریہ سات) ہے کہ ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب ہوتا ہے ۔ اگر کبھی عیاشی کا موڈ ہو اور وقت ہو تو مائیکرون ( اعشاریہ ایک سے اعشاریہ آٹھ کی موٹائی تک) استعمال کرتا ہوں ۔ سنجیدہ کام کرنے اور اسے مکمل کرنے کی فرصت اب کم ہی ملتی ہے ۔ بڑے سائز میں اگر کچھ بناؤں تو وہ اکثر عزیز و اقارب کو تحفے میں دے دیاجاتا ہے اور ان کی محبت کہ وہ اسے اپنے درونِ خانہ کی زینت بناتے ہیں ۔ اب سے پہلے کبھی خیال تک بھی نہیں آیا کہ ان تصاویر کا فوٹو وغیرہ لیکر اپنے پاس محفوظ کرلیا جائے ۔ لیکن اب کچھ عرصے سے ایسا کرنا شروع کیا ہے ۔ جو کچھ میسر ہے اسے یہاں پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔ جلد ہی ڈرائنگ اور پینٹنگز وغیرہ کے لئے ایک دوسری لڑی میری اسکیچ بک کے نام سے شروع کرنے کا اردہ ہے ۔
( اس لڑی کا عذاب ثواب حسبِ معمول اپنے احمد بھائی کی گردن پر اور اس کا انتساب بھی انہی کے نام !)
پرانی لڑی پکسل سے پینسل تک میں بھی آج دو نئے تجربات کا اضافہ کیا ہے ۔ امید ہے پسند آئیں گے اور میرا کمپیوٹر داد کا مستحق ٹھہرے گا ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ مصوری کے ساتھ رہا ۔ نجانے کب اور کیسے ڈرائنگ کا شوق ہوگیا اور ہوتا چلا گیا ۔ رہنمائی کے لئے مشاہدے اور مطالعے کی کوئی کمی نہ تھی ۔ انٹرنیٹ کی آمد نے اور آسانیاں پیدا کردیں ۔ اب تک درجن بھرکے قریب اسکیچ بکس کالی کرچکا ہوں ۔ اگر پین پاس ہو اور سفید کاغذ نظر آجائے تو مجھ سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا ۔ میں doodling کرتا ہوں ۔ اور میں نے اس کا اردو ترجمہ خط کشی کیا ہے ۔ اس مشغلے میں میرے لئے ایک طرح کا تھیراپیوٹک ایفیکٹ ہے ۔ یہ میرے لئے بوریت اور ذہنی خلفشار سے نجات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ آسان ہے ۔
زیادہ تر ڈرائنگ سفید لیٹر سائز (ایسڈ فری بیس پونڈ وزن والے ) کاغذ پر سیاہ جیل پین سے ہیں ۔ کچھ کام ایک سو دس پونڈ والے کارڈ اسٹاک پر بھی کیا گیا ہے ۔ میرا پسندیدہ پین پائلٹ جی ٹو( اعشاریہ سات) ہے کہ ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب ہوتا ہے ۔ اگر کبھی عیاشی کا موڈ ہو اور وقت ہو تو مائیکرون ( اعشاریہ ایک سے اعشاریہ آٹھ کی موٹائی تک) استعمال کرتا ہوں ۔ سنجیدہ کام کرنے اور اسے مکمل کرنے کی فرصت اب کم ہی ملتی ہے ۔ بڑے سائز میں اگر کچھ بناؤں تو وہ اکثر عزیز و اقارب کو تحفے میں دے دیاجاتا ہے اور ان کی محبت کہ وہ اسے اپنے درونِ خانہ کی زینت بناتے ہیں ۔ اب سے پہلے کبھی خیال تک بھی نہیں آیا کہ ان تصاویر کا فوٹو وغیرہ لیکر اپنے پاس محفوظ کرلیا جائے ۔ لیکن اب کچھ عرصے سے ایسا کرنا شروع کیا ہے ۔ جو کچھ میسر ہے اسے یہاں پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔ جلد ہی ڈرائنگ اور پینٹنگز وغیرہ کے لئے ایک دوسری لڑی میری اسکیچ بک کے نام سے شروع کرنے کا اردہ ہے ۔
( اس لڑی کا عذاب ثواب حسبِ معمول اپنے احمد بھائی کی گردن پر اور اس کا انتساب بھی انہی کے نام !)
پرانی لڑی پکسل سے پینسل تک میں بھی آج دو نئے تجربات کا اضافہ کیا ہے ۔ امید ہے پسند آئیں گے اور میرا کمپیوٹر داد کا مستحق ٹھہرے گا ۔
آخری تدوین: