نصیر الدین نصیر میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی - نصیر الدین نصیر

ملائکہ

محفلین
لاجواب کلام
یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر آف گولڑہ شریف کی ہی ہے
شریک محفل کرنے کا شکریہ شاد و آباد رہیں
جی انکل یہ میں نے اس زمانے میں پڑھی اور پوسٹ کی تھی جب مجھے شاعری اچھی لگتی تھی لیکن اب اتنا چارم نہیں رہا۔۔۔۔
 

سپرانومی

محفلین
ملائکہ دوسرے شعر میں ایک غلطی ہے۔
دوسرا مصرعہ“ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی” اس میں “وار” لکھا ہے جبکہ یہاں لفظ “دار” آئے گا۔
 

دوست محمد

محفلین
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔
ہمیں آپ کھینچیئے وار پر...... یہاں لفظ "وار" غلط ہے ۔ اصل لفظ ہے "دار.
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔
ہمیں آپ کھینچیئے وار پر.. اس میں لفظ " وار" کی جگہ اصل لفظ ہے " دار"
 

دوست محمد

محفلین
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔
ہمیں آپ کھینچیئے وار پر...... یہاں لفظ "وار" غلط ہے ۔ اصل لفظ ہے "دار.
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔
ہمیں آپ کھینچیئے وار پر.. اس میں لفظ " وار" کی جگہ اصل لفظ ہے " دار"
 
مجھے یہ غزل بہت پسند ہے لیکن اس سے پہلے جب میں نے اسے پڑھا تھا تو کسی ستم ظریف نے قتیل شفائی کی جگہ اپنا نام (نصیر) لکھ دیا تھا ۔

نہ جانے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔
محمد احمد صاحب بہت احترام کے ساتھ آپ کی جناب میں گزارش ہے کہ یہ کلام پیر نصیر الدین نصیر (پیر مہر علی شاہ صاحب کے پوتا) کا ہے۔ کسی نے قتیل غلط لکھا ہوا ہے۔
 
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کا قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

قتیل شفائی
یہ میں نے کسی کتاب سے نہیں لکھی تو غلطی کا امکان ہے:):):)

----------------
تدوین - نیچے کے مراسلوں سے ثابت ہوا کہ یہ غزل پیر نصیر الدین نصیر کی ہے سو اس کا مقطع یوں ہوگا

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

ایڈمن۔

اب بھی لگتا ہے کہ کچھ اغلاط باقی ہیں.


میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری اجنمن کے قریں سہی

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی

پیر نصیرالدین نصیر


اور یہ دھاگہ پھر جی اٹھا ہے.
 

Azmat Rasool Ghumman

محفلین
مجھے یہ غزل بہت پسند ہے لیکن اس سے پہلے جب میں نے اسے پڑھا تھا تو کسی ستم ظریف نے قتیل شفائی کی جگہ اپنا نام (نصیر) لکھ دیا تھا ۔

نہ جانے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔
السلام و علیکم
یہ غزل پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔ تخلص غلط لکھا گیا تھا جس کی تصحیح کی جا چکی۔ آپ کا لہجہ بہت سخت رہا۔
 
Top