امجد میانداد
محفلین
الحمداللہ
کل میں پورے چالیس سال کا ہو چکا۔ کچھ کے نزدیک میری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک نعمتوں بھرے سال کا اضافہ، ایک خوشیوں بھرے سال کا اضافہ۔ اچھے لوگوں کے ساتھ کا اضافہ۔ پیار، محبت اور خلوص کا اضافہ۔
شاید میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی اس دنیا میں مجھ جیسے خوش قسمت لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ لیکن میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی تمام لوگوں کی زندگیوں میں بھی خوشیوں اور نعمتوں کو بھر دے، آمین۔
آنکھ کھولی تو خود کو ایسے ماں باپ کے ہاں پایا جن کی زندگی کا مقصد شاید ہم بہن بھائی ہی تھے اور ہمارے علاوہ ان کی زندگی میں کچھ نہیں تھا اور اس حاصل "کچھ" یعنی ہماری پرورش کے لیے انہوں نے میری یاداشت کے دوران کبھی بھی اپنے لیے نہیں سوچا، ایک لمحے کے لیے بھی نہیں، صرف ہمارے لیے۔ ایسے ماں باپ کی عطا پر میں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
اللہ نے بہن بھائی بھی دیے تو ایسے اللہ لوک کے ان سے کوئی گلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سب نے بڑا بھائی دیکھا، کہا اور ہمیشہ مانا۔ میں گھر میں سب کا بڑا بھائی ہی رہا آج تک۔
صرف گھر والوں ہی کی نعمت کا کیا ذکر اللہ پاک نے یہاں تک کرم کیا کہ ہمیشہ محلے والے اور آس پاس والے ایسے دیے کہ چھوڑتے ہوئے دل دُکھے۔ کئی محلے والوں سے تو جیسے صدیوں کا تعلق ہو جس نے شاید کبھی نہیں ٹوٹنا۔
میرے اساتذہ، اللہ، اللہ۔ خدا کی قسم مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ایک بار بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ پتہ نہیں کون سی شخصیت اپنے استاد کی گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سوتے تھے تو میں عملاً بہت عرصے تک ہماری کلاس ٹیچر جن سے ہمیں بہت پیار تھا ان کے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سویا۔ اس سے ان کی عظمت اور محبت کا اندازہ لگا لیں جن کا میری تعمیر میں حصہ رہا۔ کوئٹہ میں ہماری جامع مسجد جہاں میری زندگی کا بیشتر حصہ گزرا وہاں کے قاری صاحب، قاری طیب صاحب جن سے ہم نے قرآن بھی پڑھا اور بہت کچھ سیکھا بھی ان کی ایک بات آج بھی یاد ہے کہ کبھی ہم کسی گروہ، فرقے یا مذہب کے بارے میں کوئی ایسی بات سنتے جو ہمارے لیے نئی یا حیران کن ہوتی ہم ان سے پوچھتے کہ قاری صاحب فلاں ایسے ہیں یا ایسے کرتے ہیں یا ان کے ہاں یہ رسم، رواج یا روایت ہے تو وہ کہتے اچھا ذرا وضو کے فرائض بتاؤ، یا غسل کے فرائض بتاؤ اور اسی طرح کے دوسرے سوال کر کے ہمیں لاجواب کرنے کے بعد کہتے کہ تمہارا مسئلہ تمہارے ایمان اور اعمال کی درستگی ہے۔ (یعنی تمہاری ذات کا ایمان کی تکمیل اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے نہ کہ دوسروں کے عیوب یا عقائد پر نظر رکھنا اور حساب کتاب کرنا۔ اور جب تم نے حقیقی معنوں میں ایمان کو پا لیا تو تم پھر لوگوں کی ٹوہ اور دوسروں کے ایمان کا حساب کتاب سے خود ہی رہ جاؤ گے)۔ ایسے ٹیچر، استاد ملے مجھے تو میں کیوں نہ خود کو خوش نصیب سمجھوں۔
اور میرے دوست!! میرے دوست تو جیسے دوست نہیں ربِ کریم کی نعمت کی طرح رہے۔ سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں کی چھاؤں۔ مجال ہے کوئی ایک دوست بھی ایسا رہا ہو جس نے کبھی کوئی غلط راہ دکھائی ہو، کبھی اچھے رستے سے منع کیا ہو۔ اور میں تو ہمیشہ ان کے سامنے بس کھلی کتاب کی طرح کھلا ہی رہا، ہر بات، ہر سکھ، ہر دُکھ ان سے شئیر کرتا رہا۔ یہی دوست میری نسوار، میری سگریٹ، میری چرس، میری بھنگ، میرا گٹکا اور میری شراب بنے رہے اور جیسا اور جو محسوس کیا ان سے شئیر کیا اس لیے آج تک کبھی کسی طرح کے نشے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
اور صرف ساتھ پڑھنے، اٹھنے، بیٹھنے اور کھیلنے والے دوست ہی نہیں مجھے تو اللہ نے قلمی اور آن لائن دوست اور احباب بھی ایسے عطا کیے کہ مجھے خود پر ہی مان ہوتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر بے انتہا مہربانی کا احساس بھی۔ اخلاقی، علمی، ادبی، جذباتی لگاؤ اور مدد میں تو دوست احباب پیش پیش ہی رہے لیکن دو تین آن لائن دوست احباب نے تو قبول ہوئی دعا کی طرح میری بے انتہا مشکل گھڑیوں میں مالی مدد بھی کی۔ جن کا قرض میں شاید زندگی بھر نہ چکا سکوں۔
یہاں تک کہ ملنے جلنے والے لوگوں میں بھی پروردگار نے ایسے لوگ عطا کیے کہ زندگی میں ایک آدھ بار مایوسی کے گھپ اندھیروں میں امید کی کرن بن کر آئے اور کوئی تعلق اور کوئی غرض نہ ہونے کے باوجود مجھے اندھیروں سے باہر نکالا اور پھر سے زندگی کی دوڑ میں لا کھڑا کیا۔
انہی لوگوں کی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے کولیگز اور ساتھ کام کرنے والوں سے نوازا کہ جنہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی۔ مجھے قدم رکھنے سکھائے اور اڑنا سکھایا۔ مجھے ان لوگوں کا تجربہ ہی نہیں ہوا اپنے کیرئیر میں جن کے بارے میں سنتے ہیں کہ آگے بڑھنے والوں کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ آگے بڑھنے نہیں دیتے، سیکھنے نہیں دیتے۔ خدا کی قسم میں کتنا نوازا گیا ہوں میں آج جو کچھ بھی ہوں لوگوں کا سکھایا ہوا اور پڑھایا ہوا ہوں ورنہ میں کچھ بھی نہیں۔ مجھے ایک گھر، ایک فصیل ایک قلعے کی طرح تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں ایک ایک اینٹ لوگوں نے لگائی ہے اپنے تجربے، اپنے علم، اپنے ہنر کی۔
میرے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکلز سے ہوا اور وہاں ایسے کولیگز اور سپروائزرز کا ساتھ دیا اللہ نے کہ کولیگز نے بھی بڑھ چڑھ کر مجھے سکھایا اور آگے بڑھنے میں مدد کی اور میرے سپر وائزر تو جیسے مجھے اپنی پراڈکٹ یا برین چائلڈ کی طرح بہتر سے بہتر، گروم اور امپروو کرنے میں لگے رہے۔ آج میں جب پیچھے نگاہ دوڑاتا ہوں تو ہر چہرہ مجھے میری کامیابی اور آگے بڑھنے میں حصہ دار اور میری کامیابی پر خوش ہی دکھتا ہے جیسے ایک استاد اپنے ہونہار شاگرد کی فرسٹ پوزیشن پر خوش ہو ویسے ہی میرے کولیگز اور میرے سپر وائزرز کا رویہ رہا۔ اور پھر انہی میں سے کچھ کی کاوشوں کے سبب اینگرو کے کونٹریکٹ سے ایجیلیٹی لاجسٹکس جیسی دنیا کی سب سے بڑی لاجسٹک اینڈ سپلائی چین کمپنی کی پرمننٹ جاب نصیب ہوئی۔
اور پھر کراچی کے موسم اور خشکی سے اکتا جانے کے بعد ایک دوست کے کہنے پر اسلام آباد آنا اور یہاں نئے سرے سے جاب کے لیے اپلائے کرنا، سیلیکٹ ہو جانا اور پھر آگے بڑھتے جانا۔ ہر ادارے ہر تنظیم میں ایسے ایسے ہیرے لوگ ملے کہ زندگی گلزار ہی رہی۔ میرے باسز نے گویا میرا ہاتھ تھام کر مجھے آگے بڑھنے اور سکھانے کی ٹھان رکھی ہو اور میرے کولیگز نے جیسے تہیہ کر رکھا تھا کہ جو مجھے نہیں آتا اور انہیں آتا ہے وہ مجھے بھی سکھا کر رہیں گے اور ہر حال میں کامیاب کر کے رہیں گے۔ اور کیسے ہوتے ہیں خوش قسمت لوگ۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ملنے ملانے والے لوگوں میں بھی ہیرے موتیوں جیسے لوگوں سے نوازے اسے شریکِ حیات کی صورت میں جنت کا کیسا سکون اور کیسی راحت عطا ہوئی ہو گی۔ میری زوجہ میری شریکِ حیات، نہ صرف میری زندگی بلکہ میری روح کے سکون کا بھی باعث ہے۔ اِن کے بغیر شاید زندگی کا یہ احساس ممکن ہی نہ ہوتا شاید ان کی موجودگی ہی اللہ کی ان تمام نعمتوں اور کرم کا، زندگی جیسی نعمت کا اور ربِ کائنات کی جانب سے بے پناہ نوازے جانے کا احساس دلاتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے شاید ہم ایک دوسرے ہی کے لیے بنائے گئے تھے اور دونوں مل کر اب ایک وجود رکھتے ہیں۔ نہ کچھ کہنے کی ضرورت، نہ کچھ سنانے کی ضرورت گویا ایک دوسرے کے احساسات کو پڑھ لینے کی قدرت دے رکھی ہو رب نے۔ بچوں کی تربیت کیسے ہوئی کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ بچے اتنے بڑے کیسے ہو گئے، اتنے فرمانبردار، صابر، شاکر، ذہین میرے اللہ جی اپنی اس ایک حقیر تخلیق پر اتنا کرم، اتنا رحم، اتنی عطا۔
بچے تو میرے جیسے کسی نیکی کے صلے کی طرح ملے مجھے، نعمت ہی نعمت، رحمت ہی رحمت، راحت ہی راحت۔
صابر اتنے کے جب تک کچھ لا کر نہ دے سکو کوئی مطالبہ نہیں۔ اور اگر کبھی دل چاہ رہا ہو تو پوچھیں گے پہلے کہ بابا آپ کے پاس پیسے ہیں، سیلیری ملی ہے آپ کو، کوئی پےمنٹ آئی ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ میرے بچوں کو کچھ چاہیئے۔ کبھی کھانے میں کوئی نخرہ نہیں کدو ہوں یا شلجم، کریلے ہوں یا ٹنڈے میرے بچوں نے کبھی کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچے اور یہاں تک کہ اگر کوئی پوچھے آپ کی فیورٹ ڈِش کیا ہے تو شاید میرا دل رکھنے کے لے ہی کوئی اپنی فیورٹ ڈِش کریلے بتائے گا تو کوئی شملہ مرچ کا سالن تو کوئی شلجم یا کدو کا سالن کیوں کہ حضورﷺ کو بھی پسند تھے۔ کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ بچے پالنا کبھی مشکل بھی ہوتا ہو گا۔ الحمد اللہ نماز روزے میں مجھ سے آگے یہاں تک کہ ماشاءاللہ سب سے چھوٹے اسید نے بھی اس سال صرف ایک روزہ چھوڑا وہ بھی سحری میں قے لگنے کی وجہ سے اور سارا رمضان پریشان رہا کہ ایک روزہ چھوٹ گیا حالانکہ بہت تسلیاں دیں کہ بیٹا ابھی آپ بہت چھوٹے ہو آپ پر روزے فرض نہیں اور آپ کچھ روزے ہی رکھ لو گرمی ہے ٹھنڈ والے دن روزے رکھنا لیکن مجال ہے خود سے الارم لگا کر رکھے بچوں نے کہ اگر بڑے نہ اٹھائیں تو خود اٹھ سکیں۔ روز رات کہہ کر سوتا ہے کہ بابا آپ مجھے صبح اٹھانا اور میرے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جانا پلیز۔ میں نے مسجد جا کر نماز پڑھنی ہے اور اتنی نمازوں کا ثواب ہوتا ہے مسجد میں پڑھنے سے۔ کل رات زبردستی عشاء کے وقت روکا کہ بہت تیز بارش ہے گھر میں پڑھ لو۔ الحمداللہ
دسترخوان لگانے اور اٹھانے کی ایک ایک مہینے کی باری لگا رکھی ہے آپس میں لڑائی جھگڑے سے بچنے کے لیے، اسی طرح بچوں کے لیے مخصوص کمپیوٹر کے استعمال کا بھی کیلینڈر ہے فی روز فی بچہ باری کے حساب سے
ایسے دیئے ہیں اللہ پاک نے مجھے بچے، میرے دل کا قرار، میرا سکون، میری زندگی کی رونق، الحمداللہ۔
لوگ کبھی کبھی میری بہت زیادہ پازیٹیویٹی کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن میں کیوں پازیٹو نہ رہوں، میں کیوں ہر ایک کے بارے میں مثبت نہ سوچوں۔
میں کیوں اتنے سارے بھرے ہوئے گلاس کو نظر انداز کر کے تھوڑے سے خالی حصے پر توجہ دوں۔ جب مجھے ملا ہی سب کچھ پازیٹو ہے تو میں زندگی میں نیگٹیویٹی کو جگہ کیوں دوں جب ربِ کریم نے اسے مجھ سے دور رکھا اور میری زندگی میں شامل ہونے ہی نہیں دیا تو میں کیوں خود سے لے کر آؤں۔ یہاں تک کہ مجھے تو سب سے بدنام وکیل اور پولیس والے بھی ایسے ملے کہ ان کے خلوص کی وجہ سے کبھی کسی وکیل اور پولیس والے کی برائی دل میں آتی ہی نہیں۔ ایسے پولیس والے ملے جنہوں نے لانڈھی کراچی کی مصروف ترین مارکیٹ میں فون چوری ہو جانے کے بعد اگلے دن فون کر کے کہا کہ بھائی آپ کا موبائل مل گیا ہے کسی وقت بھی آ کر لے جائیں بس آتے ہوئے سو روپے کی مٹھائی لیتے آنا (جی کراچی لانڈھی پولیس کی بات کر رہا ہوں) جی ایسے پولیس والے کہ جنہوں نے عید پر گھر آتے ہوئے ابو کی ساری جمع پونجی لوٹنے والے ڈاکوؤں کو پکڑنے کے بعد ان سے بہت ساری رقم بازیاب کرنے کے بعد کہا کہ ابھی ان پیسوں میں سے جتنے چاہیئں لے جائیں خرچے کے لیے باقی کل عدالت میں پیشی کے بعد لے لینا۔ اور اگلے دن جب ابو نے اپنی خوشی سے کچھ مٹھائی دینے کی بات کی تو کہا چلیں اتنا اصرار کرتے ہیں تو جس موبائل میں بیٹھ کر آپ گرفتار ڈاکوؤں کی پہچان کرنے گئے تھے اس میں پیٹرول ڈلوا دیں لیکن ہماری اصل مٹھائی یہی ہے کہ آپ اب ڈاکوؤں کے ساتھ مک مکا کروا کر انہیں چھڑوا نہ دینا۔ (جی یہ ہری پور پولیس کی بات کر رہا ہوں اور آپ بیتے واقعہ کی)۔ ایسے وکیل ملے جنہوں نے مجھ سے کئی گنا طاقتور، بااثر مخالف کے خلاف سیشن سے لے کر ہائی کورٹ تک تین عدالتوں میں کیس لڑے اور جب بھی میں نے فیس کا کہا تو یہی جواب ملا امجد بھائی آپ سے یہی فیس لیں گے کہ جب کبھی کمپیوٹر میں خرابی ہوئی یا انٹرنیٹ یا کسی سوفٹ وئیر سے متعلق مدد چاہیئے ہوئی تو آپ کو بغیر تکلف بلائیں گے تو آپ آجانا بس۔ (ایسے ہی ہوتے ہیں وکیل آپ لوگوں کو ملنے والے بھی؟)
مجھے لگتا ہے اللہ نے قرآن پاک میں مجھے ہی مخاطب کر کے کہا ہے "تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے"
اے میرے رب میں یہ ایک زندگی تو کیا ہزار زندگیاں بھی ملیں اور ہر لمحہ تیری عبادت میں گزرے تب بھی تیری کسی ایک نعمت کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ بس مجھے یہ پتہ ہے کہ تجھے اپنی اس تخلیق سے بہت پیار ہے اور تیری بہت عنایت ہے اور بے شک یہ تیرا ہی کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ورنہ میں کچھ بھی نہیں تیری نعمتوں، کرم اور عطا کے بغیر۔
کل میں پورے چالیس سال کا ہو چکا۔ کچھ کے نزدیک میری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں میری زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک نعمتوں بھرے سال کا اضافہ، ایک خوشیوں بھرے سال کا اضافہ۔ اچھے لوگوں کے ساتھ کا اضافہ۔ پیار، محبت اور خلوص کا اضافہ۔
شاید میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی اس دنیا میں مجھ جیسے خوش قسمت لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ لیکن میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی تمام لوگوں کی زندگیوں میں بھی خوشیوں اور نعمتوں کو بھر دے، آمین۔
آنکھ کھولی تو خود کو ایسے ماں باپ کے ہاں پایا جن کی زندگی کا مقصد شاید ہم بہن بھائی ہی تھے اور ہمارے علاوہ ان کی زندگی میں کچھ نہیں تھا اور اس حاصل "کچھ" یعنی ہماری پرورش کے لیے انہوں نے میری یاداشت کے دوران کبھی بھی اپنے لیے نہیں سوچا، ایک لمحے کے لیے بھی نہیں، صرف ہمارے لیے۔ ایسے ماں باپ کی عطا پر میں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
اللہ نے بہن بھائی بھی دیے تو ایسے اللہ لوک کے ان سے کوئی گلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سب نے بڑا بھائی دیکھا، کہا اور ہمیشہ مانا۔ میں گھر میں سب کا بڑا بھائی ہی رہا آج تک۔
صرف گھر والوں ہی کی نعمت کا کیا ذکر اللہ پاک نے یہاں تک کرم کیا کہ ہمیشہ محلے والے اور آس پاس والے ایسے دیے کہ چھوڑتے ہوئے دل دُکھے۔ کئی محلے والوں سے تو جیسے صدیوں کا تعلق ہو جس نے شاید کبھی نہیں ٹوٹنا۔
میرے اساتذہ، اللہ، اللہ۔ خدا کی قسم مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے ایک بار بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ پتہ نہیں کون سی شخصیت اپنے استاد کی گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سوتے تھے تو میں عملاً بہت عرصے تک ہماری کلاس ٹیچر جن سے ہمیں بہت پیار تھا ان کے گھر کی طرف پاؤں کر کے نہیں سویا۔ اس سے ان کی عظمت اور محبت کا اندازہ لگا لیں جن کا میری تعمیر میں حصہ رہا۔ کوئٹہ میں ہماری جامع مسجد جہاں میری زندگی کا بیشتر حصہ گزرا وہاں کے قاری صاحب، قاری طیب صاحب جن سے ہم نے قرآن بھی پڑھا اور بہت کچھ سیکھا بھی ان کی ایک بات آج بھی یاد ہے کہ کبھی ہم کسی گروہ، فرقے یا مذہب کے بارے میں کوئی ایسی بات سنتے جو ہمارے لیے نئی یا حیران کن ہوتی ہم ان سے پوچھتے کہ قاری صاحب فلاں ایسے ہیں یا ایسے کرتے ہیں یا ان کے ہاں یہ رسم، رواج یا روایت ہے تو وہ کہتے اچھا ذرا وضو کے فرائض بتاؤ، یا غسل کے فرائض بتاؤ اور اسی طرح کے دوسرے سوال کر کے ہمیں لاجواب کرنے کے بعد کہتے کہ تمہارا مسئلہ تمہارے ایمان اور اعمال کی درستگی ہے۔ (یعنی تمہاری ذات کا ایمان کی تکمیل اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے نہ کہ دوسروں کے عیوب یا عقائد پر نظر رکھنا اور حساب کتاب کرنا۔ اور جب تم نے حقیقی معنوں میں ایمان کو پا لیا تو تم پھر لوگوں کی ٹوہ اور دوسروں کے ایمان کا حساب کتاب سے خود ہی رہ جاؤ گے)۔ ایسے ٹیچر، استاد ملے مجھے تو میں کیوں نہ خود کو خوش نصیب سمجھوں۔
اور میرے دوست!! میرے دوست تو جیسے دوست نہیں ربِ کریم کی نعمت کی طرح رہے۔ سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں کی چھاؤں۔ مجال ہے کوئی ایک دوست بھی ایسا رہا ہو جس نے کبھی کوئی غلط راہ دکھائی ہو، کبھی اچھے رستے سے منع کیا ہو۔ اور میں تو ہمیشہ ان کے سامنے بس کھلی کتاب کی طرح کھلا ہی رہا، ہر بات، ہر سکھ، ہر دُکھ ان سے شئیر کرتا رہا۔ یہی دوست میری نسوار، میری سگریٹ، میری چرس، میری بھنگ، میرا گٹکا اور میری شراب بنے رہے اور جیسا اور جو محسوس کیا ان سے شئیر کیا اس لیے آج تک کبھی کسی طرح کے نشے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
اور صرف ساتھ پڑھنے، اٹھنے، بیٹھنے اور کھیلنے والے دوست ہی نہیں مجھے تو اللہ نے قلمی اور آن لائن دوست اور احباب بھی ایسے عطا کیے کہ مجھے خود پر ہی مان ہوتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اپنے اوپر بے انتہا مہربانی کا احساس بھی۔ اخلاقی، علمی، ادبی، جذباتی لگاؤ اور مدد میں تو دوست احباب پیش پیش ہی رہے لیکن دو تین آن لائن دوست احباب نے تو قبول ہوئی دعا کی طرح میری بے انتہا مشکل گھڑیوں میں مالی مدد بھی کی۔ جن کا قرض میں شاید زندگی بھر نہ چکا سکوں۔
یہاں تک کہ ملنے جلنے والے لوگوں میں بھی پروردگار نے ایسے لوگ عطا کیے کہ زندگی میں ایک آدھ بار مایوسی کے گھپ اندھیروں میں امید کی کرن بن کر آئے اور کوئی تعلق اور کوئی غرض نہ ہونے کے باوجود مجھے اندھیروں سے باہر نکالا اور پھر سے زندگی کی دوڑ میں لا کھڑا کیا۔
انہی لوگوں کی طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے کولیگز اور ساتھ کام کرنے والوں سے نوازا کہ جنہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی۔ مجھے قدم رکھنے سکھائے اور اڑنا سکھایا۔ مجھے ان لوگوں کا تجربہ ہی نہیں ہوا اپنے کیرئیر میں جن کے بارے میں سنتے ہیں کہ آگے بڑھنے والوں کی ٹانگیں کھینچتے ہیں۔ آگے بڑھنے نہیں دیتے، سیکھنے نہیں دیتے۔ خدا کی قسم میں کتنا نوازا گیا ہوں میں آج جو کچھ بھی ہوں لوگوں کا سکھایا ہوا اور پڑھایا ہوا ہوں ورنہ میں کچھ بھی نہیں۔ مجھے ایک گھر، ایک فصیل ایک قلعے کی طرح تعمیر کیا گیا ہے اور اس میں ایک ایک اینٹ لوگوں نے لگائی ہے اپنے تجربے، اپنے علم، اپنے ہنر کی۔
میرے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز اینگرو پولیمر اینڈ کیمیکلز سے ہوا اور وہاں ایسے کولیگز اور سپروائزرز کا ساتھ دیا اللہ نے کہ کولیگز نے بھی بڑھ چڑھ کر مجھے سکھایا اور آگے بڑھنے میں مدد کی اور میرے سپر وائزر تو جیسے مجھے اپنی پراڈکٹ یا برین چائلڈ کی طرح بہتر سے بہتر، گروم اور امپروو کرنے میں لگے رہے۔ آج میں جب پیچھے نگاہ دوڑاتا ہوں تو ہر چہرہ مجھے میری کامیابی اور آگے بڑھنے میں حصہ دار اور میری کامیابی پر خوش ہی دکھتا ہے جیسے ایک استاد اپنے ہونہار شاگرد کی فرسٹ پوزیشن پر خوش ہو ویسے ہی میرے کولیگز اور میرے سپر وائزرز کا رویہ رہا۔ اور پھر انہی میں سے کچھ کی کاوشوں کے سبب اینگرو کے کونٹریکٹ سے ایجیلیٹی لاجسٹکس جیسی دنیا کی سب سے بڑی لاجسٹک اینڈ سپلائی چین کمپنی کی پرمننٹ جاب نصیب ہوئی۔
اور پھر کراچی کے موسم اور خشکی سے اکتا جانے کے بعد ایک دوست کے کہنے پر اسلام آباد آنا اور یہاں نئے سرے سے جاب کے لیے اپلائے کرنا، سیلیکٹ ہو جانا اور پھر آگے بڑھتے جانا۔ ہر ادارے ہر تنظیم میں ایسے ایسے ہیرے لوگ ملے کہ زندگی گلزار ہی رہی۔ میرے باسز نے گویا میرا ہاتھ تھام کر مجھے آگے بڑھنے اور سکھانے کی ٹھان رکھی ہو اور میرے کولیگز نے جیسے تہیہ کر رکھا تھا کہ جو مجھے نہیں آتا اور انہیں آتا ہے وہ مجھے بھی سکھا کر رہیں گے اور ہر حال میں کامیاب کر کے رہیں گے۔ اور کیسے ہوتے ہیں خوش قسمت لوگ۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ملنے ملانے والے لوگوں میں بھی ہیرے موتیوں جیسے لوگوں سے نوازے اسے شریکِ حیات کی صورت میں جنت کا کیسا سکون اور کیسی راحت عطا ہوئی ہو گی۔ میری زوجہ میری شریکِ حیات، نہ صرف میری زندگی بلکہ میری روح کے سکون کا بھی باعث ہے۔ اِن کے بغیر شاید زندگی کا یہ احساس ممکن ہی نہ ہوتا شاید ان کی موجودگی ہی اللہ کی ان تمام نعمتوں اور کرم کا، زندگی جیسی نعمت کا اور ربِ کائنات کی جانب سے بے پناہ نوازے جانے کا احساس دلاتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے شاید ہم ایک دوسرے ہی کے لیے بنائے گئے تھے اور دونوں مل کر اب ایک وجود رکھتے ہیں۔ نہ کچھ کہنے کی ضرورت، نہ کچھ سنانے کی ضرورت گویا ایک دوسرے کے احساسات کو پڑھ لینے کی قدرت دے رکھی ہو رب نے۔ بچوں کی تربیت کیسے ہوئی کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ بچے اتنے بڑے کیسے ہو گئے، اتنے فرمانبردار، صابر، شاکر، ذہین میرے اللہ جی اپنی اس ایک حقیر تخلیق پر اتنا کرم، اتنا رحم، اتنی عطا۔
بچے تو میرے جیسے کسی نیکی کے صلے کی طرح ملے مجھے، نعمت ہی نعمت، رحمت ہی رحمت، راحت ہی راحت۔
صابر اتنے کے جب تک کچھ لا کر نہ دے سکو کوئی مطالبہ نہیں۔ اور اگر کبھی دل چاہ رہا ہو تو پوچھیں گے پہلے کہ بابا آپ کے پاس پیسے ہیں، سیلیری ملی ہے آپ کو، کوئی پےمنٹ آئی ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ میرے بچوں کو کچھ چاہیئے۔ کبھی کھانے میں کوئی نخرہ نہیں کدو ہوں یا شلجم، کریلے ہوں یا ٹنڈے میرے بچوں نے کبھی کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچے اور یہاں تک کہ اگر کوئی پوچھے آپ کی فیورٹ ڈِش کیا ہے تو شاید میرا دل رکھنے کے لے ہی کوئی اپنی فیورٹ ڈِش کریلے بتائے گا تو کوئی شملہ مرچ کا سالن تو کوئی شلجم یا کدو کا سالن کیوں کہ حضورﷺ کو بھی پسند تھے۔ کبھی احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ بچے پالنا کبھی مشکل بھی ہوتا ہو گا۔ الحمد اللہ نماز روزے میں مجھ سے آگے یہاں تک کہ ماشاءاللہ سب سے چھوٹے اسید نے بھی اس سال صرف ایک روزہ چھوڑا وہ بھی سحری میں قے لگنے کی وجہ سے اور سارا رمضان پریشان رہا کہ ایک روزہ چھوٹ گیا حالانکہ بہت تسلیاں دیں کہ بیٹا ابھی آپ بہت چھوٹے ہو آپ پر روزے فرض نہیں اور آپ کچھ روزے ہی رکھ لو گرمی ہے ٹھنڈ والے دن روزے رکھنا لیکن مجال ہے خود سے الارم لگا کر رکھے بچوں نے کہ اگر بڑے نہ اٹھائیں تو خود اٹھ سکیں۔ روز رات کہہ کر سوتا ہے کہ بابا آپ مجھے صبح اٹھانا اور میرے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جانا پلیز۔ میں نے مسجد جا کر نماز پڑھنی ہے اور اتنی نمازوں کا ثواب ہوتا ہے مسجد میں پڑھنے سے۔ کل رات زبردستی عشاء کے وقت روکا کہ بہت تیز بارش ہے گھر میں پڑھ لو۔ الحمداللہ
دسترخوان لگانے اور اٹھانے کی ایک ایک مہینے کی باری لگا رکھی ہے آپس میں لڑائی جھگڑے سے بچنے کے لیے، اسی طرح بچوں کے لیے مخصوص کمپیوٹر کے استعمال کا بھی کیلینڈر ہے فی روز فی بچہ باری کے حساب سے
ایسے دیئے ہیں اللہ پاک نے مجھے بچے، میرے دل کا قرار، میرا سکون، میری زندگی کی رونق، الحمداللہ۔
لوگ کبھی کبھی میری بہت زیادہ پازیٹیویٹی کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن میں کیوں پازیٹو نہ رہوں، میں کیوں ہر ایک کے بارے میں مثبت نہ سوچوں۔
میں کیوں اتنے سارے بھرے ہوئے گلاس کو نظر انداز کر کے تھوڑے سے خالی حصے پر توجہ دوں۔ جب مجھے ملا ہی سب کچھ پازیٹو ہے تو میں زندگی میں نیگٹیویٹی کو جگہ کیوں دوں جب ربِ کریم نے اسے مجھ سے دور رکھا اور میری زندگی میں شامل ہونے ہی نہیں دیا تو میں کیوں خود سے لے کر آؤں۔ یہاں تک کہ مجھے تو سب سے بدنام وکیل اور پولیس والے بھی ایسے ملے کہ ان کے خلوص کی وجہ سے کبھی کسی وکیل اور پولیس والے کی برائی دل میں آتی ہی نہیں۔ ایسے پولیس والے ملے جنہوں نے لانڈھی کراچی کی مصروف ترین مارکیٹ میں فون چوری ہو جانے کے بعد اگلے دن فون کر کے کہا کہ بھائی آپ کا موبائل مل گیا ہے کسی وقت بھی آ کر لے جائیں بس آتے ہوئے سو روپے کی مٹھائی لیتے آنا (جی کراچی لانڈھی پولیس کی بات کر رہا ہوں) جی ایسے پولیس والے کہ جنہوں نے عید پر گھر آتے ہوئے ابو کی ساری جمع پونجی لوٹنے والے ڈاکوؤں کو پکڑنے کے بعد ان سے بہت ساری رقم بازیاب کرنے کے بعد کہا کہ ابھی ان پیسوں میں سے جتنے چاہیئں لے جائیں خرچے کے لیے باقی کل عدالت میں پیشی کے بعد لے لینا۔ اور اگلے دن جب ابو نے اپنی خوشی سے کچھ مٹھائی دینے کی بات کی تو کہا چلیں اتنا اصرار کرتے ہیں تو جس موبائل میں بیٹھ کر آپ گرفتار ڈاکوؤں کی پہچان کرنے گئے تھے اس میں پیٹرول ڈلوا دیں لیکن ہماری اصل مٹھائی یہی ہے کہ آپ اب ڈاکوؤں کے ساتھ مک مکا کروا کر انہیں چھڑوا نہ دینا۔ (جی یہ ہری پور پولیس کی بات کر رہا ہوں اور آپ بیتے واقعہ کی)۔ ایسے وکیل ملے جنہوں نے مجھ سے کئی گنا طاقتور، بااثر مخالف کے خلاف سیشن سے لے کر ہائی کورٹ تک تین عدالتوں میں کیس لڑے اور جب بھی میں نے فیس کا کہا تو یہی جواب ملا امجد بھائی آپ سے یہی فیس لیں گے کہ جب کبھی کمپیوٹر میں خرابی ہوئی یا انٹرنیٹ یا کسی سوفٹ وئیر سے متعلق مدد چاہیئے ہوئی تو آپ کو بغیر تکلف بلائیں گے تو آپ آجانا بس۔ (ایسے ہی ہوتے ہیں وکیل آپ لوگوں کو ملنے والے بھی؟)
مجھے لگتا ہے اللہ نے قرآن پاک میں مجھے ہی مخاطب کر کے کہا ہے "تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے"
اے میرے رب میں یہ ایک زندگی تو کیا ہزار زندگیاں بھی ملیں اور ہر لمحہ تیری عبادت میں گزرے تب بھی تیری کسی ایک نعمت کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ بس مجھے یہ پتہ ہے کہ تجھے اپنی اس تخلیق سے بہت پیار ہے اور تیری بہت عنایت ہے اور بے شک یہ تیرا ہی کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ورنہ میں کچھ بھی نہیں تیری نعمتوں، کرم اور عطا کے بغیر۔