میری عید الفطر 2017

لاریب مرزا

محفلین
زیک بھائی، آپ کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات۔ جیسے آپ بتا رہے ہیں کہ سائیکل نے قلابازی کھائی، اس سے زیادہ بھی لگ سکتی تھی۔
 
آپ کی اجازت سے میری روداد:

ہفتے کی شام بیگم نے پوچھا کہ عید کل ہے یا نہیں۔ فوراً گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ اتوار کو ہمارے ہاں عید ہے۔ بیگم نے سویّاں بنانی شروع کیں۔

عید کے دن صبح صبح اٹھے سائیکلنگ کا لباس تن کیا، سائیکلیں گاڑی کے پیچھے لادیں اور بیٹی کے ساتھ عریبیا ماؤنٹین روانہ ہوئے۔

وہاں پارکنگ پر پہنچ کر کچھ ناخوش ہوئے کہ فیس پانچ ڈالر ہو چکی ہے۔ خیر کیش لفافے میں بند کر کے باکس میں ڈالا اور سائیکلیں کار سے اتاریں۔

یہ پیوڈ ٹریل ہے اور پہاڑی علاقہ۔ آغاز میں دو جھیلیں ہیں۔ ان کے ساتھ سے سائیکلنگ کرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے۔

جہاں چڑھائی ہو وہاں اترائی بھی ہوتی ہے۔ ٹریل کافی بل کھاتا ہوا تھا لہذا احتیاط لازم تھی۔ میرا دھیان زیادہ بیٹی کی طرف تھا کہ اس کا ایسے ٹریل پر پہلا تجربہ تھا۔ پچھلے چند دن بارش اور طوفان رہا تھا۔ ٹریل پر درختوں سے ٹوٹی کئی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک نظر نہ آئی اور اس پر تیز رفتار سے گزرتے ہوئے سائیکل پر کنٹرول نہ رہا۔ سائیکل نے قلابازی کھائی اور پھر میں نیچے اور سائیکل اوپر تھی۔

بیٹی آواز سن کر رکی۔ اٹھا تو گھٹنے اور کہنی پر زخم تھا۔ فون جو کیس میں بند سائیکل کی ہینڈل بار پر تھا اس کی سکرین کریک ہو چکی تھی۔ سائیکل کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ منٹ سانس لینے کے بعد واپس کار تک جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر احساس ہوا کہ دایاں بازو کچھ درد کر رہا ہے کہ اسی پر گرنے کا بوجھ پڑا تھا۔

میری کار میں ہمیشہ فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے اس لئے فکر نہ تھی۔ لیکن ہم بیگم کی کار لے کر آئے تھے۔ خیر بیٹی نے اپنے فون پر قریبی ڈرگ سٹور ڈھونڈا اور وہاں پہنچ کر اس نے کچھ فرسٹ ایڈ سامان خریدا۔ میں نے اپنی مرہم پٹی کی اور پھر ہم نے مزید رائڈ کینسل کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار چند سال پہلے جب ایک رائڈ کے عین آدھ رستے میں گرا تھا اور پسلیوں میں چوٹ لگی تھی تو وہ 45 میل مکمل سائیکلنگ کر کے ہی دم لیا تھا۔ اس بار عید اور بیٹی کا لحاظ کیا۔

گھر پہنچ کر سویوں کا ناشتہ کیا۔ اس وقت تک یہ احساس بڑھ چکا تھا کہ بازو کی ہڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لہذا بیگم نے ارجنٹ کیئر ڈراپ کیا اور میں نے عید کی دوپہر ڈاکٹر کے ساتھ گزاری۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ داہنی کہنی کے پاس ہڈی ٹوٹی ہے۔ نرس نے پٹی اور سپلنٹ باندھا اور ساتھ سلنگ پہنایا کہ بازو کو باندھے رکھوں۔ ساتھ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کا کارڈ دیا کہ اسے دکھا دوں۔

گھر پہنچ کر صوفے پر براجمان ہو گیا اور باقی کا دن یونہی گزارا۔

شام کو سوچا کہ فون کا کیا کروں۔ سکرین بدلوانے کی بجائے نیا فون آرڈر کیا۔ اتوار کی شام کو آرڈر کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ نیا فون اگلے دن بارے بجے میرے گھر پہنچ جائے گا۔
بہت افسوس ہوا زیک۔اب اپ کی طبیعت کیسی ہے۔
 
شکریہ :)

جی ہاں میرے ساتھ تو یہی معاملہ ہے، دوسروں کا معلوم نہیں. یوں لگتا ہے سب رشتے وقتی ہوتے ہیں، ازدواجی رشتہ تاعمر ہوتا ہے.
بھائی حقیقی رشتے صرف تاحیات ساتھ دیتے ہیں۔ازدواجی رشتہ ہوتا تو تاعمر ہے پر اس کی پائیداری کی کوئی ضمانت نہیں۔
 
آخری تدوین:
اب جبکہ چھٹی گزار کر دفتر حاضر ہو چکا ہوں تو مختصراً اپنی روداد بھی لکھ دیتا ہوں۔
عید کے دن عید کی نماز کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔ پھر پوری فیملی کے ساتھ عید کے معمول کے مطابق میری دادی ساس اور ابو کی ممانی کی طرف گئے۔ دوپہر کا کھانا وہاں کھایا۔ شام مغرب سے پہلے گھر پہنچ گئے۔
مغرب کے بعد بہن اور بہنوئی بچوں کے ساتھ تشریف لائے۔ دن کا بقیہ وقت ان کے ساتھ گزرا۔ رات کے کھانے کے بعد ان کی واپسی ہوئی۔
اگلے دن صبح دوسری بہن کی طرف اٹک جانے کا پروگرام تھا۔ مگر ہم بھائیوں کے مشترکہ دوست اور محلہ دار کا ۹ سالہ بیٹا عید کے دن شام کو کرنٹ لگنے سے انتقال فرما گیا۔ تو صبح سے ان کے گھر ہی مختلف امور کی انجام دہی کے لیے موجود رہے۔ ظہر کے بعد جنازہ ہوا۔
وہاں سے گھر آ کر فوراً ہی اٹک کے لیے روانہ ہوئے۔ اور رات کے کھانے کے بعد اٹک سے واپسی ہوئی۔
میں اپنی فیملی کے ساتھ واپسی پر ہی سسرال اتر گیا۔ اور تیسرا دن سسرال میں ہی گزارا۔ اور رات کے کھانے کے بعد گھر واپس روانہ ہوئے۔
یوں عید کی تینوں چھٹیاں ہی مصروفیت میں گزریں۔
 
محلہ دار کا ۹ سالہ بیٹا عید کے دن شام کو کرنٹ لگنے سے انتقال فرما گیا۔ تو صبح سے ان کے گھر ہی مختلف امور کی انجام دہی کے لیے موجود رہے۔ ظہر کے بعد جنازہ ہوا۔
اللہ کریم مغفرت فرمائے اور مرحوم کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
 

عباس اعوان

محفلین
آپ کی اجازت سے میری روداد:

ہفتے کی شام بیگم نے پوچھا کہ عید کل ہے یا نہیں۔ فوراً گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ اتوار کو ہمارے ہاں عید ہے۔ بیگم نے سویّاں بنانی شروع کیں۔

عید کے دن صبح صبح اٹھے سائیکلنگ کا لباس تن کیا، سائیکلیں گاڑی کے پیچھے لادیں اور بیٹی کے ساتھ عریبیا ماؤنٹین روانہ ہوئے۔

وہاں پارکنگ پر پہنچ کر کچھ ناخوش ہوئے کہ فیس پانچ ڈالر ہو چکی ہے۔ خیر کیش لفافے میں بند کر کے باکس میں ڈالا اور سائیکلیں کار سے اتاریں۔

یہ پیوڈ ٹریل ہے اور پہاڑی علاقہ۔ آغاز میں دو جھیلیں ہیں۔ ان کے ساتھ سے سائیکلنگ کرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے۔

جہاں چڑھائی ہو وہاں اترائی بھی ہوتی ہے۔ ٹریل کافی بل کھاتا ہوا تھا لہذا احتیاط لازم تھی۔ میرا دھیان زیادہ بیٹی کی طرف تھا کہ اس کا ایسے ٹریل پر پہلا تجربہ تھا۔ پچھلے چند دن بارش اور طوفان رہا تھا۔ ٹریل پر درختوں سے ٹوٹی کئی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک نظر نہ آئی اور اس پر تیز رفتار سے گزرتے ہوئے سائیکل پر کنٹرول نہ رہا۔ سائیکل نے قلابازی کھائی اور پھر میں نیچے اور سائیکل اوپر تھی۔

بیٹی آواز سن کر رکی۔ اٹھا تو گھٹنے اور کہنی پر زخم تھا۔ فون جو کیس میں بند سائیکل کی ہینڈل بار پر تھا اس کی سکرین کریک ہو چکی تھی۔ سائیکل کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ منٹ سانس لینے کے بعد واپس کار تک جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر احساس ہوا کہ دایاں بازو کچھ درد کر رہا ہے کہ اسی پر گرنے کا بوجھ پڑا تھا۔

میری کار میں ہمیشہ فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے اس لئے فکر نہ تھی۔ لیکن ہم بیگم کی کار لے کر آئے تھے۔ خیر بیٹی نے اپنے فون پر قریبی ڈرگ سٹور ڈھونڈا اور وہاں پہنچ کر اس نے کچھ فرسٹ ایڈ سامان خریدا۔ میں نے اپنی مرہم پٹی کی اور پھر ہم نے مزید رائڈ کینسل کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار چند سال پہلے جب ایک رائڈ کے عین آدھ رستے میں گرا تھا اور پسلیوں میں چوٹ لگی تھی تو وہ 45 میل مکمل سائیکلنگ کر کے ہی دم لیا تھا۔ اس بار عید اور بیٹی کا لحاظ کیا۔

گھر پہنچ کر سویوں کا ناشتہ کیا۔ اس وقت تک یہ احساس بڑھ چکا تھا کہ بازو کی ہڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لہذا بیگم نے ارجنٹ کیئر ڈراپ کیا اور میں نے عید کی دوپہر ڈاکٹر کے ساتھ گزاری۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ داہنی کہنی کے پاس ہڈی ٹوٹی ہے۔ نرس نے پٹی اور سپلنٹ باندھا اور ساتھ سلنگ پہنایا کہ بازو کو باندھے رکھوں۔ ساتھ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کا کارڈ دیا کہ اسے دکھا دوں۔

گھر پہنچ کر صوفے پر براجمان ہو گیا اور باقی کا دن یونہی گزارا۔

شام کو سوچا کہ فون کا کیا کروں۔ سکرین بدلوانے کی بجائے نیا فون آرڈر کیا۔ اتوار کی شام کو آرڈر کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ نیا فون اگلے دن بارے بجے میرے گھر پہنچ جائے گا۔
گیٹ ویل سُون
 
آپ کی اجازت سے میری روداد:

ہفتے کی شام بیگم نے پوچھا کہ عید کل ہے یا نہیں۔ فوراً گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ اتوار کو ہمارے ہاں عید ہے۔ بیگم نے سویّاں بنانی شروع کیں۔

عید کے دن صبح صبح اٹھے سائیکلنگ کا لباس تن کیا، سائیکلیں گاڑی کے پیچھے لادیں اور بیٹی کے ساتھ عریبیا ماؤنٹین روانہ ہوئے۔

وہاں پارکنگ پر پہنچ کر کچھ ناخوش ہوئے کہ فیس پانچ ڈالر ہو چکی ہے۔ خیر کیش لفافے میں بند کر کے باکس میں ڈالا اور سائیکلیں کار سے اتاریں۔

یہ پیوڈ ٹریل ہے اور پہاڑی علاقہ۔ آغاز میں دو جھیلیں ہیں۔ ان کے ساتھ سے سائیکلنگ کرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے۔

جہاں چڑھائی ہو وہاں اترائی بھی ہوتی ہے۔ ٹریل کافی بل کھاتا ہوا تھا لہذا احتیاط لازم تھی۔ میرا دھیان زیادہ بیٹی کی طرف تھا کہ اس کا ایسے ٹریل پر پہلا تجربہ تھا۔ پچھلے چند دن بارش اور طوفان رہا تھا۔ ٹریل پر درختوں سے ٹوٹی کئی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک نظر نہ آئی اور اس پر تیز رفتار سے گزرتے ہوئے سائیکل پر کنٹرول نہ رہا۔ سائیکل نے قلابازی کھائی اور پھر میں نیچے اور سائیکل اوپر تھی۔

بیٹی آواز سن کر رکی۔ اٹھا تو گھٹنے اور کہنی پر زخم تھا۔ فون جو کیس میں بند سائیکل کی ہینڈل بار پر تھا اس کی سکرین کریک ہو چکی تھی۔ سائیکل کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ منٹ سانس لینے کے بعد واپس کار تک جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر احساس ہوا کہ دایاں بازو کچھ درد کر رہا ہے کہ اسی پر گرنے کا بوجھ پڑا تھا۔

میری کار میں ہمیشہ فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے اس لئے فکر نہ تھی۔ لیکن ہم بیگم کی کار لے کر آئے تھے۔ خیر بیٹی نے اپنے فون پر قریبی ڈرگ سٹور ڈھونڈا اور وہاں پہنچ کر اس نے کچھ فرسٹ ایڈ سامان خریدا۔ میں نے اپنی مرہم پٹی کی اور پھر ہم نے مزید رائڈ کینسل کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار چند سال پہلے جب ایک رائڈ کے عین آدھ رستے میں گرا تھا اور پسلیوں میں چوٹ لگی تھی تو وہ 45 میل مکمل سائیکلنگ کر کے ہی دم لیا تھا۔ اس بار عید اور بیٹی کا لحاظ کیا۔

گھر پہنچ کر سویوں کا ناشتہ کیا۔ اس وقت تک یہ احساس بڑھ چکا تھا کہ بازو کی ہڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لہذا بیگم نے ارجنٹ کیئر ڈراپ کیا اور میں نے عید کی دوپہر ڈاکٹر کے ساتھ گزاری۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ داہنی کہنی کے پاس ہڈی ٹوٹی ہے۔ نرس نے پٹی اور سپلنٹ باندھا اور ساتھ سلنگ پہنایا کہ بازو کو باندھے رکھوں۔ ساتھ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کا کارڈ دیا کہ اسے دکھا دوں۔

گھر پہنچ کر صوفے پر براجمان ہو گیا اور باقی کا دن یونہی گزارا۔

شام کو سوچا کہ فون کا کیا کروں۔ سکرین بدلوانے کی بجائے نیا فون آرڈر کیا۔ اتوار کی شام کو آرڈر کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ نیا فون اگلے دن بارے بجے میرے گھر پہنچ جائے گا۔
مابدولت برادرم زیک کو پیش آنے والے حادثے پر قلبی اظہارِ افسوس کرنے کے ساتھ ان کی جلداورمکمل صحتیابی کے لئے دعاگوہیں۔
 

زیک

مسافر
اللہ مشکلات آسان فرمائے

بہت افسوس ہوا زیک۔اب اپ کی طبیعت کیسی ہے۔

اللّٰہ صحت عطا فرمائے زیک۔ آمین۔


مابدولت برادرم زیک کو پیش آنے والے حادثے پر قلبی اظہارِ افسوس کرنے کے ساتھ ان کی جلداورمکمل صحتیابی کے لئے دعاگوہیں۔
بہت شکریہ آپ سب کا
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی اجازت سے میری روداد:

ہفتے کی شام بیگم نے پوچھا کہ عید کل ہے یا نہیں۔ فوراً گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ اتوار کو ہمارے ہاں عید ہے۔ بیگم نے سویّاں بنانی شروع کیں۔

عید کے دن صبح صبح اٹھے سائیکلنگ کا لباس تن کیا، سائیکلیں گاڑی کے پیچھے لادیں اور بیٹی کے ساتھ عریبیا ماؤنٹین روانہ ہوئے۔

وہاں پارکنگ پر پہنچ کر کچھ ناخوش ہوئے کہ فیس پانچ ڈالر ہو چکی ہے۔ خیر کیش لفافے میں بند کر کے باکس میں ڈالا اور سائیکلیں کار سے اتاریں۔

یہ پیوڈ ٹریل ہے اور پہاڑی علاقہ۔ آغاز میں دو جھیلیں ہیں۔ ان کے ساتھ سے سائیکلنگ کرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے۔

جہاں چڑھائی ہو وہاں اترائی بھی ہوتی ہے۔ ٹریل کافی بل کھاتا ہوا تھا لہذا احتیاط لازم تھی۔ میرا دھیان زیادہ بیٹی کی طرف تھا کہ اس کا ایسے ٹریل پر پہلا تجربہ تھا۔ پچھلے چند دن بارش اور طوفان رہا تھا۔ ٹریل پر درختوں سے ٹوٹی کئی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک نظر نہ آئی اور اس پر تیز رفتار سے گزرتے ہوئے سائیکل پر کنٹرول نہ رہا۔ سائیکل نے قلابازی کھائی اور پھر میں نیچے اور سائیکل اوپر تھی۔

بیٹی آواز سن کر رکی۔ اٹھا تو گھٹنے اور کہنی پر زخم تھا۔ فون جو کیس میں بند سائیکل کی ہینڈل بار پر تھا اس کی سکرین کریک ہو چکی تھی۔ سائیکل کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ منٹ سانس لینے کے بعد واپس کار تک جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر احساس ہوا کہ دایاں بازو کچھ درد کر رہا ہے کہ اسی پر گرنے کا بوجھ پڑا تھا۔

میری کار میں ہمیشہ فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے اس لئے فکر نہ تھی۔ لیکن ہم بیگم کی کار لے کر آئے تھے۔ خیر بیٹی نے اپنے فون پر قریبی ڈرگ سٹور ڈھونڈا اور وہاں پہنچ کر اس نے کچھ فرسٹ ایڈ سامان خریدا۔ میں نے اپنی مرہم پٹی کی اور پھر ہم نے مزید رائڈ کینسل کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار چند سال پہلے جب ایک رائڈ کے عین آدھ رستے میں گرا تھا اور پسلیوں میں چوٹ لگی تھی تو وہ 45 میل مکمل سائیکلنگ کر کے ہی دم لیا تھا۔ اس بار عید اور بیٹی کا لحاظ کیا۔

گھر پہنچ کر سویوں کا ناشتہ کیا۔ اس وقت تک یہ احساس بڑھ چکا تھا کہ بازو کی ہڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لہذا بیگم نے ارجنٹ کیئر ڈراپ کیا اور میں نے عید کی دوپہر ڈاکٹر کے ساتھ گزاری۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ داہنی کہنی کے پاس ہڈی ٹوٹی ہے۔ نرس نے پٹی اور سپلنٹ باندھا اور ساتھ سلنگ پہنایا کہ بازو کو باندھے رکھوں۔ ساتھ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کا کارڈ دیا کہ اسے دکھا دوں۔

گھر پہنچ کر صوفے پر براجمان ہو گیا اور باقی کا دن یونہی گزارا۔

شام کو سوچا کہ فون کا کیا کروں۔ سکرین بدلوانے کی بجائے نیا فون آرڈر کیا۔ اتوار کی شام کو آرڈر کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ نیا فون اگلے دن بارے بجے میرے گھر پہنچ جائے گا۔
افسوس ہوا آپ کی چوٹ کے بارے میں جان کر زیک، get well soon
 
Top