محمد وارث
لائبریرین
محترم اراکینِ محفل، آپکی خدمت میں اپنی ایک ابتدائے غزل گوئی کے زمانے کی، یعنی چار پانچ مہینے پرانی غزل پیش کر رہا ہوں۔
سرشاری کا زمانہ تھا، اور اس سرشاری میں یہ بھی بھول گیا کہ خلد آشیانی نجم الدولہ، دبیر الملک مرزا اسد اللہ خان غالب کی ہی زمین استعمال کر ڈالی، یہ سرشاری بعد میں شرمساری میں تو ضرور تبدیل ہوئی، بہرحال غزل حاضرِ خدمت ہے، امید ہے اپنی بیش قیمت آرا سے نوازیں گے۔
۔
سرشاری کا زمانہ تھا، اور اس سرشاری میں یہ بھی بھول گیا کہ خلد آشیانی نجم الدولہ، دبیر الملک مرزا اسد اللہ خان غالب کی ہی زمین استعمال کر ڈالی، یہ سرشاری بعد میں شرمساری میں تو ضرور تبدیل ہوئی، بہرحال غزل حاضرِ خدمت ہے، امید ہے اپنی بیش قیمت آرا سے نوازیں گے۔
رازِ معراجِ ظاہرا کیا ہے
شانِ احمد، مرے خدا کیا ہے
شانِ احمد، مرے خدا کیا ہے
راہِ عشقِ بتاں میں کب سوچا
ابتدا کیا تھی، انتہا کیا ہے
ابتدا کیا تھی، انتہا کیا ہے
جلوہ گر ہے جمالِ واحد ہی
ہم نہ جانیں کہ دوسرا کیا ہے
ہم نہ جانیں کہ دوسرا کیا ہے
بے خودیء وصال میں بُھولا
اُس سے یہ کہنا کہ رضا کیا ہے
اُس سے یہ کہنا کہ رضا کیا ہے
اِس ہنسی سے نہ دھوکہ دو ہم کو
حالِ دل اب تُو سچ بتا کیا ہے
حالِ دل اب تُو سچ بتا کیا ہے
وہ مقامِ بقا پہ ہیں فائز
جانتے ہیں جو کہ فنا کیا ہے
جانتے ہیں جو کہ فنا کیا ہے
سینہء دو جہاں نما میں اب
دردِ دل کے سوا رہا کیا ہے
دردِ دل کے سوا رہا کیا ہے
حورِ جنت کے آگے اے واعظ
نازنیں کون، دل رُبا کیا ہے
نازنیں کون، دل رُبا کیا ہے
بھوک پھیلی ہے چار سُو یا رب
کھیت میں کنزِ بے بہا کیا ہے
کھیت میں کنزِ بے بہا کیا ہے
جو اسد ہے غزل سرا ایسے
شرم پھر میرے غالِبا کیا ہے
شرم پھر میرے غالِبا کیا ہے
۔