میری رائے
وارث بھائی!!
آپ کی غزل کل دفتر میں بیٹھے ہوئے بھی دیکھی، سوچا رات گھر جا کر کوئی رائے دوں گا، لیکن رات دیر گئے گھر لوٹا تو کچھ ہمت جواب دے چکی تھی اور کچھ صبح دوبارہ مشقتِ روزگار پر بروقت جانے کا خوف۔۔۔ سو غزل رہتی رہ گئی۔
لیجئے آج کوشش کرتا ہوں،
کچھ دوست لکھتے ہیں کہ وہ غزل تنقید کے لئے پیش کر رہے ہیں،
کچھ دوست لکھتے ہیں کہ وہ غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہے ہیں،
آپ نے رائے چاہی ہے ۔ اور اگر صرف رائے درکار ہے تو ایک جملے میں بات ختم ہو سکتی ہے کہ بھائی
" غزل اچھی ہے" یا پھر واہ( ایک بار یا دو بار یا بہت طویل
لیکن اپنا مسلک تھوڑا مختلف ہے، سو آپ جانتے ہی ہیں
آپ کی غزل کے شعر ایک کے بعد ایک!!!
نہ دل کو ہے نہ جاں کو ہی قرار اب
جنوں ہو کے رہا اپنا شعار اب
--- اچھا شعر ہے،
نظر بدلی تو بدلے سارے منظر
ترا ہی جلوہ ہے اے میرے یار اب
پہلا مصرعہ اچھا ہے، دل کو لگتا ہے،لیکن بھیا! یہ جو دوسرا مصرعہ ہے، اس میں تخاطب ہے(صاف ظاہر ہے)، تو "ترا" ، "اے"، "میرے یار" یہ سارے لفظ مصرعہ کو خطابیہ بنا رہے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اتنے الفاظ کی ضرورت نہ تھی، سید آلِ احمد مرحوم ہمیشہ مجھے ڈانٹا کرتے تھے کہ اپنا مصرعہ بار بار دیکھا کرو، غور کرو، کون کون سے الفاظ نکالنے سے مفہوم پر اثر نہیں پڑتا، اگر ایسا ہو تو ان الفاظ کو نکال دو،
"اے" یا "میرے" میں سے ایک چیز نکال دیں اور غور کریں بات بن سکتی ہے، اور خاصی بہتر۔
کلی مرجھا گئی دل کی ترے بعد
بلا سے آئے گلشن میں بہار اب
--- پہلے مصرعہ کی بابت اعجاز بھائی کی رائے بالکل بجا ہے۔دوسرا مصرعہ اچھا ہے۔
پلائی ہے نظر سے مے جو تو نے
اترنے کا نہیں ساقی خمار اب
۔۔۔ معذرت کے ساتھ۔۔ اگر "پلائی ہے" کی جگہ "پلا دی ہے"۔۔---- ذرا کر دیکھئے گا!
کٹی مستانہ وار ایسے شبِ ہجر
رہا مجھ کو نہ تیرا انتظار اب
--- یہاں پہلے مصرعہ میں آپ نے تبدیلی کر ڈالی ہے، لیکن " کچھ ایسے" کا اپنا مزہ اور مطلب ہے، نظر ثانی کر ہی لیں۔
اسد وہ جانتا ہے سب حقیقت
بنے پھرتے ہو جو پرہیزگار اب
----استاد قمر جلالوی کی غزل کا مقطع ہے ، لیکن ٹھیک سے دھیان میں نہیں آ رہا
شاید تھوڑا اوپر نیچے کر جاؤں۔ مطلع اور مقطع دونوں لکھے دیتا ہوں
گلے لپٹے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی ! یہ گھٹا دو دن تو برسے
قمر تم کو ہمیں کچھ جانتے ہیں
نظر آتے ہو کیسے معتبر سے
ویسے آپ کی غزل، سیدھی بات بتاؤں، مجھے اچھی تو لگی لیکن بہت اچھی نہیں لگی۔