میری فکری تنہائی کا سدباب کیجیے۔۔۔

بہت اچھے نکات کی طرف اشارہ کیا ہے میرزا صاحب نے۔ اس کا علاج کیا ہو؟ کیا تنظیمی ڈھانچے سے اس مصیبت کا علاج کیا جاسکتا ہے؟ یہ لوگ جو مجبور ہو جانے کے بعد شور مچاتے ہیں، ان کی تعداد کتنی بھی ہو، اکثریت نہیں تصور کی جاتی۔

یہ تنظیم 'رہبر' ایک متبادل جماعت یا تنظیم نہیں ہے۔ بلکہ ایک تبدیلی لانے والی تنظیم ہے۔ جن احتجاجات کا تذکرہ میرزا صاحب نے کیا، ایسے احتجاجات کے لئے منظم کوشش کرنا ہی اس کا مقصد ہے۔ اس کا ہر ممبر، کسی بھی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت کاممبر ہو سکتا ہے۔ میں اس کا درج ذیل سادہ تنطیمی ڈھانچہ تجویز کرتا ہوں۔ آپ اپنی آراء سے نوازئے اور کم از کم ایک شہر میں لوگ اس کی ابتدا کریں۔

مقصد: باہمی اشتراک سے اپنے قوت بازو پر بھروسے اور اللہ پر ایمان کی مدد سے، بے لوث اتحاد کے لیے ایک تنظیم۔ جس کا مقصد آپس میں بھائی چارے کو فروغ دینا اور باہمی اتحاد سے کامیاب و کمیاب لوگوں کو لے کر مزید کامیاب بنانا، اور ان کامیاب لوگوں کی مدد سے ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر، جس کی حد ہو عالمگیر۔

طریقہ کار: واضح اور پر امن طریقہ سے اپنا پیغام منتخب نمائیندوں‌ تک لے جانا اور مناسب عمل نہ ہونے کی صورت میں منتخب نمائندوں کو آئیندہ انتخابات میں‌ ہٹا دینا، متحدہ رائے استعمال کرتے ہوئے ارباب اختیار کو یہ بتا دینا کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں ورنہ اس متحدہ رائے عامہ کے فیصلہ کا سامنا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔

وعدہ: ہر رکن یہ وعدہ کرے کہ،
1۔ وہ یہ مندرجات یاد رکھے گا۔
2۔ وہ کسی طور اس کلب کی نظریاتی تقسیم نہیں کرے گا۔
3۔ وہ اس تنظیم کو ایک سیاسی پارٹی میں بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
4۔ وہ اس تنظیم کو ایک مذہبی پارٹی میں بدلنے کی کوشش نہیں‌کرے گا۔
5۔ وہ اکثریت کے فیصلے کو قبول کرے گا۔
6۔ وہ مناسب رائے کا اظہار یک طرفہ طور پر کرے گا، لیکن دوسروں‌کو اس پر مجبور نہیں کرے گا۔ نہ ہی وہ اجلاس کا دانستہ بائیکاٹ‌کرے گا اور نہ ہی ووٹنگ کے نتائج پر احتجاج کرے گا۔
7۔ وہ اپنے کلب یا اوپری سطح کے کلب سے اجتماعی طور پر عاید کردہ ذمہ داریوں‌کو پورا کرے گا۔
8۔ ہر نکتہ کا فیصلہ ووٹنگ سے ہوگا۔ ایک نکتہ کوئی بھی دو یا دو سے زائید ممبر ووٹنگ کے لئے پیش کرسکتے ہیں۔ وہ اس آسول کی پابندی کرے گا۔
9۔ کسی ممبر کو کسی بھی ملکی قانون کے خلاف کاروائی کی یا کلب کے اکثریتی مذہب یا فرقے کے عقائد کے خلاف کاروائی کی ترغیب نہیں دے گا۔
10۔ ووٹنگ میں پاس شدہ نکات کو مکمل سپورٹ کرے گا۔
11۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ تمام قوانین آپس کی مشاورت سے تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن کوئی قانون قرآن کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ مثال:‌تمام اراکیں مل کر بھی شراب پینے کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔
12۔ وہ کسی بھی میٹنگ میں کسی بھی مذہبی ریچویل کا انعقاد کی ترغیب نہیں‌دے گا۔ ہر اجلاس کے انعقاد کے لئے ایسے وقت کا تعین کیا جائے گا جب کسی لازمی ریچویل کا وقت نہ ہو تا کہ اس تنظیم کو کسی قسم کا مذہبی لیبل نہ لگایا جائے اور ہر مذہب کے ارکان اس میں آزادی محسوس کریں۔ اجلاس سے پہلے یا بعد ارکان اپنے مذہبی ریچویل ادا کرسکتے ہیں۔ اس پر کوئی پابندی نہ لگائی جائے۔ یہ مقصد اس تنظیم کی ہمہ گیر اور عالمگیر سپورٹ‌کے لیے ضروری ہے۔

ارکان:
ہر شخص جس کے مناسب کردار کی گواہی دو دوسرے ممبر دے سکیں، ایک 'رہبر' کلب کا رکن بن سکتا ہے۔ ایک شخص کو ووٹ‌ دینے کے لئے 'رہبر' کلب کا 'مقصد اور طریقہ کار' زبانی یاد ہو۔ رکن بننے کے لئے ایک درخواست ہو جس میں، نام، پتہ، فون نمبر، سیل فون نمبر، کسی قسم کا شناختی کارڈ نمبر اور ماں‌باپ کا نام شامل ہو۔

معاوضہ: کلب کسی ممبر یا منتخب شدہ رکن کو کلب کے لئے کسی بھی خدمات کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے۔ لیکن باہر سے کروائے گئے کاموں، جیسے پرنٹنگ، یا اجتماعی کھانے کا فیصلہ آپس میں اجتماعی مشورے سے کیا جائے اور خرچہ فوراَ ادا کیا جائے۔

تعداد:
ایک کلب زیادہ سے زیادہ 100 افراد پر مشتمل ہو۔ اور کم از کم تین عدد منتخب شدہ انتظامی ارکان ہوں۔ صدر، سیکریٹری اور خزانچی۔ اس تعداد کو بڑھایا یا گھٹایا جاسکتا ہے، ضرورت کے تحت اور ممبران کی تعداد کے پیش نظر۔ ہر منتخب شدہ انتظامی رکن کم از کم 10 تقاریر، کم از کم 10 افراد کے سامنے کرچکا ہو۔ تاکہ اس کی لیڈر شپ کی صلاحیتیں واضح ہوں۔

تمام کام اس کے ممبران کریں۔ کسی کو ملازم نہ رکھا جائے۔ یہ عہدہ ایک سال کے لئے ہو اور ایک فرد اس کو زیادہ سے زیادہ دو مدتوں کے لئے رکھ سکے۔ ان دو مدتوں کے بعد نئے لوگوں کو انتظامی ارکان بننے کا موقع دیا جائے۔ سابقہ انتظامی رکن ایک مدت گذر جانے کے بعد دوبارہ اسی کلب کا انتخاب لڑ‌سکتا ہے۔ لیکن یہ پابندی کسی دوسرے اسی سطح‌کے یا اوپری سطح کے کلب کے انتخاب کے لئے نہیں ہے۔

ایک کلب میں اراکین کی تعداد کا انحصار ان کے میٹنگ کی جگہ پر موجود بیٹھنے کی تعداد سے ہے۔ اس میں آپس میں‌ ووٹنگ سے کمی یا بیشی کی جاسکتی ہے۔ لیکن تعداد کا طے ہونا ضروری ہے تاکہ ملنے کی مناسب جگہ کا انتظام ہوسکے۔

کوشش یہ کی جائے کہ ایک ہی کلب نہ ہو بلکہ جب کلب کے اراکین کی تعداد بڑھ جائے تو کلب کو دو یا زائید کلبوں میں تقسیم کردیا جائے۔ کسی کلب کی تقسیم کرتے وقت اس کو نصف تعداد میں تقسیم کیا جائے۔ اور اس نئے کلب کو موجودہ فنڈز کا ایک تہائی فوراَ ادا کردیا جائے۔ ایسا کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔

ملنے کے لئے کسی بھی پبلک بلڈنگ کا انتظام کیا جائے جہاں بنا کسی خرچے کے یا کم سے کم خرچے کے مناسب اجازت سے کم از کم مہینے میں‌ایک بار ملا جاسکے۔

ان کلبز کے درج ذیل لیولز ہوں۔
ملکی لیول کلب، ایک ملک میں‌صرف ایک۔ سال میں ایک یا زیادہ بار ضرور ملے
جو تمام صوبائی لیول کے منتخب اراکین یعنی صدر، سیکریٹری، اور خزانچی اور دیگ منتخب اراکین۔ اس کلب کا بھی صدر، سیکریٹری اور خزانچی ہوگا۔ جن کا انتخاب، ترجیحی بنیادوں پر سابقہ عہدیداران میں سے تجربہ کی بناء‌ پر کیاجائے۔ لیکن کسی بھی شخص کو یہ عہدہ اس کی قابلیت اور لیڈر شپ کی بنیاد پر دیا جاسکتا ہے۔ یہ مکمل پر ایک انتظامی عہدہ ہوگا جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ انتظامی اخراجات کے لئے، تمام کلبز اپنی آمدنی کا 30 فی صد اس اعلی ترین کلب کو ادا کریں۔ یہ رقم باہمی مشورہ سے بڑھائی جاسکتی ہے

صوبائی لیول کلب، ہر صوبہ میں ایک۔ سال میں ایک یا زیادہ بار ضرور ملے
تمام علاقائی یا شہری لیول کے منتخب اراکین یعنی صدر، سیکریٹری، اور خزانچی اور دیگ منتخب اراکین۔ اس کلب کا بھی صدر، سیکریٹری اور خزانچی ہوگا۔ جن کا انتخاب، ترجیحی بنیادوں پر سابقہ عہدیداران میں سے تجربہ کی بناء‌ پر کیاجائے۔ لیکن کسی بھی شخص کو یہ عہدہ اس کی قابلیت اور لیڈر شپ کی بنیاد پر دیا جاسکتا ہے۔ یہ مکمل پر ایک انتظامی عہدہ ہوگا جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ انتظامی اخراجات کے لئے، تمام علاقائی کلب کلبز اپنی آمدنی کا 30 فی صد اس صوبائی کلب کو ادا کریں۔ یہ رقم باہمی مشورہ سے بڑھائی جاسکتی ہے

علاقائی یا شہری لیول کلب، ہر بڑے شہر میں یا بڑے علاقے میں ایک سال میں ایک یا زیادہ بار ضرور ملے، یہ 50 سے 100 تک محلہ کلب پر مشتمل ہوں۔
تمام محلہ کلب کے منتخب اراکین یعنی صدر، سیکریٹری، اور خزانچی اور دیگ منتخب اراکین۔ اس کلب کا بھی صدر، سیکریٹری اور خزانچی ہوگا۔ جن کا انتخاب، ترجیحی بنیادوں پر سابقہ عہدیداران میں سے تجربہ کی بناء‌ پر کیاجائے۔ لیکن کسی بھی شخص کو یہ عہدہ اس کی قابلیت اور لیڈر شپ کی بنیاد پر دیا جاسکتا ہے۔ یہ مکمل پر ایک انتظامی عہدہ ہوگا جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ انتظامی اخراجات کے لئے، تمام محلہ کلبز اپنی آمدنی کا 10 فی صد اس اعلی ترین کلب کو ادا کریں۔ یہ رقم باہمی مشورہ سے بڑھائی جاسکتی ہے

محلہ کلب، ہر محلہ میں ایک، جیسے مساجد یا مندر یا چرچ ہوتے ہیں ۔ مہینے میں ایک یا زیادہ بار ضرور ملے
تمام اراکین ،اس کلب کا بھی صدر، سیکریٹری اور خزانچی ہوگا۔ جن کا انتخاب، ترجیحی بنیادوں پر سابقہ عہدیداران میں سے تجربہ کی بناء‌ پر کیاجائے۔ لیکن کسی بھی شخص کو یہ عہدہ اس کی قابلیت اور لیڈر شپ کی بنیاد پر دیا جاسکتا ہے۔ یہ مکمل پر ایک انتظامی عہدہ ہوگا جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ انتظامی اخراجات کے لئے، ہر ممبر آپس میں طے شدہ رقم کلب کو ادا کریں۔ یہ رقم باہمی مشورہ سے بڑھائی جاسکتی ہے۔

انتظامی امور
کلب کے انتظامی امور، زیاہ تر ڈاک ، میل ، ای میل، انٹرنیت یا طباعت و اشاعت کے خرچہ پر مشتمل ہوں گے۔ ہر خرچہ کا ریکارڈ رکھا جائے۔ اور سال میں ایک بار علاقائی یا شہری کلب کے مشترکہ اجلاس میں اس حساب کی سمری پیش کیا جائے۔ اسی طرح علاقائی یا شہری کلب اس حساب کی سمری صوبائی کلب کو پیش کریں اور سوبائی کلب ملکی کلب کو اپنا حساب کتاب پیش کریں۔ ملکی کلب اپنا حساب اس ہی اجلاس میں پیش کریں۔ تاکہ سب کی سپورٹ‌حاصل ہو۔

ایک عام میٹنگ۔
ایک کلب کی میٹنگ کا ایجنڈا کچھ اس طرح ہوگا۔
0۔ مل کر کھانا کھانا تاکہ دوستی اور بھائی چارہ بڑھے۔
1۔ میٹنگ کی ابتدا اور آپس میں یقین کرنا کہ صرف ارکان یا جن مہمانوں کی پہلے سے اجازت لے لی گئی ہے وہی اس میں‌شامل ہیں۔ مہمان اس لئے بلائے جائیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ اس تنظیم کی افادیت کیا ہے۔
2۔ نئے ارکان کی درخواستوں پر غور اور ان درخواستوں پر ووٹنگ اور ان کی منظوری۔
3۔ پہلے سے طے شدہ نکات پر غور، یہ نکات مہینے میں جمع کئے جائیں اور ان پر ووٹنگ۔ اور جن نکات کا ووٹنگ سے فیصلہ ہوگیا ہو اور ان پر کوئی ایکشن لینا ہو تو اس پر غور۔ اور جو ایکشن لیا جارہا ہے اس کے نتائج پر غور، یہاں‌طے ہوگا کہ معاملہ کو علاقائی، شہری، صوبائی یا ملکی سطح پر آگے بڑھادیا جائے۔ جو معاملے پہلے اگے بڑھائے گئے تھے ان پر غور اور ان کے نتائج کی رپورٹ۔
4۔ ارکان سے نئے نکات کی طلبی اور ان نکات پر ووٹنگ پر ضرورت کے مطابق غور۔
5۔ مفلس، بیمار یا فوت ہوجانے والے ارکان کے بارے میں سوال کی کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں۔ اور جن لوگوں کی مالی مدد کی جارہی ہو، اس میں کسی تبدیل کے بارے میں‌ غور۔
6۔ کسی شش ماہی، پکنک، کرکٹ یا ہاکی میچ یا کسی سوشل موقع کی پلاننگ۔ کسی تعلیمی وظیفہ اجراء ۔ یا امداد بامی کی ضرورت یا تجویز۔
5۔ ارکان کی 3 سے 5 منٹ‌کی 3 تقاریر، تاکہ آئندہ قیادت پیدا کی جاسکے۔

ایک مزید ذمہ داری:
اگر کوئی ممبر فوت ہوجائے اور اس کے لواحقین بہت غریب ہوں تو اس کے خاندان کے کم از کم ایک یا تمام بچوں کو کم از کم بارہویں یا گریجویٹ سطح تک کسی باقاعدہ یا گورنمنٹ‌کے اسکول میں تعلیم دلوانے کا خرچہ کلب ادا کرنے کی بہترین کوشش کرے۔ جس میں‌کتابوں، یونیففارم، اسکول کی فیس اور اگر ضروری ہو تو آنے جانے تک کا کرایہ بھی شامل ہو۔ تاکہ وہ گھرانہ اپنے کمانے والے کی غیر موجودگی میں ترقی کرے اور بدھالی کا شکار نہ ہوجائے۔

مزید مصروفیات۔
کلبز اپنی سطح پر ضروری یا سوشل سرگرمیوں کا اجراء کریں۔ جیسے کسی قسم کا کرکٹ ، ہاکی میچ، پکنک، یا کوئی بھی ایونٹ۔ کوئی بھی اپسی بھائی چارہ کی سرگرمی پر کوئی پابندی کوئی نہیں۔ لیکن، اپنا مطمع نظر ملحوظ رہے کہ ایسی باقاعدہ سرگرمی، جیسے اسکول، سیاسی جماعت، کاروبار اس تنظیم میں سے نہ شروع کیا جائے۔ تاکہ حکومت میں‌پرامن تبدیلی۔ فلاحی اور رفاہ عامہ کے کاموں پر درست فوکس اور انتظامی خرابیوں کی رائے عامہ کی مدد سے درستگی کی جائے اور مثبت تبدیلی لائے جائے۔

اب انتظار ہے کہ پہلا ملکی سطح کا کلب کہاں تشکیل ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ باہمی مشورے اور باہمی اتحاد پر بننے والی یہ تنظیم آپس میں مل جل کر اس بنیادی ڈھانچہ کو ایک مزید مظبوط ڈھانچہ میں تبدیل کردے گی۔

باہمی اشتراک سے اپنے قوت بازو پر بھروسے اور اللہ پر ایمان کی مدد سے، بے لوث اتحاد کے لیے ایک تنظیم۔ ( ایمان، اتحاد، تنظیم کے معنی)

والسلام۔
 
آپ نے بہت اچھا آڈیا دیا ہے مگر میرے خیال میں یہ ہمارے معاشرے میں اتنا موثر
نہیں ہوگا اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ کا تجویز کردہ "اطلاعی نظام" چلے گا بلکہ ۔۔۔

موجودہ نطام کا حصہ بن کر اس کو تقویت نہ پہنچائی جائے بلکہ باہر رہ کر اس نظام کو بدلا جائے اور اس کے رائج قانون کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔
ً
آپ کے تائیدی خیالات اور تجاویز بہت اچھی ہیں۔ جن مسئلوں کی طرف آپ نے نشاندہی کی ہے، وہ بہت اہم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سب سے اہم طاقت ہے عوام کی رائے کی۔ جہاں بدنصیبی یہ ہے کہ ایک معمولی تعداد پڑھے لکھے افراد کی ہے۔ وہاں خوش نصیبی یہ ہے کہ یہ تھوڑے سے پڑھے لکھے لوگ بہت بڑا فرق پیدا کرسکتے ہیں۔ ہمیں‌ضرورت ایک انقلاب کی نہیں ہے بلکہ ایک متواتر انقلاب کی ہے۔ ایسا انقلاب جو جاری ہو اور معاشرے میں اچھی تبدیلیاں لاتا رہے۔

اگر رائے عامہ کے لئے ایک اتحاد ہو اور اکثریت کی رائےکو اگے بڑھایا جائے تو کوئی بھی مثال لے لیجئے یہ کام کرے گا۔ فرض‌کیجئے کہ علاقہ کا تھانیدار نہیں سنتا، اسکا ایس پی سنے گا، ورنہ معاملہ اٹھایا ہی ایسی سطح پر جائے گا جو موثر ہو۔ یہ نگہبانی، پاسبانی اور پہرے داری کسی تنظیم کے بناء‌تو ناممکن ہے۔ دباؤ ڈالنا ہو یا اتفاق کرنا ہو۔ دونوں صورتوں میں یہ رائے مسلسل عوام کی رائے سے آنی چاہئیے۔ اخبار میں چھپنے سے جو اطلاع ملتی ہے اس میں کچھ فرق ہے۔ جب 10 لاکھ لوگ یا 50 لاکھ لوگ ایک ساتھ کوئی مطالبہ کرتے ہیں اور یہ بھی ویریفائی کیا جاسکے کہ یہ مطالبہ سچ مچ اتنے ہی لوگوں کا ہے تو ناممکن ہے کہ منتخب نمائیندے اس کا اثر نہ لیں۔ مقصد سرف مخالفت ہی نہیں بلکہ مناسب موافقت بھی ہے۔

اگر آج ہمارے منتخب شدہ نمائندے کو پتہ ہو کہ اس کی کسی عمل کا اثر، اس کے سیاسی کیریر پر، اس کے خاندان کے کاروبار پر۔ اور اس کی اولاد کے مستقبل پر مثبت ہوگا تو وہ ضرور وہ کام کرے گا جس کا مطالبہ عوام نے کیا ہو، ایک منظم اور مؤثر طریقے سے۔ اور اگر اس کو پتہ ہو کہ اس کے عمل کا اثر منفی ہوگا۔ اس سے اس کی اولاد سے کوئی کاروبار نہیں کرے گا۔ وہ آئیندہ منٹخب ‌نہیں ہوگا، اس کی ساکھ اس قدر گر جائے گی کہ جہان جائے گا لوگ زمیں پر تھوک رہے ہوں گے ( محاورۃَ) تو وہ یقیناَ‌ ایسے کام سے دور رہے گا۔ ایسی سیاسی خود کشی کوئی ذی ہوشخص نہیں کرسکتا۔ ایسے ارباب اختیار ہی وہ دباؤ پیدا کرسکتے ہیں جو کسی سرکاری کارندے جیسے آئی جی، ایس پی یا مزید کسی بھی ادارے کے سربراہ کے لئے نیا اور بہتر پیمانہ کارکردگی مقرر کرے۔

ایسا ہونا کسی مناسب اور یقینی عوامی دباؤ‌کے بناء ناممکن ہے۔ اور یقینی عوامی دباؤ کا ایک ہی ممکنہ طریقہ ہے، وہ ہے ایک مناسب اور وسیع تنظیم۔

آپ کا یہ خیال بہت اچھا ہے۔ میں‌نے اس میں صرف دند الفاظا اضافہ کیا ہے۔ کہ یہ انقلاب جاری رہے اور ہمارے معاشرے کی، ہمارے قوانین کی تطہیر کرتا رہے۔ ہم ایک بار ایسا انقلاب لا کر ٹھنڈے ہو کر نہیں بیٹھ سکتے۔ موجودہ ایڈمنسٹریشن میں ہم کوئی بھی اضافہ کریں، ان کا پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ہمیں اس نظام کو تباہ کئے بغیر، اس نظام میں ایسے عوامل کا اضافہ کرنا ہے جو اس نظام میں مثبت تبیلیاں لائے۔ توڑ پھوڑ نہیں بلکہ ایسی مثبت تبدیلیان جو ہم سب کا مقصد ہے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں پھولیں اور پھلیں۔

موجودہ نطام کا حصہ بن کر اس کو تقویت نہ پہنچائی جائے بلکہ باہر رہ کر اس نظام کو بدلا جائے اور اس کے رائج "نا مناسب" قانون، " اور نامناسب معاشرتی طریقوں" کو "بتدریج" جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔ "ایک جاری انقلاب کی مدد سے، جس میں تمام وہ لوگ جن کی موجودگی سے کوئی فرق پڑتا ہے شامل ہوں"

یہ تھا میرا خیال آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر آپ کے پاس یا کسی اور بھائی کے پاس زیادہ بہتر تجویز ہے تو ضرور پیش کیجئے، کہ یہ تو ہماری فوری ضرورت ہے۔
 
بہت خوب فاروق سرور صاحب! ماشاء اللہ ایسا لگتا ہے کہ آپ بہت پہلے سے یہ سب کچھ سوچ کر بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔ :) میں ابھی ایک نکتہ پر کچھ لکھنے کا سوچتا ہوں، اور آپ مزید کئی نکات کے ڈھیر لگادیتے ہیں۔ بہت خوب!
صدارتی انتخابات سے بہت دلگرفتہ ہوں۔ ذہنی طور پر اپ۔سیٹ ہوں۔ بد دلی سے ہے۔ کل تو ایک وقت یہ خیال بھی آیا کہ کچھ عرصہ کے لیے یہ نیٹ وغیرہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے آپ تک محدود ہوجاؤں لیکن یہ خیال زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکا۔ اب مزاج کچھ بہتر ہو تو اس موضوع پر مزید باتیں لکھتا ہوں۔
عمر میرزا! آپ نے بھی بہت اچھا تجزیہ کیا تھا۔ ویلڈن!
 
درست فرمایا آپ نےرہبر۔ اس پر کون نہیں سوچتا رہا ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہے جو صرف میرا نہیں، ساری قوم کا ہے۔ ہمارا کام آپس میں مل جل کر اس کاا یک مؤثر حل نکالنا ہے۔

ہر تنظیم میں اعزازات کا ایک سسٹم ہوتا ہے۔ جیسے ملٹری کا نشان حیدر یا پاکستان کا نشان امتیاز۔ میں تجویز کرتا ہوں، اپ لوگ اس پر ووٹنگ کرلیں،

یہ تمام اعزازت غیر سیاسی ہوں گے۔

اسی طرح اس تنظیم کا بھی ایک اعزازی سسٹم ہوگا۔ وہ یہ کہ ہر ممبر کا ایک نمبر ہوگا۔ پہلا نمبر 10،000 دس ہزار سے شروع ہوگا۔ اور 1 سے 9999 نمبر اعزازات کے لئے مخصوص ہوں گے۔ یہ نمبر ایک ممبر کے اپنے نمبر کے علاوہ ہوں گے۔ اور ان کو ہر سال دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی سن 2007 کا اعزازی رکن نمبر 1000 ، ان کی ترتیب ایسے ہوگی۔

درج ذیل نمبر اعزاز کی انتہا ہوں گے، ان نمبر کے حامل کنندہ ارکان کے اعزاز میں ہر رکن پر لازم ہوگا، خواہ کسی درجہ کا ہو کہ، ایسے اعزاز کے حامل کنندہ کو کھڑے ہو کر سلام کیا جائے:
1000 سے 9999 تک اعزازی نمبر ان ارکان کو دیا جائے جو دو تنظیموں یا دو علاقوں‌کی تنظیموں کو آپس میں ملائیں گے۔
100 سے 999 تک اعزازی نمبر ان لوگوں کو دیا جائے گا جو دو ممالک کی تنطیموں کو آپس میں ملا کر ایک بنائیں گے۔
10 سے 99 تک اعزازی نمبر ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے دو ممالک میں ایک کرنسی، سفر اور رہنے سہنے کی آزادی کے لئے کار ہائے نمایاں انجام دیا ہوگا۔
2 سے 9 تک کا اعزازی نمبر ان لوگوں کو دیا جائے گا جو، دو مسلم ممالک کو ایک بنانے میں‌کار ہائے نمایاں انجام دیں گے۔
1 نمبر پہلی بار اس خوش نصیب شخص کو عطا کیا جائے گا جو تمام مسلم ممالک کو پہلی بار ایک واحد ملک کی شکل دے گا۔ اس کے بعد یہ نمبر ہر سال، اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے نمایاں کوشش انجام دینے پر دیا جائے گا۔ یہ نمبر صرف ایک شخص کے اپنی عہدے کی مدد پوری ہونے پر دیا جاسکتا ہے۔ نمبر ایک رکن کی عزت و احترام کا اعلی ترین رتبہ عطا کیا جائے گا۔ اور میری تجویز یہ ہے کہ چونکہ ہماری یہ روایت رہی ہے کہ پرچم کسی طور نہیں جھکایا جاتا۔ لیکن یہ ایسا کام ہے کے ہم ایسے شخص کو اپنا پرچم جھکا کر سلام کریں۔ لہذا میں‌یہ تجویز کرتا ہوں‌کہ اس اعزاز کے حامل افراد کے سامنے بطور اعزاز، احترام و عزت، عوامی تقریبات میں علاقائی، ریاستی یا ملکی پرچم جھکایا جائے۔ یہ بتانے کے لئے کہ متحد کرنے کی اس کاوش کے اعزاز میں ہم پرچم جھکا کر تم کو سلام کرتے ہیں۔ یہ اعزاز ہم لوگوں نے اس لئے رکھا ہے کہ اس اعلی ترین مقصد کو ہدف بنا کر ہم کام کر سکیں۔

والسلام۔
 
ابھی تک ہم نے جو اصول بنائے ہیں اس سے کچھ دوستوں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ شاید یہ صرف ایک سیاسی تنظیم ہی ہوگی جبکہ میرے خیال سے ہم عوامی فلاح و بہبود کو اولین ترجحیح دے رہے ہیں اور سیاست کے لیے اسی تنظیم کا ایک اور ونگ بنا سکتے ہیں جس سے وابستگی ہر رکن کے لیے لازم نہ ہوگی اور نہ ہی تمام اراکین کا سیاست پر اظہار خیال کرنا لازمی قرار پائے گا اگر میں کہیں غلطی کر رہا ہوں تو براہ کرم میری اصلاح کر دیجیے۔

بہت شکریہ۔ آپ میری خواہش تک ٹھیک پہنچے۔ ایک مکمل سیاسی ونگ بھی ہونا چاہئے، اگرچہ آغاز میں نہیں، لیکن مستقل میں اس کی ضرورت پڑے گی۔
 
فاروق سرور صاحب کے سوالات اور میرے جوابات

فاروق سرور صاحب نے کافی اہم سوالات اٹھائے تھے جن کا بظاہر براہ راست تعلق اس گفتگو سے نظر نہیں آتا لیکن حقیقتا یہ بہت مفید ہیں۔
1۔ کیا پاکستان کی اکثریت پرویز مشرف کے صدر رہنے کے خلاف ہے؟ یا یہ صرف ان لوگوں کا نعرہ ہے جن کی آواز بلند ہے؟
ہمیں‌پتہ کیسے چلے گا؟
پاکستانی قوم دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ ایک اونچا طبقہ، اور دوسرا نچلا طبقہ۔ نچلے طبقہ کی اکثریت پرویز مشرف کی مخالف ہے اور اس مخالفت کی وجہ بہت سادی سی ہے۔ عام آدمی کو نہ بھارت سے کچھ لینا ہے اور نہ امریکہ سے، اسے وزراء کے کارناموں اور کسی دوسری چیز سے غرض نہیں۔ اس کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ اسے بنیادی سہولیات با آسانی میسر ہوں اور اس دورِ حکومت نے مہنگائی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے جسے کوئی حقیقت پسند نہیں ٹھکرا سکتا، ہاں مگر سلمان شاہ جیسا بندہ۔
جسے نچلا طبقہ کہا جاتا ہے، اس کی اکثریت ہے، اور وہ اس وقت بہت متاثر ہوا ہے مہنگائی سے۔ اس لیے مخالف ہونا تو لازمی عنصر ہے۔ رہی بات یہ کہ ہمیں کیسے پتا چلے گا؟ اس کے لیے غیرجانبدارانہ سروے کیا جاسکتا ہے، راہ چلتے لوگوں کی رائے پوچھی جاسکتی ہے، بس میں سفر کے دوران اپنے ساتھی مسافروں سے گفتگو کرکے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
2۔ منتخب شدہ نمائیندوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ قوم کیا چاہتی ہے؟
ہمیں‌کیسے پتہ چلے گا کہ قوم کیا چاہتی ہے؟
منتخب نمائندے اگر واقعی قوم سے مخلص ہوں تو وہ اپنے اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطہ رکھیں گے ہمیشہ، یہ نہیں کہ صرف ووٹ مانگنے کے لیے شکل دیکھائی اور پھر غائب۔ ہمیں کیسے پتا چلے گا؟ اس کا جواب پہلے آگیا۔
3۔ کیا ہمارے نمائیندوں کو پتہ ہے کہ مشرف کو چننے کا فیصلہ قوم کا فیصلہ ہے؟ اگر یہ جرم ہے تو کیا وہ دوبارہ چنے جائیں گے یا قوم ان کو منتخب نہیں‌کرے گی؟
ہم کو اور ہمارے نمائیندوں کو یہ کیسے پتہ چلے گا؟
میری نظر میں تو مشرف کے چناؤ کو قوم کے سر ڈال دینا ان منتخب نمائندوں کی انتہائی غیر اخلاقی اور بھونڈی حرکت ہے جس پر مجھے شدید غصہ آیا۔ بلکہ میں ان نمائندوں کو قوم کا منتخب نمائندہ بھی تسلیم نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں انتخابات جتنے شفاف ہوتے ہیں، وہ ہم جانتے ہی ہیں، سبحان اللہ ماشاء اللہ۔
4۔ ہماری اعلی ترین عدالتوں‌کو کیسے پتہ چلے گا کہ قوم ان کے ساتھ ہے؟
اور ہم کو کیسے پتہ چلے گا کہ قوم اعلی ترین عدالتوں کے ججوں کے ساتھ ہے؟
بنیادی طور پر قوم کسی جج، کسی فوجی یا کسی سیاسی رہنما کے ساتھ نہیں۔ قوم صرف اس کے ساتھ ہے جو اس کی بھلائی کے لیے قدم اٹھائے، چاہے وہ منتخب نمائندہ ہو یا آمر۔
5۔ آپ کے علاقہ میں روز موبائیل فون چھینے جاتے ہیں۔ آپ کے ایس پی کن لوگوں کی شکائت کے بعد علاقہ سے ایسے چوروں‌کی بیخ‌کنی کرے گا؟
کیا وہ شکائت محلے کے مرغی فروش کی ہوگی؟ یا کسی قومی اسمبلی کے ممبر کے چچا جان کے لٹنے کے بعد پولیس حرکت میں آئے گی؟
یہاں دفتر میں کل ہی ایک صاحب نے مجھے ایک دو دن پہلے کا واقعہ سنایا۔ وہ یہ کہ، ایس۔ایچ۔او کی بہن کے گھر دن دیہاڑے ڈکیتی ہوگئی۔ ایس۔ایچ۔او کی بہن تھی اس لیے پولیس حرکت میں آئی اور مجرم گرفتار ہوگئے لیکن وائے قسمت! مجرمان کا تعلق دہشت گرد تنظیم (اور موجودہ حکومت کی اتحادی جماعت) ایم۔کیو۔ایم سے نکلا لہذا سیکٹر آفس سے حکم آگیا اور مجرمان چند گھنٹوں میں رہا ہوگئے۔ یہ ایک ایس۔ایچ۔او کی بے بسی ہے، اب اگر کوئی عام آدمی جائے گا تو اس کا کیا حال ہوگا؟
6۔ جو لوگ اسمبلیوں سے استعفی دے کر بھاگ گئے، کیا ان کو قوم نے استعفی دینے کے لئے اسمبلیوں میں بھیجا تھا؟
ان استعفی دینے والوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ ان کے ووٹرز اس بات کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟
یہ تو خیر ان کی اعلیٰ سیاسی بصیرت تھی۔ سمجھے تھے کہ بڑا کارنامہ انجام دیں گے۔ قوم کو نہ ان سے فائدہ ہوا جنہوں نے استعفے دیئے اور نہ ان سے کوئی فائدہ ہوا جنہوں نے استعفے نہیں دیئے۔

'ہمارا پورا نظام ' بنایا تھا انگریزوں نے جن کے نزدیک عوام کی حیثیت گدھے گھوڑوں سے زیادہ نہ تھی، بلکہ اس سے بھی کم تھی۔ کہ گدھے گھوڑوں کو ظلم سے بچانے کے لئے کوئی محکمہ تو ہے لیکن اگر وہی گدھا گاڑی ایک آدمی دھوپ میں کھینچ رہا ہو تو اس کو اس ظلم سے بچانے کے لئے کوئی محکمہ نہیں۔ ہماری یعنی عام آدمی کی رائے اوپر تک پہنچانے کی نہ ضرورت تھی اور نہ ہی اس کا کوئی نظام تھا اور نہ ہی ہے۔ تو نتیجہ اس کا کیا نکلا ہے؟ عام آدمی کے ساتھ گدھے گھوڑے جیسا سلوک۔
کیا آپ جانتے ہیں، آپ پر انتہا پسند اور قدامت پسند ہونے کا الزام بھی لگ سکتا ہے اس پیرا پر۔ ;)
 

محمد وارث

لائبریرین
1000 سے 9999 تک اعزازی نمبر ان ارکان کو دیا جائے جو دو تنظیموں یا دو علاقوں‌کی تنظیموں کو آپس میں ملائیں گے۔
100 سے 999 تک اعزازی نمبر ان لوگوں کو دیا جائے گا جو دو ممالک کی تنطیموں کو آپس میں ملا کر ایک بنائیں گے۔
10 سے 99 تک اعزازی نمبر ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے دو ممالک میں ایک کرنسی، سفر اور رہنے سہنے کی آزادی کے لئے کار ہائے نمایاں انجام دیا ہوگا۔ 2 سے 9 تک کا اعزازی نمبر ان لوگوں کو دیا جائے گا جو، دو مسلم ممالک کو ایک بنانے میں‌کار ہائے نمایاں انجام دیں گے۔ 1 نمبر پہلی بار اس خوش نصیب شخص کو عطا کیا جائے گا جو تمام مسلم ممالک کو پہلی بار ایک واحد ملک کی شکل دے گا۔

میں معذرت خواہ ہوں دخل در معقولات کیلیے، کہ اب تک خاموش قاری ہی تھا اس دھاگے کا لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔

میں نے آج تک یہی پڑھا ہے کہ جب کوئی ہدف یا گول مقرر کیا جائے تو وہ پریکٹیکل ہو, Realistic ہو، Measurable اور Achievable ہو، میری گزارش صرف اتنی سی ہے کہ جو اعزازات ؔآپ اپنی تنظیم کیلیے تجویز کر رہے ہیں وہ کسی کو دیئے بھی جائیں گے کبھی؟ خاص طور ۲ سے ۹ تک اور پھر نمبر ۱ کا۔ :eek: ہاں خواب دیکھنے پر کوئی پابندی کہیں بھی نہیں ہے۔

بہت سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نمبر ۱ والا جو کام آپ نے لکھا ہے وہ امام مہدی انجام دیں گے تو کیا :eek: بس آگے کیا لکھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیئے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیئے

۔
 
غزل

کوئی منزل نہ تھی، رہبر نہیں تھا
ٹھہر جانا مگر بہتر نہیں تھا

جہاں پہ دو گھڑی ہم سانس لیتے
سفر میں ایسا کوئی در نہیں تھا

مجھے بیچے تھے اس نے لاکھ سپنے
مگر وہ شخص سوداگر نہیں تھا

منافق تھی وہ سب بستی ہی عمار!
کہ جو اندر تھا وہ باہر نہیں تھا

(کئی سال پرانی غزل اچانک سامنے آئی تو سوچا یہاں لکھ کر یادگار کردوں ;)
 
بہت ہی اچھے خیالات پیش کئے آپ نے۔ آپ کا بہت ہی شکریہ۔ میں اس کو اپنی تنظیم نہیں کہوں گا۔ یہ بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ جو لوگ یہ تنظیم بنائیں‌گے یہ ان کی تنظیم ہوگی۔ کام ان کا ہوگا اور کارنامہ ان کا ہوگا۔ جس ہدف کا خواب ہے وہ کتنی دور ہے اس کا اندازہ آپ پہلے 10،000 ارکان کے خالی ہونے سے کر لیجئے۔ :) اس 10،000 مرحلوں یا قدموں کی طرف پہلا قدم کب اور کہاں اٹھتا ہے؟ اس کا انتظار ہے۔ :)

آپ بغور دیکھئے تو اب تک یہ بس ایک آدمی کی تجویز ہے لیکن بہت سے لوگ یہی مسائیل اور ان کے ایسے ہی ممکنہ حل پیش کرتے رہے ہیں۔ ایک تنظیم کے بناء‌اس کا مظلب یہ ہوتا ہے کی سنی سنی ان سنی ہوئی۔

اور ایک تنظیم میں ایک آدمی کے تجویز کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ میں‌سے دو یا دو سے زیادہ کو پسند آئے تو اس کو قرارداد بنا لیجئے اور اس پر ووٹنگ کرلیجئے۔ تاکہ جو اکثریت کی رائے ہو وہ معلوم ہو جائے اور اگر نہ پسند آئے تو اس تجویز میں تبدیلیاں کر لیجئے۔ اور اس پر ووٹنگ کر لیجئے۔ اور اکثریت کی رائے کو سب کی رائے بنا لیجئے۔ اس کا ریکارڈ‌ رکھ لیجئے۔

ایک مہذب اور تعلیم یافتہ جمہوری معاشرہ میں خاموش رہنا جرم ہے۔ آپ جہاں بہتری لانا چاہتے ہیں وہاں اپنی رائے دیجئے، یا دوسروں کی دی ہوئی رائے میں تبدیلی لائیے۔ بہتر بنائیے اور بہتر کو بہتر تر بنائیے۔ اور ووٹنگ کرکے اکثریت کی رائے سے اس کو فیصلے میں بدل دیجئے اور اکثریت کی رائے کو سب کی رائے تصور کیجئے۔ بس قرارداد کسی طور قرآن کے خلاف اور اکثریت کے عقیدے کے خلاف نہ ہو۔ یہ میں پہلے تجویز کر چکا ہوں۔

آپ دیکھئے کہ ایک تجویز یہ بھی شامل ہے کہ قرآن کے خلاف نہیں جایا جائے گا۔ اور کوئی بات اکثریت کے عقیدہ کے خلاف نہیں منظور کی جائے گی۔ کیا نمبر 1 کو عزت حاصل کرنے والا کسی طور کسی اور کی بے عزتی تصور کیا جائے گا؟ ہم اس رکن کو کسی طور مہدی یا کیس اور آنے والے کا درجہ نہیں دے رہے۔ لیکن جو خواب سب کا ہے اس کو ہدف بنا کر رکھ رہے ہیں۔

یہ ذہن میں رکھئے کہ ہر تجویز ہر خیال کو قراداد بنا کر آپ ووٹنگ کریں گے اور یہ عمل جوں جوں تظیم بڑھتی رہے گی جاری رہے گا۔ اس لئے کہ اکثریت کی رائے کا سب احترام کریں گے۔ جو تجویز مناسب نہ لگے اس کو تبدیل کیجئے اور بھر بحث کیجئے، ووٹنگ کیجئے اور منظور کیجئے۔

یہ ذہن میں‌رکھئے کہ طریقہ کار یہ ہو کہ جب بھی کسی تجویز پر کوئی نکات پیش کرے تو صرف اور صرف منتخب صدر کو مخاطب کرے۔ ارکان کا کام ہے تجویز کرنا، اس پر اپنے نکات صدر کو پیش کرنا، تجویز میں مناسب تبدیلی لانا اور پھر تجویز پر ووٹ دے کر اس کو اکثریت کی رائے بنا کر اس کا ریکارڈ رکھنا۔

والسلام۔
 
بہت شکریہ۔ آپ میری خواہش تک ٹھیک پہنچے۔ ایک مکمل سیاسی ونگ بھی ہونا چاہئے، اگرچہ آغاز میں نہیں، لیکن مستقل میں اس کی ضرورت پڑے گی۔
اگر آپ ایک تنظیم ملک گیر سظح پر استوار کرلیتے ہیں، جب بھی کوئی اس تنظیم کا رکن باہمی مشورے سے الیکشن لڑے گا۔ لازماَ‌ جیتے گا۔
 

ظفری

لائبریرین

میں معذرت خواہ ہوں دخل در معقولات کیلیے، کہ اب تک خاموش قاری ہی تھا اس دھاگے کا لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔

وارث بھائی ۔۔ بہت خوشی ہوئی کہ آپ اس طرف آئے تو سہی کہ میں کب سے آپ کی راہ دیکھ رہا تھا ۔ :)

میں نے آج تک یہی پڑھا ہے کہ جب کوئی ہدف یا گول مقرر کیا جائے تو وہ پریکٹیکل ہو, Realistic ہو، Measurable اور Achievable ہو، میری گزارش صرف اتنی سی ہے کہ جو اعزازات ؔآپ اپنی تنظیم کیلیے تجویز کر رہے ہیں وہ کسی کو دیئے بھی جائیں گے کبھی؟ خاص طور ۲ سے ۹ تک اور پھر نمبر ۱ کا۔ :eek: ہاں خواب دیکھنے پر کوئی پابندی کہیں بھی نہیں ہے۔

بہت سارے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ نمبر ۱ والا جو کام آپ نے لکھا ہے وہ امام مہدی انجام دیں گے تو کیا :eek: بس آگے کیا لکھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی بات حرف بہ حرف بلکل صحیح ہے اور اس لیئے میں نے بھی اب تک جو کچھ کہا یا لکھا ہے وہ صرف محفل کے ممبران کی شمولیت تک ہی محدود ہے ۔ درحقیقت یہ ایک خواب ہی ہے ۔اسی لیئے میں چاہتا ہوں کہ اسے اتنا ہی دیکھا جائے کہ صبح اٹھنے پر یہ یاد بھی رکھا جاسکے ۔ میری توجہ اس بات پر ہے کہ محفل کے ممبران جو اگر واقعی یہ سجھتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ اکٹھا ہوجائے اور مختلف دھاگوں پر جو مختلف موضوعات اور مسئلوں پر بحث و مباحثے کرتے رہتے ہیں ۔ کیوں نہ وہ سب اپنے اپنے خیالات ، آئیڈیاز اور تفکرات ایک منظم جماعت یا تنظیم بنا کرزیرِ بحث لائیں ۔ جماعت یا تنظیم بنانے کا خیال اس لیئے آیا کہ ہم جانے کب سے ان بحث و مباحثوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اور جانے کب تک الجھے رہیں گے ۔ آخر ہمیں اس کا تدارک سوچنا بھی ہے کہ نہیں ۔ یا پھر مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہوئے کسی ایک جگہ پر تھوڑی دیر بیٹھ جانے اور پھر کچھ دیر بعد وہاں سے اڑ جانے کو ترجیح دیتے رہیں گے ۔ محفل میں بہت سے ایسے ارکان ہیں جو واقعی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ملک کی حالت اب بدلنی چاہیئے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فاروق سرور یا محسن حجازی یہاں سے ابھی اٹھیں گے اور ملک میں کوئی انقلاب برپا کردیں گے ۔ توجہ صرف اس بات پر ہے کہ محفل پر جو صاحب ِ فکر ہیں وہ سب یہاں منظم ہو کر کچھ ایسی تجاویز دیں ، کچھ ایسے راستے کی نشان دہی کریں کہ جس پر عمل کرکے ہم اپنے اپنے حلقوں میں ملنے والے لوگوں کے شعور کو کچھ اس طرح محترک کریں کہ ان میں اس بات کی تحریک پیدا ہو کہ وہ صرف وقتی طور پر جذباتی ابال کے تحت ملک میں ُبروں اور ان کی پیدا کردہ برائیوں کی نشان دہی نہ کریں‌ بلکہ مستقل بنیادوں پراس پر ڈتے بھی رہیں ۔ سب سیاسی لیڈر جانتے ہیں کہ ہم چاہیں جو بھی کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ عوام کا غصہ اور ردعمل تو بس وقتی ہوتا ہے اور آج یہ سب شور مچا کر کل اپنی اپنی روٹین کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اور ویسے بھی کس کو یہ یاد ہے کہ نواز شریف نے کیا کیا تھا اور بینظیر کتنی محبِ وطن ہے اور اسی طرح پرویز مشرف کا لال مسجد کا معرکہ ہو یا وزیرستان میں جنگ یا اپنی من مانیوں کے قانون بھی کل اسی طرح دھندلا جائیں گے ۔

بس عوام کے اس رویے میں تبدیلی لانا ہی اس تنظیم کا نصب العین ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اب ایسا بھی خواب نہیں ہے کہ جس کو کوئی تعبیر نہیں دے سکے ۔ اگر اس خواب کو کوئی ایسی تعبیر مل گئی کہ اس بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر کوئی تنظیم مرتب کر دی گئی تو بہت ممکن ہے ۔ کہ اسی تنظیم کو کوئی ایسا رہبر مل ہی جائے جو شاید اسی کام کے لیئے تخلیق کیا گیا ہو ۔ یہ بات کون جانتا ہے کہ ایسا ممکن بھی ہو مگر ۔۔۔۔ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب ایسے ہی خوابوں کی تعبیر کی صورت میں سامنے آئے ہیں ۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے کے ذہنی افکار اور ادبی تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے تو جا بہ جا ایسا محسوس ہوگا کہ اگر ہم اس دور میں ابھی رہ رہے ہوتے تو اسے کسی دیوانے کا خواب کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔ ( اور شاید کتنوں نے ایسا کیا بھی ہوگا ) مگر وقت نے ثابت کیا کہ خواب دکھانے والے نے اپنے خواب کی تعبیر نہیں دیکھی مگر اس خواب پر یقین کرکے ایک " رہبر " نے اس خواب کو ایک تعبیر ضرور دے ڈالی ۔

پس یہ شروعات ہے ۔۔۔ جیسے علی گڑھ یونیورسٹی سے کچھ صاحبِ فکر نے کچھ سوچنا شروع کیا تھا ۔ اور پھر اس ایک معمولی سی مینٹنگ نے کیسے ایک مسلم لیگ کا روپ دھارا ۔ اور پھر یہ سلسلہ کیسے دراز ہوا ۔ تو انہی خطوط پر ہم بھی کیوں نہیں سوچ سکتے ۔ ہاں ایسا سوچنا ۔۔۔ کہ اس تنظیم کے قیام کے بعد ہم رات یہ سوچ کر سوئیں کہ کل صبح ہم اٹھیں گے تو پاکستان کی حالت بدل چکی ہوگی تو بلکل غیر دانشمندی ہوگی ۔ یہاں آپ کا پوسٹ کیا یہ شعر بلکل صادق آتا ہے کہ ۔ ;)

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیئے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیئے​
 

عمر میرزا

محفلین
ّعموما ھمارے ہاں یہی سمجھا جاتا ھے کہ سیاست سے مراد الیکشنوں میں حصہ لینا یا صرف اقتدار کا حصول ہے لوگوں میں پایا جانے والا یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ بد قسمتی سے ھمارے ملک میں شروع سے یہی ھوتا آیا ہے۔جبکہ اسلام مییں اسکا مفھوم مختلف اور کافی واضح ہے اسلامی فہم کے مطابق سیاست سے مراد ہے " لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا " یعنی ریاست کے لوگوں کو داخلی اور خارجی طور پر مستحکم رکھنا۔ بیررونی مداخلتوں یا شورشوں سے ان کی خفاظت کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اندرونی انتشار اور خرابیوں کا نہ پنپنے دینا اور عوام کے سماجی ،معاشی مسائل کو حل کرنا۔اس کے علاوہ وہ عناصر جو مفاد عامہ کے رستے میں رکاوٹ ہیں انیہں ہٹانا یا ان کے خلاف رائے عامہ ھموار کرنا۔

اور اگر آپ دیکھیں تو تبدیلی یا انقلاب کی راہ میں رکاوٹ بلاشبہ ہمارا حکمران طبقہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کے وسائل پر قابض ہے یہی وہ مفاد پرست ٹولہ ہے جو پاکستانی عوام کی پستی اور زوال میں اھم کردار ادا کر رہا ہے۔اب سیاست کیا ہے ان کو ہٹانا ،اچھے لوگوں کو اوپر لانا ،عوام کے موجودہ مسائل کے حل تلاش کرنا یسی تگ ودو کا نام سیاست ہے۔

اس لئے میرے حیال کے مطابق کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانےکےلئے ایک "سیاسی جماعت" کا ہونا ناگزیر ہے جو کہ صرف اور صرف سیاسی ہو ۔کیونکہ اگر وہ رفاہی یا سماجی کاموں میں الجھ گئی تو تو اپنے مقصد سے دور ہوتی جائے گی میں رفاہی کاموں کو غیر اھم نہیں سمجھ رھا انفرادی طور پر جماعت کے ارکان ضرور کریں لیکن اجتماعی لحاظ سے ان کی کوششیش صرف نطام کو بدلنے اور نئے نظام کی تیاری پر صرف ہونی چاہیں۔
والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی ۔۔ بہت خوشی ہوئی کہ آپ اس طرف آئے تو سہی کہ میں کب سے آپ کی راہ دیکھ رہا تھا ۔ :)



آپ کی بات حرف بہ حرف بلکل صحیح ہے اور اس لیئے میں نے بھی اب تک جو کچھ کہا یا لکھا ہے وہ صرف محفل کے ممبران کی شمولیت تک ہی محدود ہے ۔ درحقیقت یہ ایک خواب ہی ہے ۔اسی لیئے میں چاہتا ہوں کہ اسے اتنا ہی دیکھا جائے کہ صبح اٹھنے پر یہ یاد بھی رکھا جاسکے ۔ میری توجہ اس بات پر ہے کہ محفل کے ممبران جو اگر واقعی یہ سجھتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ اکٹھا ہوجائے اور مختلف دھاگوں پر جو مختلف موضوعات اور مسئلوں پر بحث و مباحثے کرتے رہتے ہیں ۔ کیوں نہ وہ سب اپنے اپنے خیالات ، آئیڈیاز اور تفکرات ایک منظم جماعت یا تنظیم بنا کرزیرِ بحث لائیں ۔ جماعت یا تنظیم بنانے کا خیال اس لیئے آیا کہ ہم جانے کب سے ان بحث و مباحثوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اور جانے کب تک الجھے رہیں گے ۔ آخر ہمیں اس کا تدارک سوچنا بھی ہے کہ نہیں ۔ یا پھر مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہوئے کسی ایک جگہ پر تھوڑی دیر بیٹھ جانے اور پھر کچھ دیر بعد وہاں سے اڑ جانے کو ترجیح دیتے رہیں گے ۔ محفل میں بہت سے ایسے ارکان ہیں جو واقعی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ملک کی حالت اب بدلنی چاہیئے ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فاروق سرور یا محسن حجازی یہاں سے ابھی اٹھیں گے اور ملک میں کوئی انقلاب برپا کردیں گے ۔ توجہ صرف اس بات پر ہے کہ محفل پر جو صاحب ِ فکر ہیں وہ سب یہاں منظم ہو کر کچھ ایسی تجاویز دیں ، کچھ ایسے راستے کی نشان دہی کریں کہ جس پر عمل کرکے ہم اپنے اپنے حلقوں میں ملنے والے لوگوں کے شعور کو کچھ اس طرح محترک کریں کہ ان میں اس بات کی تحریک پیدا ہو کہ وہ صرف وقتی طور پر جذباتی ابال کے تحت ملک میں ُبروں اور ان کی پیدا کردہ برائیوں کی نشان دہی نہ کریں‌ بلکہ مستقل بنیادوں پراس پر ڈتے بھی رہیں ۔ سب سیاسی لیڈر جانتے ہیں کہ ہم چاہیں جو بھی کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ عوام کا غصہ اور ردعمل تو بس وقتی ہوتا ہے اور آج یہ سب شور مچا کر کل اپنی اپنی روٹین کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اور ویسے بھی کس کو یہ یاد ہے کہ نواز شریف نے کیا کیا تھا اور بینظیر کتنی محبِ وطن ہے اور اسی طرح پرویز مشرف کا لال مسجد کا معرکہ ہو یا وزیرستان میں جنگ یا اپنی من مانیوں کے قانون بھی کل اسی طرح دھندلا جائیں گے ۔

بس عوام کے اس رویے میں تبدیلی لانا ہی اس تنظیم کا نصب العین ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اب ایسا بھی خواب نہیں ہے کہ جس کو کوئی تعبیر نہیں دے سکے ۔ اگر اس خواب کو کوئی ایسی تعبیر مل گئی کہ اس بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر کوئی تنظیم مرتب کر دی گئی تو بہت ممکن ہے ۔ کہ اسی تنظیم کو کوئی ایسا رہبر مل ہی جائے جو شاید اسی کام کے لیئے تخلیق کیا گیا ہو ۔ یہ بات کون جانتا ہے کہ ایسا ممکن بھی ہو مگر ۔۔۔۔ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب ایسے ہی خوابوں کی تعبیر کی صورت میں سامنے آئے ہیں ۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے کے ذہنی افکار اور ادبی تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے تو جا بہ جا ایسا محسوس ہوگا کہ اگر ہم اس دور میں ابھی رہ رہے ہوتے تو اسے کسی دیوانے کا خواب کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔ ( اور شاید کتنوں نے ایسا کیا بھی ہوگا ) مگر وقت نے ثابت کیا کہ خواب دکھانے والے نے اپنے خواب کی تعبیر نہیں دیکھی مگر اس خواب پر یقین کرکے ایک " رہبر " نے اس خواب کو ایک تعبیر ضرور دے ڈالی ۔

پس یہ شروعات ہے ۔۔۔ جیسے علی گڑھ یونیورسٹی سے کچھ صاحبِ فکر نے کچھ سوچنا شروع کیا تھا ۔ اور پھر اس ایک معمولی سی مینٹنگ نے کیسے ایک مسلم لیگ کا روپ دھارا ۔ اور پھر یہ سلسلہ کیسے دراز ہوا ۔ تو انہی خطوط پر ہم بھی کیوں نہیں سوچ سکتے ۔ ہاں ایسا سوچنا ۔۔۔ کہ اس تنظیم کے قیام کے بعد ہم رات یہ سوچ کر سوئیں کہ کل صبح ہم اٹھیں گے تو پاکستان کی حالت بدل چکی ہوگی تو بلکل غیر دانشمندی ہوگی ۔ یہاں آپ کا پوسٹ کیا یہ شعر بلکل صادق آتا ہے کہ ۔ ;)

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیئے

ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیئے​

شکریہ ظفری بھائی، میں پہلے دن سے ہی آپ کے ساتھ یہاں موجود ہوں لیکن بس عادت سے مجبور پچھلے بنچوں پر بیٹھا بغور سن رہا ہوں۔

ذہنی طور پر میں آپ کے ساتھ ہوں اور ایک ایسی تنظیم جس کا خاکہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے اسکے اغراض و مقصاصد کو نہ صرف قبول کر چکا ہوں بلکہ اس کی اہمیت بھی جانتا ہوں۔ مجھے آپ اپنے ساتھ ہی پائیے گا۔

جہاں تک خوابوں کا تعلق ہے تو وہ حقیقت بھی بن جاتے ہیں اور بکھر بھی جاتے ہیں، اچھے بھی ہوتے ہیں اور ڈراؤنے بھی، یاد بھی رہتے ہیں اور بھول بھی جاتے ہیں، بیان بھی کیے جا سکتے ہیں اور ناقابلِ بیان بھی ہوتے ہیں۔ بس یہی کچھ سوچ رہا ہوں کہ بجائے آخری ہدف پہ جمپ لگانے کے اور گم ہو جانے کے، کیوں نہ پہلے ہدف پر نظر رکھ کر اسے حاصل کیا جائے۔ کیوں نہ اس پہلے ہدف کو حاصل کیا جائے کہ اس تنظیم کے ایک سو اراکین کیسے بنائے جائیں۔


۔
 
صاحبو، تمام صاحبو بہت شکریہ۔ اس بات کو سننے کا اور غور کرنے کا۔ میں اگلے اقدام یہ تجویز کرتا ہوں۔ ( جب بھی تجویز کا لفظ دیکھئے، کان کھڑے کرلیجئے کہ اب آپ کی باری ہے، اس تجویز پر نظرثانی کی، اور آپس میں‌ووٹنگ کی )

1۔ کوئی صاحب اس دھاگہ کہ دوبارہ مکمل طور پڑھ کر تمام ممکنہ تفصیل ایک فائیل میں لکھ دیں۔
2۔ اور پھر اس فائیل کو سب لوگ نظر ثانی کریں تاکہ آپس کے مشورہ سے ایک اچھا سا اغراض‌و مقاصد، میٹنگ کا طریقہ کاراور ارکان کے لئے ایک درخواست بن سکے
3۔ جب یہ کام مکمل ہوجائے تو آپس میں اس پر (چاہے رسمی ہی سہی) ووٹ دیجئے اور اغراض و مقاصد، میٹنگ کا طریقہ کار اور ارکان کی درخواست منظور کرلیجئے۔
4۔ آپس میں‌طے کرلیجئے کہ لوگ کتنی رقم ماہانہ اس کے لوکل فنڈز میں دیں گے۔ یہ بھی اس فائیل میں ہو۔
5۔ سب لوگ یہ ڈاکومینٹ اپنے دوستوں کو بھیجیں۔ جو دوست اس کو پسند کریں وہ جوائن کرتے جائیں گے۔
6۔ اس کے لئے ارکان کے لئے کوئی صاحب ایک پرائیویٹ فورم سیٹ کردیں۔ تاکہ ارکان کا نام و پتہ صرف کچھ لوگ ہی جانیں۔

یہ ہوگی ابتدا۔

وارث صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ پہلا ہدف پر فوکس (ارتکاز) کرتے ہیں۔ باقی کے لئے اللہ کی مدد۔

میں ادب اور محبت سے میرزا صاحب کو یہ کہوں گا کہ سیاسی یا برائے سیاست تنظیمیں بہت ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی جوائن کیا جاسکتا ہے۔ اس تنظیم کی سیاسی قوت کا اندازہ آپ کو اس بات سے ہونا چاہئیے۔ کہ یہ تنظیم کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہوگی لیکن بڑے سے بڑے سیاستدان کو اپنے اتحاد کی مدد سے جو سب کے لئے بہتر ہو کرنے میں مدد کرے گی اور جہاں ممکن ہوگا وہاں روکے گی۔ میں انشاء اللہ آج رات کو ایک مزید مضمون لکھوں گا۔ جس میں یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ کس قسم کی تنظیم کی ضرورت ہے۔ آپ بھی اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔
آپ شروع سے ہی پڑھ رہے ہیں۔ اگر ایک سیاسی تنظیم آپ کے ذہن میں‌ہے جو موجودہ تنظیموں سے مختلف ہو تو ہمیں بھی بتائیے۔

والسلام
 
گفتگو کافی طویل ہوگئی ہے مگر بہت عمدہ طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تنظیم کے بنیادی دو تین نکات پر متفق ہو کر اس کی بنیاد رکھ دیں۔ میری تجویز ہے کہ تنظیم کی بنیاد دو تین نکات پر ہی ہونی چاہیے تاکہ اس کا ممبر بننے میں کسی کو ہچکچاہٹ نہ ہو۔ اس کے بعد اس کے کئی اور ونگز بنائے جا سکتے ہیں جو تنظیم کی شاخیں ہوں گی جیسے سیاسی ونگ جس سے وابستہ ہونا تنظیم کے ہر ممبر کے لیے ضروری نہ ہوگا بلکہ صرف وہ لوگ جو اس میں دلچسپی رکھیں وہ اس میں شامل ہوں گے اور ان کے خیالات سیاسی ونگ کو ہی متاثر کریں گے تنظیم کو بحیثیت مجموعی نہیں اور نہ ہی تنظیم کا کام ان کے خیالات سے براہ راست متاثر ہوگا۔ اسی طرح تعلیم کے حوالے سے ایک علیحدہ ونگ ہوسکتا ہے ، اسی طرح ادب و تحقیق کے حوالے سے ، اقلیتوں کی بہبود کے لیے ۔ غرض بنیادی نکات کے علاوہ اگر اور مقاصد شامل ہوں تو ان کے لیے علیحدہ ونگ بنتا جائے گا جو اس طرف اپنی توجہ مبذول کرے گا اور اس کے لیے شرائط اور قیود میں اضافہ کر دیا جائے گا مگر بنیادی تنظیم سادہ اور دو تین نکات پر ہی مشتمل رہے گی۔ اب تک کی مشاورت کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ عید کے بعد تنظیم کے نام اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔

اب تک متفقین میں فاتح ، ابو شامل ساجد اقبال اسی محفل سے ہیں
محفل کے علاوہ عمران حفیظ ، ذوالفقار شامل ہیں۔

تنظیم کے باضابطہ اعلان اور واضح منشور سے اس میں ممبران زیادہ تیزی اور لگن سے شامل ہوں گے۔
 

دوست

محفلین
اس کا منشور مکمل کریں میں اس کا پرنٹ آؤٹ نکلوا کر اپنی لائبریری پر دیتا ہوں۔ مجھے تو وہی ایک جگہ ایسی لگی ہے اپنے قریب جہاں کچھ صاحب فکر لوگ آتے ہیں۔ جن میں فیر کی ہویا والی بات نہیں ہے۔
وسلام
 

حسن علوی

محفلین
سرحد اسمبلی تحلیل کردی گئی

آج کی تازہ خبر:
صوبہ سرحد کے گورنر علی جان اورکزئی نےوزیراعلیٰ کے مشورے کے مطابق صوبائی اسمبلی تحلیل کردی ہے اور کہا ہے کہ بدھ کو ہی نگران وزیر اعلیٰ کے نام کا اعلان کردیا جائےگا۔
پاکستانی کی حالیہ سیاست میں ایک نیا موڑ۔
 
میرا خیال ہے کہ آپ پہلے یہ صفحات لکھ لیں اور آپس میں‌نظر ثانی کرلیں۔ اس کے بعد آپ اپنے دوستوں کو بتائیے، اور ان کو سمجھائیے اور شامل کیجئے۔
 
Top