سید عاطف علی
لائبریرین
کہتے ہیں "اے پکچر ورتھ تھاؤزینڈ ورڈس" لیکن یہ محض انگریز کہتے ہیں ۔ اردو یا ہر دوسری زبان بولنے والے والے اس کی جگہ نہ جانے کیا کہتے ہیں لیکن اس بظاہر مختصر سی بات میں بہر حال حقیقتوں کا ایک سمندر ہے جسے دیکھنے والے کی نظریں وہ گہرائی بخش سکتی ہے جو اس چنے منے انگریزی جملے کا "قرار واقعی" مدعا ہے ۔اس "حقیر" سےجملے سے ہماری واقفیت آج سے کوئی ربع صدی قبل اس وقت ہوئی جب ہماری شناسائی علم ہندسہ تعلیمات سے ہوئی۔ یہ انیس سو بیانوے ،ترانوے میں الیکٹرانک انجینئرنگ کا پہلا سال تھا جب ایک مضمون بنام "انجینئرنگ گرافکس" نے دیگر خشک مضامین کے ساتھ ہماری ضعیف ذہانت پر بوجھ بن کر نزول ِ ہیبت فرمایا ۔ اس گرافکس کو نوجوان اہلِ محفل آٹو کیڈ کورل ڈرا اور دیگر جدید نظاموں نہ سمجھیں کہ اس وقت ونڈوز اور جی یو آئی کی کمپوٹری فضا پاکستان میں ٹیکنا لوجی کی پیٹ میں سرعت کے ساتھ گیسٹیشن کے مراحل طے کر رہی تھی ۔یہ وہ وقت تھا کہ جب اکثر کمپیوٹروں کی سکرین پر مونو کروم ٹیکسٹ کے ساتھ سر سبز و شاداب کریکٹر جھلملاتے تھے اور کسی کمپیوٹر کے ساتھ اتفاقا ماؤس کا موجود ہونا ایک لگژری تھی ۔خیر یہ موضوع نہیں ۔ گرافکس کے معلم نے ہمیں ان ڈرائنگ کے اصولوں سے شناسائی کراتے وقت ہی کسی لمحے یہ انگریزی فقرہ کہا جو ہماری نوجوانی میں ذہن کی تازہ شیٹ پر ایسا نقش ہوا کہ گویا کبھی نہ اترنے کے لیے نصب ہو گیا ۔ آج متفرق تصاویر کا دھاگا شروع کرتے ہوئے یہ جملہ یاد آگیا ،سو تصویر کے فضائل کی مد میں شامل کر نا مناسب معلوم ہوا ۔
آج کے مجبور و محتاج انسان کی مصروفیتوں کی ماری زندگیوں مشرق ومغرب یا شمال و جنوب کے وسیع و عریض فاصلے بہت سمٹ چکے ہیں اس ماحول میں تصاویر کا جو کردار ہے وہ بھی مندجہ بالا فقرے کی گہرائی اور وسعت کا رہین ہے ۔ سو اس دھاگے میں مختلف مواقع کی تصاویر جمع کر نے کا ارادہ ہے۔تصاویر میں ہم ہوں یا نہ ہوں تصاویر بہر حال الا مذکورہ و ملاحَظَہ ہماری ہی ہیں ۔
آج کے مجبور و محتاج انسان کی مصروفیتوں کی ماری زندگیوں مشرق ومغرب یا شمال و جنوب کے وسیع و عریض فاصلے بہت سمٹ چکے ہیں اس ماحول میں تصاویر کا جو کردار ہے وہ بھی مندجہ بالا فقرے کی گہرائی اور وسعت کا رہین ہے ۔ سو اس دھاگے میں مختلف مواقع کی تصاویر جمع کر نے کا ارادہ ہے۔تصاویر میں ہم ہوں یا نہ ہوں تصاویر بہر حال الا مذکورہ و ملاحَظَہ ہماری ہی ہیں ۔