خورشیدآزاد
محفلین
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگردنیا کی منافق ترین قوموں کی درجہ بندی کی جائے تو پاکستانی قوم کا نمبر پہلا آئے گا اور آج اسی موضوع پربی بی سی اردو کے انورسِن رائے کی تحریر پڑھنے کو ملی،تو مجھے بے حد پسند آئی اور دل چاہتا ہے یہ تحریر ہر پاکستانی پڑھے اور اس پر غور کرے۔
انتہائی خوبصورت انداز میں انور صاحب نے ہماری منافقت پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میں القاعدہ اور طالبان کی مخالفت نہیں کر سکتا ہوں لیکن میں ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا اور میں اکیلا نہیں ہوں۔ میری طرح کے اور بہت سے ہیں۔ اتنے بہت سے کہ تمام تر احتیاط کے ساتھ ہمیں اکثریت کہا جا سکتا ہے۔"
اور آگے جاکر وہ ہماری کسی بھی قیمت پر "باہر جانے" کے جنون پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔ "بے شک امریکہ میں ہماری تلاشی سارے کپڑے اتروا کر لی جائے یا کوئی بھی اور سلوک یا برتاؤ کیا جائے، ہم نہ تو امریکہ اور ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں جانے کے خواب دیکھنا بند کر سکتے نہ ہی خود کو مسلمان سمجھنا اور کہنا چھوڑ سکتے ہیں۔"
ایک اور ہماری عام منافقت پر طنز ۔۔۔۔۔ "ہمیں شادیوں کے لیے مذہب بدلنا پسند نہیں لیکن اگر ہمارے بچوں کے لیے دوسرے مذہب بدلیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم اندر ہی اندر مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور شرمسار رہتے ہیں ایسی باتوں کو چھوت کی بیماری کی طرح چھپاتے پھرتے ہیں۔"
مندرجہ بالا اقتباسات بی بی سی اردو کے انور سِن رائے کے کالم "القاعدہ اور طالبان کی حمایت" سے لیے گئے ہیں۔
مکمل تحریر پڑھنے لیے یہاں کلک کریں
انتہائی خوبصورت انداز میں انور صاحب نے ہماری منافقت پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میں القاعدہ اور طالبان کی مخالفت نہیں کر سکتا ہوں لیکن میں ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا اور میں اکیلا نہیں ہوں۔ میری طرح کے اور بہت سے ہیں۔ اتنے بہت سے کہ تمام تر احتیاط کے ساتھ ہمیں اکثریت کہا جا سکتا ہے۔"
اور آگے جاکر وہ ہماری کسی بھی قیمت پر "باہر جانے" کے جنون پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔ "بے شک امریکہ میں ہماری تلاشی سارے کپڑے اتروا کر لی جائے یا کوئی بھی اور سلوک یا برتاؤ کیا جائے، ہم نہ تو امریکہ اور ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں جانے کے خواب دیکھنا بند کر سکتے نہ ہی خود کو مسلمان سمجھنا اور کہنا چھوڑ سکتے ہیں۔"
ایک اور ہماری عام منافقت پر طنز ۔۔۔۔۔ "ہمیں شادیوں کے لیے مذہب بدلنا پسند نہیں لیکن اگر ہمارے بچوں کے لیے دوسرے مذہب بدلیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم اندر ہی اندر مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور شرمسار رہتے ہیں ایسی باتوں کو چھوت کی بیماری کی طرح چھپاتے پھرتے ہیں۔"
مندرجہ بالا اقتباسات بی بی سی اردو کے انور سِن رائے کے کالم "القاعدہ اور طالبان کی حمایت" سے لیے گئے ہیں۔
مکمل تحریر پڑھنے لیے یہاں کلک کریں