میری نئی غزل اصلاح کے لئے پیشِ خدمت!

غزل​
(مزمل شیخ بسمل)
بن گئے عالم بھی عامل بھی نہیں کامل بنے​
لٹ گئی ہے اپنی ہستی جب کسی قابل بنے​
دورِرشوت ہے یہاںپر کس طرح عادل بنے​
حکمراں بیٹھے ہیں حالِ ملک سے غافل بنے​
سمجھے بھائی ہم جنھیں اب وہی تو قاتل بنے​
رونقِ گلشن ہے ہم سے اسلئے بسمل بنے​
عارضی حب کا کروں کیا جسمیں پنہاں بغض ہے​
ایسا تو مطلوب ہے جو زیست کا حاصل بنے​
اسکو دیکھا تو غشی طاری ہوئی کیا بات ہے​
روئے تاباں ہے تجلّی طور رخ کا تل بنے​
اسکی دھرتی میں ہر اک سامان تھا محفل نہ تھی​
ہم کو بھیجا ہے اسی مقصد سے یہ محفل بنے​
کیا بتاؤں تم کو منزل کا پتا اہلِ حیات​
کارواں انفاس کا لٹ جائے تو منزل بنے​
بے حجابی کے لئے کوئی حجاب اچھا نہیں​
چاہیے غیرت کہ جس سے ہر جگہ محمِل بنے​
مردِ مؤمن کا حوادث سے کہیں پھرتا ہے منہ​
ڈال دے کشتی جدھر طوفان میں ساحل بنے​
آب ہو توحید کا اخلاص کا صابن ملے​
تقوے کی صافی پھرے تو مثلِ شیشہ دل بنے​
آج صوفی کو تصوّف کو ضرورت بھی نہیں​
ہے عقیدت ان سے بھی آئینہ جن کا دل بنے​
سوچتا ہوں کیسے کیسے اہل تھے اشراق کے​
اب تو یہ چکر ہے گھر با صوفہ و ٹیبل بنے​
ڈاکٹر کہتا ہے چھوڑونگا نہیں آئے شکار​
ہے مریضِ نزلہ اب تودق بنے یا سل بنے​
اشرف المخلوق ہونے کی منائیں کیا خوشی​
زندگی کے دن ہمارے واسطے مشکل بنے​
بات سچی ہے برا بھی ماننا بیکار ہے​
ہاں مگر نادا ں کے حق میں بات یہ فل فل بنے​
محلرو چاسر مرامر رود خسرو اور خلیل​
پیر دھو دھو کر پئیے انکے تو جب کامل بنے​
خود بخود آزار بودی خود گرفتار آمدی​
موت کی دعوت جو دے وہ کسطرح عاقل بنے​
دور عادل کا اگر لوٹ آئے بسمل آج پھر​
ہر نظر حق آشنا ہو ہر نفس منزل بنے​
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اتنے بہت سے اشعار کی غزل وافر مشق سخن کا ثبوت ہے۔ بظاہر تو کوئی عروضی غلطی نظر نہیں آتی۔ بہر حال انتظار کریں۔ دوسرے اساتذہ کا بھی۔
 
شکریہ اعجاز صاحب۔ آپ اور محمد وارث پاس کردیں تو شاعری کے زمرے میں پوسٹ کروں۔ آپ دونوں کے اشاروں کا منتظر رہتا ھوں میں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سوچتا ہوں کیسے کیسے اہل تھے اشراق کے
اب تو یہ چکر ہے گھر با صوفہ و ٹیبل بنے
اس شعر کا قافیہ درست نہیں ہے میرے خیال میں یہ لفظ ٹیبَل ہے ٹیبِل نہیں۔
 
محمد وارث شاید آپ ٹھیک ہیں لیکن اردو لغات میں اسکا کوئی لہجہ لکھا ہوا نھیں ملتا۔ ہاں انگریزی میں دیکھیں تو فونیٹکس میں اسکا ساؤنڈ انکلائنڈ (inclined) ہے آکسفورڈ، کنسائز، میریم ویبسٹر، اور کالنز ڈکشنری کے مطابق جسکی کشش زیر کی طرف جاتی ہے ٹھیک اِسکول کی طرح۔ اس سوچ کے ساتھ میں نے یہ لکھا۔ بہر حال آپ تصحیح کردیں تو شککر گذار ہونگا۔
 
اعجاز صاحب شکریہ آپ کا بہت بہت۔ بہر حال،، ویسے اس غزل کے دو اشعار لکھتے وقت رہ گئے۔ اب دیکھا تو تدوین کا آپشن غائب
 

الف عین

لائبریرین
جو اشعار رہ گئے ہیں، وہ بعد میں پوسٹ کر دیتے۔
اس غزل میں۔۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی مخصوص فانٹ میں لکھ کر کاپی پیسٹ کیا گیا ہے۔ اس لئے نسخ میں دکھائی دے رہا ہے اور پڑھنے میں دقت ہوتی ہے اتنی لمبی غزل۔ ڈفالٹ فانٹ میں ہی رکھتے تو نستعلیق تھیم میں نستعلیق نظر آتا۔
دوسری بات یہ کہ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ کہیں کہیں ایسے مشکل الفاظ کا استعمال ہے جن کے ہم معنی الفاظ سامنے کے موجود ہیں۔ تفصیل سے کب اسے دیکھتا ہوں، کہہ نہیں سکتا۔ اسی لئے دوسروں کو بھی دعوت دی تھی یہاں
 
حضرت نشاندہی فرمائیں کن الفاظ میں احتیاط کی ضرورت ہے؟ آپ کا مشورہ مجھ جیسے اناڑی شاعر کے لئے بہت قیمتی ہوگا۔ میں اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری کو پوسٹ کرتے بہت ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہوں لیکن بہر حال آپ حضرات میں ہی رہ کر شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتا ہوں۔
 
اساتذہ سے اک سوال تھا:

بن گئے عالم بھی عامل بھی نہیں کامل بنے
لٹ گئی ہے اپنی ہستی جب کسی قا بل بنے
یہ مطلع میں میں نے جو قوافی رکھے ہیں اصطلاح میں انکا الف ’’تاسیس‘‘ کہلاتا ہے۔ کیا مطلع میں اس تاسیس کی پابندی کے بعد اگلے اشعار میں کیا ’’بسمل“ ’’محمل‘‘ وغیرہ لانا جائزہے؟
جواب کا منتظر۔
 
استادِ محترم مجھے بھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن کافی عرصہ پہلے اک کتاب میں کچھ اس طرح پڑھا تھا کہ مطلع میں تاسیس کے الف کی پابندی کے بعد آگے کے اشعار میں بھی پابندی ضروری ہے۔
یا پھر مطلع میں ہی اس پابندی کو ختم کیا جائے جیسے پہلا شعر "عادل" اور دوسرا "بسمل" کے قوافی سے ہو تو آگے بھی یہ پابندی ضروری نہیں اور اشعار درست ہوجائینگے۔ اس حوالے سے میری یہ اٹھارہ اشعار کی پوری غزل بیکار ہوجاتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
استادِ محترم مجھے بھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن کافی عرصہ پہلے اک کتاب میں کچھ اس طرح پڑھا تھا کہ مطلع میں تاسیس کے الف کی پابندی کے بعد آگے کے اشعار میں بھی پابندی ضروری ہے۔
یا پھر مطلع میں ہی اس پابندی کو ختم کیا جائے جیسے پہلا شعر "عادل" اور دوسرا "بسمل" کے قوافی سے ہو تو آگے بھی یہ پابندی ضروری نہیں اور اشعار درست ہوجائینگے۔ اس حوالے سے میری یہ اٹھارہ اشعار کی پوری غزل بیکار ہوجاتی ہے۔

اعجاز صاحب کی بات درست ہے، تاسیس کے الف کی پابندی واجب نہیں مستحسن ہے۔

بقول مولوی نجم الغنی، بحر الفصاحت جلد سوم علم قافیہ و ردیف

"قافیے میں تاسیس کی رعایت تمام ابیات میں واجب نہیں بلکہ مستحسن ہے اگر نہ ہو تو قباحت نہیں۔ عاقل کا دل اور کافر کا سر قافیہ بہت آتا ہے"
 
اعجاز صاحب کی بات درست ہے، تاسیس کے الف کی پابندی واجب نہیں مستحسن ہے۔

بقول مولوی نجم الغنی، بحر الفصاحت جلد سوم علم قافیہ و ردیف

"قافیے میں تاسیس کی رعایت تمام ابیات میں واجب نہیں بلکہ مستحسن ہے اگر نہ ہو تو قباحت نہیں۔ عاقل کا دل اور کافر کا سر قافیہ بہت آتا ہے"

بہت عمدہ وارث بھائی۔ در اصل میں یہی سوچ کر آدھا ہو رہا تھا۔ آپ نے پریشانی حل کردی۔
 
Top