الف عین
لائبریرین
تفصیلی تصحیح
بن گئے عالم بھی عامل بھی نہیں کامل بنے
لٹ گئی ہے اپنی ہستی جب کسی قابل بنے
//دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔ پہلے مصرع میں ’تو‘ کی کمی کھٹکتی ہے۔ لیکن مجھ سے بھی با وزن مصرع نہیں بن رہا۔
دورِ رشوت ہے یہاں پر کس طرح عادل بنے
حکمراں بیٹھے ہیں حالِ ملک سے غافل بنے
//دور ہے رشوت کا، کیسے پھر کوئی عادل بنے
کرنے سے کچھ واضح ہو سکتا ہے۔
سمجھے بھائی ہم جنھیں اب وہی تو قاتل بنے
رونقِ گلشن ہے ہم سے اسلئے بسمل بنے
//دونوں مصرعوں میں ربط؟ اسے دو لخت ہونا کہہ سکتے ہیں۔ پہلا مصرع خارج از بحر ہے، ’وہی‘ کی وجہ سے۔ یہ رواں بھی نہیں، اس طرح رواں ہو سکتا ہے
ہم جنھیں بھائی سمجھتے تھے، وہی قاتل بنے
عارضی حب کا کروں کیا جسمیں پنہاں بغض ہے
ایسا تو مطلوب ہے جو زیست کا حاصل بنے
//حب کا استعمال اچھا نہیں لگ رہا۔ اور وہ بھی عارضی ہو سکتا ہے یا پُر بغض۔ دونوں ایک ساتھ ہونے کی وجہ؟ اس طرح بہتر ہو سکتا ہے
ایسے حب کا میں کروں کیا جس میں پنہاں بغض ہو
پیار وہ مطلوب ہے جو زیست کا حاصل بنے
اسکو دیکھا تو غشی طاری ہوئی کیا بات ہے
روئے تاباں ہے تجلّی طور رخ کا تل بنے
//تجلی طور؟ کیا درمیان میں کاما ہے؟
اسکو دیکھیں تو غشی طاری ہو، تب کچھ بات ہو
روئے تاباں ہو تجلّی، طور رخ کا تل بنے
اسکی دھرتی میں ہر اک سامان تھا محفل نہ تھی
ہم کو بھیجا ہے اسی مقصد سے یہ محفل بنے
// اس کی محفل میں ہر اک سامان تھا رونق نہ تھی
ہم کو بھیجا ہے اسی مقصد سے، یہ محفل بنے
کیا بتاؤں تم کو منزل کا پتا اہلِ حیات
کارواں انفاس کا لٹ جائے تو منزل بنے
//مبہم شعر ہے، مطلب سمجھ میں آئے تو کچھ کہوں بھی!!
بے حجابی کے لئے کوئی حجاب اچھا نہیں
چاہیے غیرت کہ جس سے ہر جگہ محمِل بنے
//پہلا مصرع خوبصورت اور رواں ہے تو، مگر مراد کیا ہے؟
مردِ مؤمن کا حوادث سے کہیں پھرتا ہے منہ
ڈال دے کشتی جدھر طوفان میں ساحل بنے
//درست
آب ہو توحید کا اخلاص کا صابن ملے
تقوے کی صافی پھرے تو مثلِ شیشہ دل بنے
// آب ہو توحید کا، اخلاص کا صابن بھی ہو
تقوے کی صافی پھرے تو مثلِ شیشہ دل بنے
آج صوفی کو تصوّف کو ضرورت بھی نہیں
ہے عقیدت ان سے بھی آئینہ جن کا دل بنے
//شعر مبہم ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔
سوچتا ہوں کیسے کیسے اہل تھے اشراق کے
اب تو یہ چکر ہے گھر با صوفہ و ٹیبل بنے
//اشراق کے اہل؟ ویسے ٹیبل درست قافیہ تو ہے، لیکن انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھا نہیں کہ پوری غزل کی فضا عربی فارسی کی ہے۔
ڈاکٹر کہتا ہے چھوڑونگا نہیں آئے شکار
ہے مریضِ نزلہ اب تودق بنے یا سل بنے
//یہاں بھی ڈاکٹر ہی کہنے کی ضرورت؟ اسے بآسانی ’چارہ گر‘ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے مصرع میں روانی کی کمی ہے، اور ردیف درست فٹ نہیں ہوتا۔
چارہ گر کہتا ہے چھوڑونگا نہ میں بیمار کو
ہے مرض نزلہ، مگر اب دق بنے یا سل بنے
اشرف المخلوق ہونے کی منائیں کیا خوشی
زندگی کے دن ہمارے واسطے مشکل بنے
//یہ شعر بھی دو لخت ہے۔
بات سچی ہے برا بھی ماننا بیکار ہے
ہاں مگر نادا ں کے حق میں بات یہ فل فل بنے
//بات فل فل میں کیسے بدل سکتی ہے،
بات ہو حق کی تو کوئی کیوں برا مانے بھلا
ہاں مگر ناداں کے حق میں قند یہ فل فل بنے
محلرو چاسر مرامر رود خسرو اور خلیل
پیر دھو دھو کر پئیے انکے تو جب کامل بنے
//کون بنے؟ یہ واضح نہیں۔
خود بخود آزار بودی خود گرفتار آمدی
موت کی دعوت جو دے وہ کسطرح عاقل بنے
// درست
دور عادل کا اگر لوٹ آئے بسمل آج پھر
ہر نظر حق آشنا ہو ہر نفس منزل بنے
// کاشکے پھر لوٹ آئے عدل کا بسمل وہ دور
ہر نظر حق آشنا ہو ہر نفس منزل بنے
بن گئے عالم بھی عامل بھی نہیں کامل بنے
لٹ گئی ہے اپنی ہستی جب کسی قابل بنے
//دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔ پہلے مصرع میں ’تو‘ کی کمی کھٹکتی ہے۔ لیکن مجھ سے بھی با وزن مصرع نہیں بن رہا۔
دورِ رشوت ہے یہاں پر کس طرح عادل بنے
حکمراں بیٹھے ہیں حالِ ملک سے غافل بنے
//دور ہے رشوت کا، کیسے پھر کوئی عادل بنے
کرنے سے کچھ واضح ہو سکتا ہے۔
سمجھے بھائی ہم جنھیں اب وہی تو قاتل بنے
رونقِ گلشن ہے ہم سے اسلئے بسمل بنے
//دونوں مصرعوں میں ربط؟ اسے دو لخت ہونا کہہ سکتے ہیں۔ پہلا مصرع خارج از بحر ہے، ’وہی‘ کی وجہ سے۔ یہ رواں بھی نہیں، اس طرح رواں ہو سکتا ہے
ہم جنھیں بھائی سمجھتے تھے، وہی قاتل بنے
عارضی حب کا کروں کیا جسمیں پنہاں بغض ہے
ایسا تو مطلوب ہے جو زیست کا حاصل بنے
//حب کا استعمال اچھا نہیں لگ رہا۔ اور وہ بھی عارضی ہو سکتا ہے یا پُر بغض۔ دونوں ایک ساتھ ہونے کی وجہ؟ اس طرح بہتر ہو سکتا ہے
ایسے حب کا میں کروں کیا جس میں پنہاں بغض ہو
پیار وہ مطلوب ہے جو زیست کا حاصل بنے
اسکو دیکھا تو غشی طاری ہوئی کیا بات ہے
روئے تاباں ہے تجلّی طور رخ کا تل بنے
//تجلی طور؟ کیا درمیان میں کاما ہے؟
اسکو دیکھیں تو غشی طاری ہو، تب کچھ بات ہو
روئے تاباں ہو تجلّی، طور رخ کا تل بنے
اسکی دھرتی میں ہر اک سامان تھا محفل نہ تھی
ہم کو بھیجا ہے اسی مقصد سے یہ محفل بنے
// اس کی محفل میں ہر اک سامان تھا رونق نہ تھی
ہم کو بھیجا ہے اسی مقصد سے، یہ محفل بنے
کیا بتاؤں تم کو منزل کا پتا اہلِ حیات
کارواں انفاس کا لٹ جائے تو منزل بنے
//مبہم شعر ہے، مطلب سمجھ میں آئے تو کچھ کہوں بھی!!
بے حجابی کے لئے کوئی حجاب اچھا نہیں
چاہیے غیرت کہ جس سے ہر جگہ محمِل بنے
//پہلا مصرع خوبصورت اور رواں ہے تو، مگر مراد کیا ہے؟
مردِ مؤمن کا حوادث سے کہیں پھرتا ہے منہ
ڈال دے کشتی جدھر طوفان میں ساحل بنے
//درست
آب ہو توحید کا اخلاص کا صابن ملے
تقوے کی صافی پھرے تو مثلِ شیشہ دل بنے
// آب ہو توحید کا، اخلاص کا صابن بھی ہو
تقوے کی صافی پھرے تو مثلِ شیشہ دل بنے
آج صوفی کو تصوّف کو ضرورت بھی نہیں
ہے عقیدت ان سے بھی آئینہ جن کا دل بنے
//شعر مبہم ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔
سوچتا ہوں کیسے کیسے اہل تھے اشراق کے
اب تو یہ چکر ہے گھر با صوفہ و ٹیبل بنے
//اشراق کے اہل؟ ویسے ٹیبل درست قافیہ تو ہے، لیکن انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھا نہیں کہ پوری غزل کی فضا عربی فارسی کی ہے۔
ڈاکٹر کہتا ہے چھوڑونگا نہیں آئے شکار
ہے مریضِ نزلہ اب تودق بنے یا سل بنے
//یہاں بھی ڈاکٹر ہی کہنے کی ضرورت؟ اسے بآسانی ’چارہ گر‘ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے مصرع میں روانی کی کمی ہے، اور ردیف درست فٹ نہیں ہوتا۔
چارہ گر کہتا ہے چھوڑونگا نہ میں بیمار کو
ہے مرض نزلہ، مگر اب دق بنے یا سل بنے
اشرف المخلوق ہونے کی منائیں کیا خوشی
زندگی کے دن ہمارے واسطے مشکل بنے
//یہ شعر بھی دو لخت ہے۔
بات سچی ہے برا بھی ماننا بیکار ہے
ہاں مگر نادا ں کے حق میں بات یہ فل فل بنے
//بات فل فل میں کیسے بدل سکتی ہے،
بات ہو حق کی تو کوئی کیوں برا مانے بھلا
ہاں مگر ناداں کے حق میں قند یہ فل فل بنے
محلرو چاسر مرامر رود خسرو اور خلیل
پیر دھو دھو کر پئیے انکے تو جب کامل بنے
//کون بنے؟ یہ واضح نہیں۔
خود بخود آزار بودی خود گرفتار آمدی
موت کی دعوت جو دے وہ کسطرح عاقل بنے
// درست
دور عادل کا اگر لوٹ آئے بسمل آج پھر
ہر نظر حق آشنا ہو ہر نفس منزل بنے
// کاشکے پھر لوٹ آئے عدل کا بسمل وہ دور
ہر نظر حق آشنا ہو ہر نفس منزل بنے