طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلشؔ
میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی
اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی
کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں
اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی
باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے!
دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی
ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی!
کُو بہ کُو شہرتِ بَد پِھر سے آرزُو نے کی
شرم مانِع ہے کرُوں کیا، کہ ساتھ بیٹھے ہیں
دشمنی مجھ سے، مِرا دوست بن کے تُو نے کی
خوش کُن اُسلُوبِ سُخن میں ہماری تبدیلی
منفرد لہجے میں لکھنے کی جستجو نے کی
پھر بُلندی میں بہت دُور آگئے ہیں خلشؔ
ترکِ کوشش ہو کہاں آسماں کو چُھونے کی
شفیق خلشؔ
شفیق خلشؔ
میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی
اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی
کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں
اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی
باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے!
دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی
ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی!
کُو بہ کُو شہرتِ بَد پِھر سے آرزُو نے کی
شرم مانِع ہے کرُوں کیا، کہ ساتھ بیٹھے ہیں
دشمنی مجھ سے، مِرا دوست بن کے تُو نے کی
خوش کُن اُسلُوبِ سُخن میں ہماری تبدیلی
منفرد لہجے میں لکھنے کی جستجو نے کی
پھر بُلندی میں بہت دُور آگئے ہیں خلشؔ
ترکِ کوشش ہو کہاں آسماں کو چُھونے کی
شفیق خلشؔ