حسان خان
لائبریرین
آج بھی میرے دل میں دنیا کے تمام بانیانِ مذاہب کا بے حد احترام ہے۔ اور خصوصیت کے ساتھ قوت و حیات کے شاہکار، حضرت محمدِ عربی، حضرت علی اور حضرت حسین کا شیدائی، اور آبائی عقائد سے آزاد ہو جانے کے باوجود، میں ان متذکرہ بالا تینوں مقتدر ہستیوں کا دل سے پرستار ہوں۔
آنحضرت کے بارے میں اکثر، یہ سوچتا رہتا ہوں کہ عرب کی سی جہالت کی راجدھانی میں، اور وہ بھی آج سے کچھ اوپر، چودہ سو برس پیش تر ان کا پیدا ہو جانا، اور کسی ایک متنفس کی شاگردی کیے بغیر جہاں استاد کا مرتبہ حاصل کر لینا، روزگار کا ایک ایسا معجزۂ عظیم ہے کہ انسانی تاریخ، انگشتِ حیرت کو، اپنے دانتوں کے نیچے سے، آج کے دن تک نکال نہیں سکی ہے۔ وہ پیدائشی عالم اور پیدائشی مفکر اور نظری نہیں، عملی مفکر تھے۔
انہوں نے، جاہلوں کے درمیان حقائق کو آشکار کر کے، سقراط کے مانند، زہر کا پیالہ پیا، اور حقائق کو دل نشیں لباس پہنا کر چشمۂ حیواں پر قبضہ کر لیا۔
سقراط نے اپنی قوم کی ذہنی سطح سے بلند ہو کر زبان کھولی، اس کو ہمیشہ کے واسطے خاموش کر دیا گیا۔ محمد نے اپنی قوم کی ذہنی سطح پر قدم رکھ کر بات کی، اور وہ بات، اذان بن کر، اس دنیا میں اب تک گونج رہی ہے۔ محمد کو ایسی حیرت ناک بصیرت حاصل تھی کہ وہ اپنے گرد و پیش کے لوگوں کی لرزشِ مژگاں سے، ان کے دلوں کی پرتیں شمار کر لیتے، اور ان کے انفاس کی درازی و کوتائی پر نظر جما کر، ان کے جذبات و خیالات کا عرض و طول ناپ لیا کرتے تھے۔
وہ ایک طرف تو اپنی قوم کے تمام مکروہات و مرغوبات کے زبردست نباض تھے، اور دوسری طرف وہ نوعِ انسانی کی اس کمزوری کو بھی پا گئے تھے کہ یہ سود و زیاں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا خود پرست حیوان، صرف تخویف و تحریص کی وساطت سے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔
اور اسی لیے وہ دوزخ کے انگاروں اور حوروں کے رخساروں کو دمکا کر، اپنی قوم کو راہِ راست پر لے آئے۔ انہوں نے ایک مصلح عملی حکیم کے مانند، یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی تقریروں میں، ایسی فلسفیانہ موشگافی، ایسی منطقی پردہ دری، اور ایسی حقائق کشا، برہنہ گفتاری سے کام نہیں لیں گے، جس سے ایک صحرا نشیں قوم کی فعالیت میں فرق پڑ سکتا ہے۔
اور اسی دانش مندانہ فیصلے کی بنا پر، انہوں نے کاروانِ خیال کی نقل و حرکت کے واسطے، ایک وجدانی شاہ راہ تراش لی، اور اس کے دونوں طرف، روایات، کنایات، اشارات، تمثیلات اور تشبیہات کے درخت، اس قدر پیوستگی کے ساتھ نصب فرما دیے کہ منطق کی شعلہ بار دھوپ، اس شاہ راہ کے مسافروں کو جھلسا نہ سکے اور تمام قافلے، بے روک ٹوک چلتے رہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے کلمات کی کھنک، ان کے لہجے کی لچک، اور ان کے پراسرار الفاظ کی دھنک کے نیچے، اس شاہ راہ سے، لاکھوں قافلے اب تک گذرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور محمد کا دل، کروڑوں انسانوں کے سینوں میں آج بھی دھڑک رہا ہے۔
اور پھر، دنیا کی سب سے زیادہ انوکھی بات یہ ہے کہ موت کے بھیانک میدان میں، حوروں کے خیمے نصب کر کے، انہوں نے، عربوں کے خون میں وہ حرارت پیدا کر دی کہ مٹھی بھر آدمیوں نے دیکھتے ہی دیکھتے، آدھی دنیا کو مسخر کر کے اپنے خاک نشیں کملی والے تاج دار کے قدموں پر لا کر ڈال دیا۔
اے غلاموں کو، مقامِ فرزندی تک لانے والے۔ اے قاتلوں کو، مسیحائی کے گُر سکھانے والے، اے انگاروں میں پھول کھلانے والے، اے خوف و حزن کو علامتِ کفر بتانے والے، اور اے رگ ہائے ذرات میں، نظامِ شمسی کا لہو دوڑانے والے۔
اے وحشیوں کو بردباری۔ اے زلزلوں کو تمکین شعاری۔ اور اے، عزائمِ انسانی کو، آفاق شکاری عطا فرمانے والے۔ اے لاوارثوں کے وارث، اے بے آسراؤں کے سہارے، اے یتیموں کے باپ، اور اے بیواؤں کے سہاگ۔۔۔ اے، حرف ناشناس معلم، اے سفر نہ کردہ سیاح، اے فاقہ کش رزاق۔۔۔ اے خلق کی برہانِ عظیم، اے امیِ حکیم۔۔۔ اے خدیوِ اقلیمِ حبل المتین، اے اولادِ آدم کی فتحِ مبین، اے ناموسِ ماء و طین اور رحمۃ اللعالمین! روحِ کائنات کا سجدۂ تعظیمی قبول فرما۔
(جوش ملیح آبادی)
آنحضرت کے بارے میں اکثر، یہ سوچتا رہتا ہوں کہ عرب کی سی جہالت کی راجدھانی میں، اور وہ بھی آج سے کچھ اوپر، چودہ سو برس پیش تر ان کا پیدا ہو جانا، اور کسی ایک متنفس کی شاگردی کیے بغیر جہاں استاد کا مرتبہ حاصل کر لینا، روزگار کا ایک ایسا معجزۂ عظیم ہے کہ انسانی تاریخ، انگشتِ حیرت کو، اپنے دانتوں کے نیچے سے، آج کے دن تک نکال نہیں سکی ہے۔ وہ پیدائشی عالم اور پیدائشی مفکر اور نظری نہیں، عملی مفکر تھے۔
انہوں نے، جاہلوں کے درمیان حقائق کو آشکار کر کے، سقراط کے مانند، زہر کا پیالہ پیا، اور حقائق کو دل نشیں لباس پہنا کر چشمۂ حیواں پر قبضہ کر لیا۔
سقراط نے اپنی قوم کی ذہنی سطح سے بلند ہو کر زبان کھولی، اس کو ہمیشہ کے واسطے خاموش کر دیا گیا۔ محمد نے اپنی قوم کی ذہنی سطح پر قدم رکھ کر بات کی، اور وہ بات، اذان بن کر، اس دنیا میں اب تک گونج رہی ہے۔ محمد کو ایسی حیرت ناک بصیرت حاصل تھی کہ وہ اپنے گرد و پیش کے لوگوں کی لرزشِ مژگاں سے، ان کے دلوں کی پرتیں شمار کر لیتے، اور ان کے انفاس کی درازی و کوتائی پر نظر جما کر، ان کے جذبات و خیالات کا عرض و طول ناپ لیا کرتے تھے۔
وہ ایک طرف تو اپنی قوم کے تمام مکروہات و مرغوبات کے زبردست نباض تھے، اور دوسری طرف وہ نوعِ انسانی کی اس کمزوری کو بھی پا گئے تھے کہ یہ سود و زیاں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا خود پرست حیوان، صرف تخویف و تحریص کی وساطت سے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔
اور اسی لیے وہ دوزخ کے انگاروں اور حوروں کے رخساروں کو دمکا کر، اپنی قوم کو راہِ راست پر لے آئے۔ انہوں نے ایک مصلح عملی حکیم کے مانند، یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی تقریروں میں، ایسی فلسفیانہ موشگافی، ایسی منطقی پردہ دری، اور ایسی حقائق کشا، برہنہ گفتاری سے کام نہیں لیں گے، جس سے ایک صحرا نشیں قوم کی فعالیت میں فرق پڑ سکتا ہے۔
اور اسی دانش مندانہ فیصلے کی بنا پر، انہوں نے کاروانِ خیال کی نقل و حرکت کے واسطے، ایک وجدانی شاہ راہ تراش لی، اور اس کے دونوں طرف، روایات، کنایات، اشارات، تمثیلات اور تشبیہات کے درخت، اس قدر پیوستگی کے ساتھ نصب فرما دیے کہ منطق کی شعلہ بار دھوپ، اس شاہ راہ کے مسافروں کو جھلسا نہ سکے اور تمام قافلے، بے روک ٹوک چلتے رہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے کلمات کی کھنک، ان کے لہجے کی لچک، اور ان کے پراسرار الفاظ کی دھنک کے نیچے، اس شاہ راہ سے، لاکھوں قافلے اب تک گذرتے نظر آ رہے ہیں۔ اور محمد کا دل، کروڑوں انسانوں کے سینوں میں آج بھی دھڑک رہا ہے۔
اور پھر، دنیا کی سب سے زیادہ انوکھی بات یہ ہے کہ موت کے بھیانک میدان میں، حوروں کے خیمے نصب کر کے، انہوں نے، عربوں کے خون میں وہ حرارت پیدا کر دی کہ مٹھی بھر آدمیوں نے دیکھتے ہی دیکھتے، آدھی دنیا کو مسخر کر کے اپنے خاک نشیں کملی والے تاج دار کے قدموں پر لا کر ڈال دیا۔
اے غلاموں کو، مقامِ فرزندی تک لانے والے۔ اے قاتلوں کو، مسیحائی کے گُر سکھانے والے، اے انگاروں میں پھول کھلانے والے، اے خوف و حزن کو علامتِ کفر بتانے والے، اور اے رگ ہائے ذرات میں، نظامِ شمسی کا لہو دوڑانے والے۔
اے وحشیوں کو بردباری۔ اے زلزلوں کو تمکین شعاری۔ اور اے، عزائمِ انسانی کو، آفاق شکاری عطا فرمانے والے۔ اے لاوارثوں کے وارث، اے بے آسراؤں کے سہارے، اے یتیموں کے باپ، اور اے بیواؤں کے سہاگ۔۔۔ اے، حرف ناشناس معلم، اے سفر نہ کردہ سیاح، اے فاقہ کش رزاق۔۔۔ اے خلق کی برہانِ عظیم، اے امیِ حکیم۔۔۔ اے خدیوِ اقلیمِ حبل المتین، اے اولادِ آدم کی فتحِ مبین، اے ناموسِ ماء و طین اور رحمۃ اللعالمین! روحِ کائنات کا سجدۂ تعظیمی قبول فرما۔
(جوش ملیح آبادی)