آصف شفیع
محفلین
خالد علیم کی ایک غزل :
میری وحشت کیلیے چشمِ تماشا کم ہے
اور اگر دیکھنے لگ جائے تو دنیا کم ہے
ٹھہر اے موجِ غمِ جاں رگِ جاں کے اندر
تیری پرسش کو مری آنکھ کا دریا کم ہے
کس سے ہم جا کے کہیں قصہء ویرانیء دل
ہر کوئی کہتا زیادہ ہے تو سنتا کم ہے
رہروِ عشق تو بس چلتا ہے دو چار قدم
اور یہ دو چار قدم بھی کوئی چلتا کم ہے
کیسے تصویر کریں تیرے خدو خال کو ہم
تجھ کو سوچا ہے زیادہ، تجھے دیکھا کم ہے
دیکھنا، ہجر کے اس دشتِ بلا سے آگے
اک سفر اور ہے، ہر چند کہ رستا کم ہے
کارِ دنیا ہی سے فرصت نہیں ملتی خالد
ورنہ یہ کارِ محبت بھی مجھے کیا کم ہے
میری وحشت کیلیے چشمِ تماشا کم ہے
اور اگر دیکھنے لگ جائے تو دنیا کم ہے
ٹھہر اے موجِ غمِ جاں رگِ جاں کے اندر
تیری پرسش کو مری آنکھ کا دریا کم ہے
کس سے ہم جا کے کہیں قصہء ویرانیء دل
ہر کوئی کہتا زیادہ ہے تو سنتا کم ہے
رہروِ عشق تو بس چلتا ہے دو چار قدم
اور یہ دو چار قدم بھی کوئی چلتا کم ہے
کیسے تصویر کریں تیرے خدو خال کو ہم
تجھ کو سوچا ہے زیادہ، تجھے دیکھا کم ہے
دیکھنا، ہجر کے اس دشتِ بلا سے آگے
اک سفر اور ہے، ہر چند کہ رستا کم ہے
کارِ دنیا ہی سے فرصت نہیں ملتی خالد
ورنہ یہ کارِ محبت بھی مجھے کیا کم ہے