بہت خوب جناب بہت خوب
بہت خوب، واہ
معزز اراکینِ محفل، آپکی خدمت میں اپنی پہلی رباعی پیش کر رہا ہوں، امید ہے اپنی رائے سے نوازیں گے.
بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندِگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی، سُن لے
وارث بہت اچھی رباعی ہے. مگر یہ مصرعہ سمجھ میں نہیں آیا.
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
ہم نے تو سنا تھا کہ لوگ جوانی وقف عشق کر دیتے ہیں . اور پیری میں میں بقول غالب
دمِ واپسیں بر سر راہ ہے
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے
یعنی آپ کا مطلب ہے بقول غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری
وہ تو ٹھیک ہے مگر اللہ کرے آپ پر وہ مقام نہ آئے
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
بالکل لڑکپن کا شعر ہے کیوں کہ یہ نسخہ حمیدیہ میں موجود ہے جو 1828 میں چھپی تھی
آپ دونوں کی شاعرانہ نوک جھونک بہت دلچسپ ہے
ویسے جتنی قبلہ نے عمر پائی، اس لحاظ سے پچیس، تیس برس کی عمر لڑکپن ہی بنتی ہے
ایک قتیلِ غالب ہیں پروفیسر Frances Pritchett
انہوں نے بہت خوب کام کیا ہے کہ غالب پہ، نہ صرف غالب کی شرحیں اکھٹی کر دی ہیں بلکہ ہر غزل کی تاریخ بھی مستند حوالوں سے بیان کر دی ہے. اور غالب کے دیوان کی بحور بھی بیان کردی ہیں. یقینا بہت سارے احباب نے یہ کام دیکھا ہوگا.
http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00ghalib/index.html
ایک اور تھے قتیلِ غالب، شیخ محمد اکرام صاحب، "کوثر" سیریز والے، انہوں نے ایک دیوانِ غالب مرتب کیا ہوا ہے "ارمغانِ غالب" روایتی ترتیب کی بجائے تاریخی ترتیب سے. واہ، واہ کیسے کیسے عشاق ہیں غالب کے .....
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا