شیخ صاحب کی تینوں کتب لا جواب ہیں، وہ ایک بلند پایہ محقق تھے. انہوں نے واقعی جانفشانی سے غالب کا دیوان مرتب کیا ہے بلکہ اس میں فارسی کلام بھی ہے تاریخی ترتیب سے. یہ دیوان کافی خستہ حالت میں ہے میرے پاس، سنِ اشاعت تو نہیں ہے اس پر لیکن یہ تقسیم سے پہلے کا ایڈیشن ہے کہ پریس لاہور کا لیکن ناشر بمبئی کا ہے، لاہور کی انارکلی کے فٹ پاتھ سے ملا تھا کوئی دس پہلے، تبرک سمجھ کہ سنبھالا ہوا ہے.
ڈاکٹر انیس ناگی کی کتاب ہے میرے پاس، در اصل جہاں غالب کے قتیل بہت ہیں وہیں غالب پر، جائز و نا جائز، تنقید کرنے والے بھی بہت ہیں. انہی میں ایک پروفیسر یوسف سلیم چشتی بھی ہیں، غالب کے دیوان کی شرح اس نقطہ نظر سے لکھی ہے کہ شاید ہی کسی شعر پر داد دی ہو. لا حول ....
انیس ناگی بھی اس فہرست میں ہے، مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ اس نے یہ کتاب منفی ذہن سے لکھی ہے اور بزعمِ خود اس پر تحلیلِ نفسی کا لیبل لگا دیا ہے۔ غالب ہر ابہام گوئی کا بھی ایک بہت بڑا الزام ہے اور ناگی صاحب نے بھی اس پر پورا باب لکھ مارا ہے اور جا بجا طنز بھی دیکھنے کے لائق ہے جیسے دیوان کو "دیوان زادہ" فرما دیا. اس سارے قضیے میں مولوی فضل حق کا کردار بھی بہت اہم ہے، شیخ اکرام نے، اس واقعے پر کہ غالب نے اپنا دیوان چھانٹ دیا تھا مولوی صاحب کے کہنے پر، یہ کہا کہ کہاں غالب اور کہاں ایک مولوی تو یوسف چشتی نے اسکے جواب میں کہا کہ جب تک فضلِ حق شاملِ حال نہ ہو، فضل حق کا مقام کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے.
خیر ہمیں کیا، خود ہی دوزخ میں جائیں گے یہ
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے