فاطمہ بتول
محفلین
عین ممکن تھا سبھی خواب عیاں ہو جاتے
اشک گر ساتھ نہ دیتے تو بیاں ہو جاتے
ہے الگ سوچ مگر مات مقدر کیوں ہے
جیت ممکن ہے اگر ظرف زیاں ہو جاتے
رستئہ زیست کٹا جرمِ خطا میں یکسر
کاش بے دید سفر ہم پہ عیاں ہو جاتے
جبر کے زور پہ گر کام بنا کرتے تو
اس نگر صبر کے سب گھر ہی مکاں ہو جاتے
خواب ٹوٹے تو لگا جان چلی جائے گی
ذوقِ احساس نہ کھوتے تو فنا ہو جاتے
چشمِ بیدار سے تُو اُنکو اگر پڑھتا تو
وہ مِرے خواب کسی صوفی کا بیاں ہو جاتے
ذاتِ واحد نہ اگر ساتھ عطا کرتی تو
شہرِ گلزار , بیابانِ جہاں ہو جاتے
اشک گر ساتھ نہ دیتے تو بیاں ہو جاتے
ہے الگ سوچ مگر مات مقدر کیوں ہے
جیت ممکن ہے اگر ظرف زیاں ہو جاتے
رستئہ زیست کٹا جرمِ خطا میں یکسر
کاش بے دید سفر ہم پہ عیاں ہو جاتے
جبر کے زور پہ گر کام بنا کرتے تو
اس نگر صبر کے سب گھر ہی مکاں ہو جاتے
خواب ٹوٹے تو لگا جان چلی جائے گی
ذوقِ احساس نہ کھوتے تو فنا ہو جاتے
چشمِ بیدار سے تُو اُنکو اگر پڑھتا تو
وہ مِرے خواب کسی صوفی کا بیاں ہو جاتے
ذاتِ واحد نہ اگر ساتھ عطا کرتی تو
شہرِ گلزار , بیابانِ جہاں ہو جاتے