فاطمہ بتول
محفلین
اک متنا ہی زیست کی خاطر
لامتناہی خواب سجائے
ہم اہلِ سخن خاموش کھڑے ہیں
اُس دشت میں جو ایران بہت ہے
بے آب نہیں ہے پر بنجر ہے
یہاں خوشبو پھول کی متلاشی ہے
یہاں تارے رستہ بھول چکے ہیں
پتھر کی اسے صورت دے کر
احساس دلوں کو چھوڑ چکے ہیں
محفل ہر رنگ کھو بیٹھی ہے
غزل میں خالی خیال دھرے ہیں
اب سوچتے ہیں یہ کیا منظر ہیں
تپتی چھاؤں , پیاسی بارش
ٹھنڈی دھوپ یا کھنڈر ہیں؟
روحِ سخن کو بھینٹ چڑھا کر
ہم اہلِ نظر تو بس کھنڈر ہیں!
لامتناہی خواب سجائے
ہم اہلِ سخن خاموش کھڑے ہیں
اُس دشت میں جو ایران بہت ہے
بے آب نہیں ہے پر بنجر ہے
یہاں خوشبو پھول کی متلاشی ہے
یہاں تارے رستہ بھول چکے ہیں
پتھر کی اسے صورت دے کر
احساس دلوں کو چھوڑ چکے ہیں
محفل ہر رنگ کھو بیٹھی ہے
غزل میں خالی خیال دھرے ہیں
اب سوچتے ہیں یہ کیا منظر ہیں
تپتی چھاؤں , پیاسی بارش
ٹھنڈی دھوپ یا کھنڈر ہیں؟
روحِ سخن کو بھینٹ چڑھا کر
ہم اہلِ نظر تو بس کھنڈر ہیں!