سید شہزاد ناصر
محفلین
میں اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھتا
کچھ عرصہ پہلے یہ نظم لکھی تھی
بہت جھجھک کے ساتھ پیش کر رہا ہوں
پتہ نہیں کہ اساتذہ کے معیار پر پوری اُترتی ہے کہ نہیں
ایک لفظ صحیح ٹائپ نہیں ہو رہا اس کو سُرخ رنگ میں نشان زدہ کر رہا ہوں
اس کا مطلب ہے گزرے ہوئے
اساتذہ کی آراء کا منتظر ہوں
نقشِ خیال کی رہگزر پر
بیتے لمحوں کی آہٹیں
تنہائی کی گرد میں لپٹی ہوئی
کچھ یادوں کا ہجوم
جیسے بادلوں کی اوٹ میں
اُداس ماہتاب کا عکس
فصیلِ شب پر جلتے ہوئے امیدوں کے چراغ
جیسے تاریکیوں میں جگنووں کے رقص
ہواوں کے ریشمی آنچل
کسی مانوس خوشبو سے مہکے ہوئے
پھر رتجگوں کے موسم میں
جاگتی آنکھوں کے خواب
تیری یادوں میں دُھل کر نکھر گئے
درِ دل پر کوئی نرم سی دستک
جیسے پتوں پہ کوئی شبنمی سا لمس
ان جنوں خیز لمحوں کا فسوں
گویا خوابِ حقیقت میں ڈھل گیا
لمحاتِ وصل کے گلاب
تیرے عارض و رُخسار کا آئینہ ہوئے
پھر ہجر و فراق کی ایک شام
وہیں پر ڈوب گئی
وصل کی ایک سحر جہاں سے پھوٹی تھی
تم نے وہیں سے شائد اسے جوڑ دیا
ہاتھوں کی زنجیر جہاں سی ٹوٹی تھی
کچھ عرصہ پہلے یہ نظم لکھی تھی
بہت جھجھک کے ساتھ پیش کر رہا ہوں
پتہ نہیں کہ اساتذہ کے معیار پر پوری اُترتی ہے کہ نہیں
ایک لفظ صحیح ٹائپ نہیں ہو رہا اس کو سُرخ رنگ میں نشان زدہ کر رہا ہوں
اس کا مطلب ہے گزرے ہوئے
اساتذہ کی آراء کا منتظر ہوں
نقشِ خیال کی رہگزر پر
بیتے لمحوں کی آہٹیں
تنہائی کی گرد میں لپٹی ہوئی
کچھ یادوں کا ہجوم
جیسے بادلوں کی اوٹ میں
اُداس ماہتاب کا عکس
فصیلِ شب پر جلتے ہوئے امیدوں کے چراغ
جیسے تاریکیوں میں جگنووں کے رقص
ہواوں کے ریشمی آنچل
کسی مانوس خوشبو سے مہکے ہوئے
پھر رتجگوں کے موسم میں
جاگتی آنکھوں کے خواب
تیری یادوں میں دُھل کر نکھر گئے
درِ دل پر کوئی نرم سی دستک
جیسے پتوں پہ کوئی شبنمی سا لمس
ان جنوں خیز لمحوں کا فسوں
گویا خوابِ حقیقت میں ڈھل گیا
لمحاتِ وصل کے گلاب
تیرے عارض و رُخسار کا آئینہ ہوئے
پھر ہجر و فراق کی ایک شام
وہیں پر ڈوب گئی
وصل کی ایک سحر جہاں سے پھوٹی تھی
تم نے وہیں سے شائد اسے جوڑ دیا
ہاتھوں کی زنجیر جہاں سی ٹوٹی تھی