میری کتاب "اعترافِ جرم " پر میرا ایک مضمون اور انتساب

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اعترافِ جرم میری 16 سال کی محنت کا ثمر ہے۔ میں نے اس کا انتساب اور بحیثیت شاعر کچھ اپنے اور اس کتاب کے بارے میں شاہدؔ، شاعری اور اعترافِ جرم کے عنوان سے مضمون لکھا ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اگر اس میں زبان و بیان کی کوئی غلطی، کوئی ذہن کو پریشان کرنے والی بات یا فضول جملے محسوس کریں تو مطلع فرمائیں تاکہ میری اصلاح ہوسکے۔ مضمون ذرا طویل ہے، اس لیے مجھے کوسنے کی بجائے پڑھنا شروع ہی مت کیجئے جب تک آپ کے پاس وقت نہ ہو۔۔۔ بشرطِ فرصت تھوڑا تھوڑا پڑھ کر بھی رائے دے سکتے ہیں۔۔ آپ کی کوئی تجاویز ہوں تو وہ بھی ضرور دیجئے ۔۔

انتساب
ان کیفیات کے نام جو مجھ پر طاری ہو کر کچھ کہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان خیالات کے نام جو اپنی اہمیت خود ثابت کرتے ہیں۔ ان الفاظ کے نام جو اُردو زبان و ادب کا بہترین اثاثہ ہیں۔ ان افکار کے نام جن سے ہر دو ر کے انسان نے رہنمائی حاصل کی اور صراطِ مستقیم پائی۔ اس صراطِ مستقیم کے نام جس پر چلنے سے خالق ِ کائنات کی ذاتِ کامل کی رضا نصیب ہوتی ہے اور اس کے پیارے محبوبﷺ کے نام جس نے صحرائے عرب جیسے پسماندہ ترین خطے کو وہ روشنی عطا کی جس کی چمک سے اس کا گوشہ گوشہ آج تک منور ہے اور دنیا میں جہاں جہاں بھی روشنی ہے، اسی کے سبب ہے۔
مٹائے مٹ نہیں سکتا کسی دل سے بھی نام اُس کا
پیام اُس کا عَرَب میں کھینچ کر لایا ہے دُنیا کو
وُہ مُدَّثِّرلقب، شاہِ عَرَب، محبوبِ ربﷺ جس نے
مقامِ خالقِِ کونین ﷺ سمجھایا ہے دُنیا کو

شاہدؔ، شاعری اور اعترافِ جرم
فخر کرتے ہیں شاعری کر کے
شعر کہنا کمال ہو جیسے
اعترافِ جرم دراصل اپنے ہونے کا اعتراف ہے۔ جرم ہماری تخلیق نہیں بلکہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں، اس میں عام انسان کا جینا ایک جرم بنا دیا گیا ہے۔ اگر یہ جرم نہ سمجھا جاتا تو اسے طرح طرح کے مسائل سے دوچار کرکے جیتے جی مقتول بنانے کی سازشیں نہ کی جارہی ہوتیں۔ میں ایک عام آدمی ہوں جو ہر دوسرے عام آدمی کے جذبات اور اس کے کرب کو سمجھتا ہے اور بحیثیت شاعر اس بات کا پابند ہوں کہ اس دکھ اور کرب کو اپنے الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اس کا اظہار کروں اور اگر میرے ذہن میں اس تکلیف کو دور کرنے کا کوئی راستہ ہے تو وہ بھی بتاؤں۔
شاعری فن ہے تو میں اسے سیکھ رہا ہوں،یہ میراث ہے تو مجھے بغیر میرے مرحوم باپ کی طرف سے ترکے میں آئے میرے خدا سے براہ راست ملی ہے۔ یہ کسی نیکی کی جزا ہے تو میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں ایسی کوئی نیکی میں نے کبھی نہیں کی ۔اور اگر یہ کوئی سزا ہے تو میں سمجھتا ہوں اس نے مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ جس احمقانہ طریقے سے میں لوگوں اور زندگی کے متعلق تصورات میں فریب کا شکار تھا، اس سے نجات بخشی ہے۔ شعر کو سمجھنے والے شعر کہنے والے سے بڑے ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات شعر کو سمجھنا شعر کہنے سے زیادہ مشکل بات ہوتی ہے لیکن خود شاعر ہی یہ بات نہیں سمجھتے۔ شاعری کوئی عشق کا مارا، دکھی اور تکلیف میں گھرا ہوا انسان ہی کرسکتا ہے، یہ سمجھنا حقیقت سے انحراف کرنا ہے ۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں میں شعر کہنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ اسے پہچانے بغیر ہی پوری زندگی گزار کر اس دارِ فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ شاعری کا شعور بالکل نہیں رکھتے لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر ان کا دل بہت چاہتا ہے کہ وہ شعر کہیں۔ پھر وہ لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ بہت سے دیگر علوم کی طرح شاعری بھی کسی گہرے سمندر کی مانند اپنا وجود رکھتی ہے۔ یہ کوئی روگ یا بیماری نہیں بلکہ ایک علمی مشغلہ ہے جو اتنا دلچسپ ہے کہ اس میں خود کو الجھانے والا عموماً اس سے کبھی باہر نہیں آسکتا۔ آپ یوں سمجھ لیجئے کہ شاعر ایک فلسفی ہے جو فطرت کے مظاہر کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ جب وہ مختلف باتوں کا تجزیہ کرتا ہے، زندگی کے حالات دیکھتا ہے، لوگوں کو سمجھتا اور ان کے مسائل کا ادراک کرتا ہے تو کچھ اہم باتیں اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں جو دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتیں جس کا سبب یہ ہے کہ وہ نہایت باریک بینی سے اس ایک کام میں مصروف رہتا ہے۔ وہ لوگوں کو بالکل کتابوں کی طرح پڑھنا شروع کردیتا ہے۔ یہ کام ایک عام انسان کرے تو اسے بھی کافی باتیں کہنے کو دستیاب ہوں گی۔ شاعر کے پاس یہ باتیں کہنے کا سلیقہ بھی ہوتا ہے۔ وہ زبان کو سمجھتا ہے اور شعر کی بحر ( یعنی ردھم) میں کھو کر اس کے معنی سے آنکھیں نہیں چراتا بلکہ اپنی ہر غلطی کو سمجھتا اور اسے دور کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں خداداد ہوتی ہیں جیسے غالبؔ اور اقبال ؔکی بات کی جائے تو دونوں ہی اپنی اپنی جگہ فلسفی شاعر تھے لیکن جو کام غالبؔ نے کیا وہ اقبال ؔنہیں کرسکے اور جو بات اقبال ؔکے حصے میں آئی غالب ؔاس سے کوسوں دور تھے۔ غالبؔ کا کلام اقبال ؔسے کہیں کم ہے اور اقبال کا کلام اتنا زیادہ اور اتنا معیاری ہے کہ اردو ادب کا کوئی شاعر اس معاملے میں ان کے برابر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود دنیائے ادب میں جو مقام غالبؔ کو حاصل ہے، اقبالؔ کو حاصل نہیں، لیکن اقبال ؔپھر اقبال ؔہے اور غالب ؔپھر غالبؔ۔ کسی کو کمتر یا برتر کہنا میرا مقصد نہیں۔ یہ اپنی اپنی صلاحیت، طبیعت اور مزاج کی بات ہے۔ اگر شاعری میں صرف محنت ضروری ہوتی تو سب سے زیادہ نمبر لینے والے پڑھاکو لوگ سب سے بڑے شاعر قرار پاتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ چند اچھے اشعار سے آپ اچھا نام تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن دنیائے ادب آپ کو یاد رکھے، اس کے لیے آپ کو محنت، لگن، علم اور عشق سبھی کی ضرورت ہے لیکن اگر مقدر آپ کے ساتھ نہیں تو محنت، لگن، علم اور عشق تک بے کار ہیں۔ پھر وہ عشق ہی کیا جو دنیائے ادب میں اپنے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جائے۔ عشق والوں کو دنیاوی نام و نمود سے غرض ہی کیا۔ سو شاعری شوق بھی ہے اور عشق بھی لیکن کسی حسینہ کے عشق میں ناکام ہونے کے بعد آپ کا شاعر بننا یقینی ہے، میں یہ بات نہیں مانتااور امید کرتا ہوں کہ دیگر لوگ بھی اس سے اتفاق کریں گے۔
میں شاید تیسری جماعت میں تھا جب ہمارے محترم استاد راؤ مجید صاحب نے یہ شعر لکھوایا:
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں وہی طٰہٰ
خدامعلوم جب میں نے عشق کو "اشق" لکھا تو اس پر میرے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، لیکن یہ شعر میں آج تک نہیں بھولااور اقبا لؔ کے اور بھی نہ جانے کتنے اشعار جو مختلف وسیلوں سے مجھ تک پہنچتے تھے، میں مسلسل یاد کرتا رہااوربعض اوقات جن اشعار کے مطالب بھی مجھے معلوم نہ تھے، وہ مجھے یا د ہوتے تھے۔ مجھے گورنمنٹ رفیق ایلیمنٹری اسکول بھی یاد ہے جہاں ہمار ے محترم استاد احمد علی صاحب نے ہمیں اقبالؔ کا یہ شعر سنایا تھا:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
احمد پور لمہ ہائی اسکول ، جہاں سے میں نے میٹرک کیا، اس کی دیواروں پر بھی اقبال ؔکے اشعار درج تھے:
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی؟
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
علامہ اقبالؔ وہ پہلے شاعر تھے جن کی شاعری سے متاثر ہو کر میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا ہوا، لیکن ان کے علاوہ غزل کے حوالے سے مجھے کس نے متاثر کیا، اس سوال کا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ میرا مطالعہ بہت عجیب و غریب قسم کا ہے۔ میں اپنے پیشہ ورانہ کام میں الجھا رہتا ہوں اور کبھی کبھار موقع ملتا ہے تو یاد نہیں رہتا کہ پہلے کس شاعر کو پڑھا تھا۔ پھر جو سامنے آتا ہے، اسے پڑھتا ہوں اور جو سمجھ میں آتا ہے، سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
میرے خاندان میں میرے علاوہ اگر کوئی شخص شاعر ہے تومیں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ایک نہایت بے خبر انسان ہوں اور مجھے اس کا علم نہیں۔ میرے مرحوم والد کو شاعری کا شوق صرف اس حد تک تھا کہ ان کی ڈائری میں مختلف رسالوں کی کترنیں ملتی تھیں جن پر شاعری اور علمی نکات درج ہوتے تھے اور وہ ایسے رسالے پڑھا کرتے تھے جن میں کہانیاں کم اور اشعار زیادہ شامل کیے جاتے تھے۔جون 2012ء سے پہلے میری شاعری میری ذات تک ہی محدود رہی ۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ شعر گوئی کے معاملے میں میری حوصلہ افزائی کبھی نہیں ہوئی۔ مجھے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ یہ فضول کام ہے، اسے چھوڑ دینا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ مجھے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ آخر کیوں سب لوگوں کی حوصلہ شکنی کے باوجود میں مسلسل شعر لکھتا رہتا ہوں اور نہ صرف یہ کہ گھر میں کچھ کتابوں جیسی نوٹ بکس میری شاعری سے بھر چکی ہیں بلکہ نہ جانے کتنی ہی جگہوں پر میری شاعری سے پُر کاغذ کے اوراق بکھرے پڑے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے شاید میٹرک بھی نہیں کیا تھا، اس وقت ایک پوری نوٹ بک میری شاعری کی تیار ہوچکی تھی جسے ایسی ہی حوصلہ شکن باتوں کا اثر لیتے ہوئے یا شاید اپنی ہی شاعری کو اسلام کے اصولوں کی رو سے ناجائز سمجھتے ہوئے میں نے آگ لگا دی تھی۔ذاتی طور پر میرا ذہن کچھ اپنے پیشہ ورانہ کام کی انتہائی مصروفیات اور کچھ میری غفلت کی وجہ سے بہت کم باتیں یاد رکھ پاتا ہے۔ کبھی کبھار میں کچھ بہت اہم باتیں بھی بھول جایا کرتا ہوں جن کی وجہ سے بہت کوفت اٹھانا پڑتی ہے، لیکن میرے شاعری سے عشق کا عالم یہ ہے کہ اب بھی میں اپنے ذہن پر زور دیتا ہوں تو اس جلی ہوئی نوٹ بک کے کچھ اشعار یوں ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں جیسے میں نے انہیں کل ہی لکھ کر محفوظ کیا تھا:
روز آتے ہیں روز جاتے ہیں
زخم دیتے ہیں زخم کھاتے ہیں
زندگی میں جو دل لگاتے ہیں
موت سے کیوں نظر چراتے ہیں
جو بھی آتا ہے، اس کو جانا ہے
بعد میں اشک کیوں بہاتے ہیں
کیا ہوا زیست کم ہے تو شاہدؔ
آؤ ہم اُس سے لو لگاتے ہیں!
آج سوچتا ہوں اسلام کا وہ کون سا اصول تھا جس کی میرے اِس طرح کے اشعار سے خلاف ورزی ہورہی تھی؟ اگر میں جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے اس نوٹ بک کو غور سے پڑھتا تو اس میں سے کام کے اشعار بھی برآمد ہوسکتے تھے۔ مانا کہ بچپن کی یہ شاعری فن کی معراج کو نہیں چھو سکتی، لیکن خدا نے ہر وقت اور ہر عمر کی مناسبت سے انسان کا مزاج ترتیب دیا ہے جس کے تحت وہ تخلیقات کرتا ہے۔ بچپن کی شاعری میں جو بات پائی جاتی ہے، وہ جوانی یا بڑھاپے میں کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟پہلے میرا ذہن کسی اصول یا دائرے میں قید نہیں تھا۔ آج مجھے شعر کہتے ہوئے بہت سے اصولوں کا دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ اس خوف کی فضا میں اچھا شعر کہنا بہت دقت طلب کام ہے، لیکن پہلے تو میں ایسی کوئی بات نہیں سوچتا تھا، جو آجکل سوچتا ہوں:
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی؟
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
(محمد یعقوب آسی)
کچھ باتیں کہنے کی نہیں، سمجھنے کی ہوتی ہیں۔ہم ہر شخص کو سمجھا نہیں سکتے لیکن ہر شخص ہمیں بھی تو نہیں سمجھا سکتا۔ سمجھنے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے لیکن اکیلی عقل محض دو اور دو چار کی جمع تفریق میں الجھ کر رہ جائے گی۔ علم ضروری ہے۔ کتاب سے دوستی کی جائے اور جو کہہ یا لکھ رہے ہیں اس کا تجزیہ بالکل غیر جانبدار ہو کر کیاجائے۔ شاعری کے علم میں ایک بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ شعر عام نثر نہیں ہے جس کا تجزیہ ہر شعر کہنے یا پڑھنے والاکرسکے۔ انسان ساری زندگی دھویں میں ہاتھ چلاتا رہ جاتا ہے اور اسے یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ اس نے بادلوں کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ اگر نثر کو زمین پر موجود آب رواں سے تشبیہ دی جائے تو شاعری ہوا میں اڑتا ہوا بادل ہے۔ نثر تو زمین میں قید رہتی ہے لیکن اس کے سامنے پورا آسمان ہے۔ احساس سے بھرپور دل اور ذہین دماغ وہ اثاثہ ہے جو ہر شاعر یا شاعرہ کے پاس نہیں ہوتا۔ کم علمی کا علاج تو ہوسکتا ہے لیکن کند ذہنی کا کوئی حل نہیں ہے۔ نئے الفاظ کو سیکھ کر ان کو اپنے شعری سانچے میں ڈھالنا شاعری نہیں ہے۔ ہر الٹے سیدھے محاورے کا استعمال یا زبان کے مشکل الفاظ کو لغت سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر شعر میں لانا بد ترین بے وقوفی ہے۔ آپ نے غریب دیکھے ہی نہیں، آپ ان کی بھوک کا احساس کیسے کریں گے؟شاعری لفظوں سے نہیں، احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ احساس بتاتا ہے لفظ کیا ہوں، محاورے کیسے استعمال کیے جائیں۔ چوٹ لگتی ہے تبھی تو انسان چیختا ہے ۔ کسی اداکار کی چیخ میں اور جسے واقعی ہتھوڑا مار دیا گیا ہو، اس کی چیخ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ چپ رہ کر بھی بعض لوگ وہ بات کہہ جاتے ہیں جو ساری زندگی تقریریں کرکرکے کوئی عالم دین یا مقرر آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ اسی لیے شاعر کو چاہئے کہ لکھنے کاکام بعد میں کرے، پہلے یہ احساس کرے کہ اس کے اردگرد پورے معاشرے میں اور خود اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ نئے دور کی نت نئی مصیبتوں اور فتنوں نے ہمیں اپنی ہی زندگیوں سے بے گانہ اور دور کردیا ہے۔ اپنے ہی رشتے دار ہمیں اجنبی اور پرائے محسوس ہوتے ہیں۔ اس نشے کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ہی ہم کچھ لکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر اپنی شاعری کو تنقید کے لیے پیش کرنا عموماًکوئی اچھا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید کرنے والے اہل علم بھی ہوتے ہیں، واقعتاً نقاد بھی اور ادب کو سمجھنے والے بھی، لیکن کس کے پاس وقت ہے کہ شعر دیکھ کر اس پر تفصیلی تنقید کرے اور اس تنقید پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی دے۔ پھر شاعر اور ناقد کی جنگ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ناقد کو تو ہم پہلے ہی اہل علم کہہ چکے اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ادب دوست بھی ہے، ورنہ اپنے قیمتی وقت کا استعمال وہ شعر پر تنقید کے لیے کبھی نہ کرتا۔ اس کی بجائے کسی اور کام کو ترجیح دیتا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے شاعر کی تخلیق پر یہ گزارش دیکھی کہ آپ اس پر تنقید فرمائیے اور یہ سوچ کر کہ شاید اس کی رہنمائی کی یہاں ضرورت ہے اور شاید اس کے علم کی کچھ روشنی نہ جاننے والوں تک بھی پہنچ جائے، آپ کو اپنی رائے سے آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھا۔ یہ اس کی خوبی ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ شاعر یا شاعرہ، جس نے وہ شعر کہا ہے، اسے اپنی تخلیق سے ایسی ہی محبت ہے جیسی اپنے بچے سے ایک باپ یا ماں کو ہوسکتی ہے۔ تنقید کا لفظ بظاہر ہم عیب بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن ادب میں اس کا مطلب شعر کے محاسن بیان کرنا بھی ہوتا ہے۔ مگرعیب نکالنا بھی تو ضروری ہے اور خاص طور پر جب شاعر خود گزارش کر رہا ہے کہ جناب اگر میری کاوش میں کوئی عیب ہے تو آپ کھل کر بیان کیجئے، پھر عیب بیان کرنا محاسن بتانے سے زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔ اس لیے تنقید کرنے والا یہی کرتا ہے اور ایسا کرنے میں اس کی غلطی ہے بھی نہیں۔ لیکن یہاں وہ لوگ بھی اپنی رائے دیں گے جو حقیقتاً ناقد نہیں ہیں، پھر اچھے اچھے اہل علم اور ناقدین بھی جمع ہو گئے اور ان کا اختلاف ہوا تو بات الجھ جائے گی۔ شعر اچھا ہے یا برا، اس کا فیصلہ کبھی نہیں ہوگا۔ تو یہ فیصلہ کیا کیسے جائے؟ شعر کہنا تو اتنا مشکل کام ہے نہیں، جتنا علمی تنقید کرنا اور پھر اپنی ہی تخلیق پر تنقید کیسے کی جائے؟ کیونکہ اس کے بغیر شاعری بہتر نہیں ہوگی۔ شاعر جہاں اب کھڑا ہے، اب سے دس یا بیس سال بعد بھی وہیں، بلکہ اس سے بد تر ہوگا، کیونکہ غلط شعر کہنا، زبان کو غلط طریقے سے استعمال کرنا اور گھٹیا اشعار کو اعلٰی سمجھنے کی روش جو پہلے کچی تھی، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ ہوجائے گی لیکن اس کے منہ پر اس کی تعریفیں کی جائیں گی اور بے چارے شاعر کی پوری زندگی ہی ایک دھوکے میں گزر جائے گی کہ اس کی تخلیقا ت اسے زندہ رکھیں گی۔ جب وہ دنیا چھوڑ کر جائے گا تو انتہائی افسوس کا مقام ہوگا کہ اس کی کتاب کوئی ادب کا سنجیدہ قاری اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا بلکہ کتاب کا سر ورق دیکھ کر ہی اپنا سر پیٹ لے گا ۔ کتاب کے بہت کم اشعار اچھے ہوں گے اور شاید ہی کوئی ایک غزل ایسی ملے جو کام کی ہو۔ سردست اس مسئلے کا میری نظر میں کوئی حل نہیں کیونکہ جب علم کو علم کی طرح حاصل کرنے کی لگن نہ ہو، یا اس کا وقت نہ ملے تو اس کا یہی انجام ہوتا ہے اور یہی وہ المیہ ہے جس کا آج کے دور کے شاعر کو سامنا ہے۔
اُردو غزل کیا ہے اور شعر کسے کہتے ہیں مجھے شاعری شروع کرنے کے دس یا بارہ سال بعد اس کا علم ہوا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب میں ان نقائص سے بچ سکتا ہوں جن سے پہلے نہ بچ سکا اور نقصان یہ ہوا کہ جو نقائص پہلے رہ گئے تھے ان کی وجہ سے بہت سا شعری اثاثہ جو اب ناقابل اصلاح ثابت ہوا ہے، برباد ہوجائے گا۔ ایک تخلیق کار اپنی ہی تخلیق کو ناقص کہہ کر اسے ختم کردے، یہ تکلیف دہ بات ضرور ہے لیکن اتنی نہیں جتنی یہ بات کہ لوگ اسے پڑھ کر ناقص قرار دیں۔ موجودہ دور میں فاصلے کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اس بات کا "اعترافِ جرم" سے کافی گہرا تعلق ہے۔ میری یہ کتاب جو آپ دیکھ رہے ہیں، صرف میری ہی تخلیق کا حاصل نہیں بلکہ اس میں کچھ ایسے افراد کا بھی حصہ ہے جن سے کبھی مجھے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔ انٹرنیٹ پر جب میں نے اپنی تخلیقات کو پیش کیا تو اس کے ساتھ لوگوں سے یہ گزارش بھی کی کہ اگر میں نے کچھ غلط لکھا ہے تو میری اصلاح فرمائیے۔ میں بہت شکر گزار ہوں جناب فیضاء الرحمٰن صاحب کا جنہوں نے جدہ سے مجھ سے متعدد بار رابطہ کیا اور شعر گوئی کے حوالے سے میری رہنمائی کی۔ اس کے بعد میں نے انٹرنیٹ پر اردو محفل فورم میں شمولیت اختیار کرلی جہاں محترم اعجاز عبید صاحب نے میری بہت سی غزلوں کی اصلاح کی اور خود ان ہی کی پیشکش پر میں نے اعترافِ جرم نامی یہ کتاب جو 2010ء سے مکمل لیکن ناقص حالت میں میرے پاس موجود تھی، ان کو اصلاح کی غرض سے بھیجی۔ شروع شروع میں ان کی تنقید کو سمجھنا میرے لیے مشکل تھا لیکن میں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی تنقید کو جوں کا توں قبول کیا اور جو شعر مجھے اچھے بھی لگتے تھے، ان کے کہنے پر حذف کردئیے۔ آہستہ آہستہ میری غزل کے معیار میں جو بہتری آئی تھی، وہ مجھے محسوس ہونے لگی اور ناقص اشعار مجھے ڈھونڈے بغیر خود ہی دکھائی دینے لگے۔ میں محترم اعجاز عبید صاحب کے ساتھ ساتھ جناب محمد یعقوب آسی ؔصاحب کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے متعدد بار اردو محفل فورم میں میری شاعری پر تفصیلی رائے سے نوازا ہے اور اصلاح بھی تجویز کی ہے۔ بے شک شاعری کے میدان میں میرا کوئی باقاعدہ استاد نہیں لیکن یہ تینوں بزرگ یعنی محترم فیضاء الرحمٰن ، محترم اعجاز عبید اور محترم محمد یعقوب آسی میرے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں اور میں دل سے ان کی عزت اور احترام کرتا ہوں۔ اس موقعے پر مزمل شیخ بسمل، طارق شاہ، مہدی نقوی حجاز، محمد اسامہ سرسری ،محمد بلال اعظم اور محمد اظہر نذیر جیسے دوستوں کا تذکرہ نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی جو اردو محفل فورم پر میرے ساتھ رہے اور بہت سے مراحل پر میری رہنمائی فرمائی ۔
دیکھا جائے تو یہ بہت حیرت کی بات لگتی ہے کہ میری رہائش آجکل کراچی میں ہے، محمد یعقوب آسی صاحب ٹیکسلا (پنجاب ) میں ہیں، اعجاز عبید صاحب بھارت میں اور فیضاء الرحمن صاحب جدہ میں ہیں۔ میری بالمشافہ ملاقات ان تینوں محتر م افراد میں سے کسی سے نہیں ہوئی۔ صرف فیضاء الرحمٰن صاحب کی آواز سننے کا شرف حاصل ہوا ہے جبکہ دیگر دونوں ہستیوں سے میں نے آج تک صرف لکھنے (Chat) کے ذریعے بات کی ہے، پھر بھی اس کتاب کی تخلیق کو ممکن بنانے میں ان میں سے کسی بھی ہستی کا کردار فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ عموماً جب آپ اپنی شاعری انٹرنیٹ پر اپنے دوستوں کو دکھاتے ہیں تو اس پر ہمیشہ آپ کو تعریف سے نوازا جاتا ہے، جبکہ مجھے تعریف کے ساتھ ساتھ تنقید کی بھی ضرورت تھی جس نے میری شاعری میں ایک واضح تبدیلی پیدا کردی:
مرا مزاج بدلتا نہیں رواج کے ساتھ
میں اپنے کل کو بھی رکھتا ہوں اپنے آج کے ساتھ
خدا کرے کہ مری شاعری پھلے پھولے
اِسی روایت و جدت کے امتزاج کے ساتھ
(شاہدؔ)
شاعری کے میدان میں میری حیثیت ایک طالب علم کی سی ہے، کیونکہ آج بھی میں جس قدر ممکن ہو، اصلاح لینے کی کوشش کرتا ہوں، کیونکہ بعض اوقات شعر سے جو بات بیان کرنا مقصود ہوتی ہے، اس کی بجائے کچھ اور مفہوم نکل آتا ہےجسے سمجھنااور عیب دور کرنا ضروری ہے۔
تجھے شاعری سے شغف تو ہے مگر اے حسین! یہ شاعری
نہ فقط زبان کی بات ہے، نہ فقط بیان کی بات ہے
وہ جو فاصلوں کو سمیٹ دے، وہی اِک نظر ہی تو چاہئے
کہ زمیں سے عرش تلک سفر فقط اِک اُڑان کی بات ہے
(شاہدؔ)
میں نے اپنی ہی شاعری پر تنقید کرکے اسے بہترین اور خامیوں سے پاک کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے باوجود آپ کو اس کتاب میں کوئی خامی محسوس ہو تو میری آپ سے یہ گزارش ہوگی کہ اسے نظر انداز کرنے کی بجائے مجھے آگاہ کریں تاکہ اگر ممکن ہو تو میں اسے درست کرسکوں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والاہے اور غلطیاں کرنا بندے کی فطرت ہے۔ پھر بھی مسلسل مشق اور محنت سے انسان خامیوں اور کوتاہیوں سے بچ سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ "اعترافِ جرم" اردو شاعری کی ایک اچھی کتاب ثابت ہوگی ۔ ان شاء اللہ۔
شاہدؔ شاہنواز
12 مئی 2014ء
 
آخری تدوین:

بھئی، بلا مبالغہ ایک اچھا تعارف ہے۔ اپنا بھی اور آنے والی کتاب کا بھی۔ دل سے جو بات جیسی نکلی ویسی بیان ہو گئی، نہ بناوٹ نہ تصنع۔ اچھا لکھا ہے۔ ایک عادت بنا لیجئے کہ الفاظ کو بلا ضرورت جوڑ کر نہ لکھئے۔ مثلاً ’’آجکل‘‘ نہیں بلکہ ’’آج کل‘‘ لکھئے۔ اس مضمون میں کوئی ایسی بات نہیں جہاں انگلی رکھ سکوں کہ شاہد میاں یہ دیکھو یہ کیا کہہ گئے ہو۔ لفظیاتی ترجیحات تو ظاہر ہے ہر قلم کار کی اپنی اپنی ہوتی ہیں بلکہ ترجیحات کیا ہوتی ہیں اکثر اوقات الفاظ گویا کسی خود کار عمل کے تحت آتے ہیں، اس پر گرفت ہو بھی نہیں سکتی۔
مجھے آپ نے اعتبار بخشا، آپ کی محبت ہے۔ خوش رہئے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ماشاءاللہ
بلا شک و شبہ، بہت خوبصورت تعارف بھی اور "اعترافِ جرم" بھی۔۔۔
اور ساتھ میں معذرت بھی کہ 12 مئی کو شائع ہونے والے مضمون کا جواب 19 مئی وک دے رہا ہوں۔۔۔۔ وجہ صرف اتنی کہ تعلیمی مصروفیات کے باعث کبھی کبھار ہی چکر لگتا ہے اور کل ہی آیا تھا کافی دنوں بعد۔۔۔ اسے پِنڈ کر لیا تھا۔۔۔۔ ایک بار پڑھنا شروع کیا تو پورا ختم کئے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔۔
آخر میں بہت ممنون ہوں آپ کا شاہد بھائی کہ آُپ نے اپنے حلقۂ احباب میں جگہ دی۔ اصل خزانہ یہی محبتیں ہیں۔۔۔۔ باقی سب عارضی چیزیں ہیں۔
بہت ساری دعائیں آپ کے لئے کہ اللہ پاک آپ کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب و کامران کرے۔
سلامت رہیے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
احمد پور لمہ کو احمد پور شرقیہ کر دیجئے کہ عوام کی اکثریت اسے اسی نام سے جانتی ہے :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ماشاءاللہ
بلا شک و شبہ، بہت خوبصورت تعارف بھی اور "اعترافِ جرم" بھی۔۔۔
اور ساتھ میں معذرت بھی کہ 12 مئی کو شائع ہونے والے مضمون کا جواب 19 مئی وک دے رہا ہوں۔۔۔ ۔ وجہ صرف اتنی کہ تعلیمی مصروفیات کے باعث کبھی کبھار ہی چکر لگتا ہے اور کل ہی آیا تھا کافی دنوں بعد۔۔۔ اسے پِنڈ کر لیا تھا۔۔۔ ۔ ایک بار پڑھنا شروع کیا تو پورا ختم کئے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔ ۔
آخر میں بہت ممنون ہوں آپ کا شاہد بھائی کہ آُپ نے اپنے حلقۂ احباب میں جگہ دی۔ اصل خزانہ یہی محبتیں ہیں۔۔۔ ۔ باقی سب عارضی چیزیں ہیں۔
بہت ساری دعائیں آپ کے لئے کہ اللہ پاک آپ کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب و کامران کرے۔
سلامت رہیے۔
دیر آیددرست آید۔۔۔ بہت شکریہ۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ دو الگ الگ مقامات ہیں۔۔۔ لمہ کا مطلب ہے غربی، وہ تو الٹ ہوا۔۔۔
لمہ کس زبان کا لفظ ہے؟
سرائیکی میں لمہ اُبھا دو سمتیں، بنیادی طور پرلمہ، اُبھا، پچادھ اور پوادھ ہیں جو بالترتیب جنوب، شمال، مغرب اور مشرق کو ظاہر کرتی ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
لمہ کس زبان کا لفظ ہے؟
سرائیکی میں لمہ اُبھا دو سمتیں، بنیادی طور پرلمہ، اُبھا، پچادھ اور پوادھ ہیں جو بالترتیب جنوب، شمال، مغرب اور مشرق کو ظاہر کرتی ہیں

میری مادری زبان سرائیکی ضرور ہے لیکن زیادہ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ لمہ آپ کی رائے میں جنوب ہے، جہاں تک میں سمجھا، جبکہ ہم اسے مغرب ہی گردانتے آئے ہیں۔ احمد پور لمہ کو جب ہم انگریزی میں ترجمہ کرکے لکھتے ہیں تو احمد پور ویسٹ لکھتے ہیں، لیکن آپ کی تصریح کے بعد یہ بات تحقیق طلب ہو گئی ہے۔۔
 
اچھا مضمون ہے۔ اختلافات مجھے ہیں کئی ایک سطور سے، لیکن ان کا تعلق میرے اپنے ذہنی اور نفسیاتی معیارات سے ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ، بہت خوبصورتی سے مدعا کا اظہار کیا گیا ہے۔ اور اس پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ساتھ آپ نے شعر و شاعری پر جو فلسفہ پیش کیا ہے، وہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک جامع صورت اختیار کر گیا ہے، ایسے ہی کوئی دس بارہ مضامین لکھ کر آپ اس موضوع پر اپنی ایک باقاعدہ رائے قائم کر سکتے ہیں کہ شاعری کیا ہے۔ آپ کے نظریۂ شاعری سے مجھے شدید اختلاف ہے کہ لوگوں کے درد کو بیان کرے شاعر۔ شعر امید و بیم کی خوشبو کا نام ہے۔ میر کے علاوہ کوئی شاعر یاس دوستی اور قنوطیت پسندی کو شاعری میں ڈھال کر کامیاب شاعر نہیں بن سکا۔ میر کا بھی اپنا ایک پیچیدہ مسئلہ تھا۔ جہاں تک لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کی بات ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ شاعر اور مولوی سے بہتر مردم شناس دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ اس دکھ کو، بلکہ یہ دکھ تو پھر شاعر کا اپنا دکھ بن جاتا ہے دنیا کا دکھ نہیں رہتا، وہ اسے خود اس پر بیتتا محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کتنے ہی کرب سے گذر رہے ہوں، آپ شاعری میں اس کو پنپنے نہ دیں۔ آپ امید کی بات کریں آپ عذاب کے تذکرے کی جگہ نوید سنائیں۔ آپ امید کے چراغ روشن کریں۔ آپ یہ کہیں کہ: مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۔ یا ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا، یا وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ یا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

آخر میں اپنے احباب میں شامل رکھنے کے لیے تہہِ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔ خیر ہو۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اچھا مضمون ہے۔ اختلافات مجھے ہیں کئی ایک سطور سے، لیکن ان کا تعلق میرے اپنے ذہنی اور نفسیاتی معیارات سے ہو سکتا ہے۔ ان کے علاوہ، بہت خوبصورتی سے مدعا کا اظہار کیا گیا ہے۔ اور اس پر آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ساتھ آپ نے شعر و شاعری پر جو فلسفہ پیش کیا ہے، وہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک جامع صورت اختیار کر گیا ہے، ایسے ہی کوئی دس بارہ مضامین لکھ کر آپ اس موضوع پر اپنی ایک باقاعدہ رائے قائم کر سکتے ہیں کہ شاعری کیا ہے۔ آپ کے نظریۂ شاعری سے مجھے شدید اختلاف ہے کہ لوگوں کے درد کو بیان کرے شاعر۔ شعر امید و بیم کی خوشبو کا نام ہے۔ میر کے علاوہ کوئی شاعر یاس دوستی اور قنوطیت پسندی کو شاعری میں ڈھال کر کامیاب شاعر نہیں بن سکا۔ میر کا بھی اپنا ایک پیچیدہ مسئلہ تھا۔ جہاں تک لوگوں کے درد کو محسوس کرنے کی بات ہے، اس میں کوئی دورائے نہیں کہ شاعر اور مولوی سے بہتر مردم شناس دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ اس دکھ کو، بلکہ یہ دکھ تو پھر شاعر کا اپنا دکھ بن جاتا ہے دنیا کا دکھ نہیں رہتا، وہ اسے خود اس پر بیتتا محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کتنے ہی کرب سے گذر رہے ہوں، آپ شاعری میں اس کو پنپنے نہ دیں۔ آپ امید کی بات کریں آپ عذاب کے تذکرے کی جگہ نوید سنائیں۔ آپ امید کے چراغ روشن کریں۔ آپ یہ کہیں کہ: مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۔ یا ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا، یا وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ یا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

آخر میں اپنے احباب میں شامل رکھنے کے لیے تہہِ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔ خیر ہو۔

اپنے طور پر جو مجھے درست لگا، لکھ دیا لیکن آپ کی رائے کو دیکھتے ہوئے کچھ اصلاح ضرور کروں گا۔۔۔ تفصیلی رائے پر ممنون ہوں۔۔
 
Top