’’جب میری بیماری حد سے بڑھ گئی اور علاج کے لئے باہر جانے لگا تو میرے پاس جو رقم تھی وہ Invest کردی کہ بعد میں بچوں کے کام آئے گی اور بیگم صاحبہ کو بلا کر کہا کہ شاید زندہ پلٹ کر آؤں گا یا نہیں لیکن میری یہ دو نصیحتیں یاد رکھ لیں اور وصیت ہی سمجھ لیں کہ جھنگ کے مکانات بیچ کر ان سے حاصل شدہ رقم آپ کی ہوگی کیونکہ بہن بھائیوں کے حصے انہیں ادا کرچکا ہوں۔ یہاں تک کہ میں نے ابا جی کی لائبریری جو انہوں نے صرف مجھے دی تھی کی بھی قیمت لگوا کر ازروئے شرع اس میں سے بھی حصہ بہن بھائیوں کو دیا۔
دوسری وصیت یہ کی کہ اگر میرے بعد چاہیں تو دوسری شادی کی بھی اجازت ہے تاکہ بعد والی زندگی میں کوئی مشکل نہ آئے۔ بیگم صاحبہ روپڑیں اور کہا کہ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور اگر خدانخواستہ ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو میں بقیہ زندگی آپ کے نام پر ہی گزاروں گی۔ ان وصیتوں کے بعد میں امریکہ، علاج کے لئے چلا گیا علاج کروایا، آخری دن ڈاکٹرز مجھے اکیلے میں لے گئے۔ ڈاکٹر روزن فولڈ اور ڈاکٹر ٹائبر میرے معالجین میں سے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ کیا آپ اپنی بیماری کی نوعیت کی وجہ سے یہ جانتے ہیں کہ آپ کی کتنی زندگی باقی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کی زندگی زیادہ سے زیادہ 3ماہ سے 6ماہ تک ہے۔ اس سے زیادہ آپ کا دل کام نہیں کرسکتا اور موت یقینی ہے۔ ہم نے آپ کو اس لئے بتایا کہ آپ اپنی فیملی کے بارے میں منصوبہ سازی کرلیں۔ ڈاکٹروں کے ان ریما رکس کے بعد میں نے شیخ سعید صاحب (واشنگٹن ڈی سی) کو عمرہ کا ویزہ لگوانے کا کہا۔ امریکہ ایمبیسی نے یہ کہہ کر ویزہ لگانے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارا قانون نہیں، یہاں علاج کے لئے آئے ہیں اگر عمرہ کرنا ہے تو پاکستان سے ویزہ لگوا کر آئیں۔ میرے کہنے پر شیخ سعید صاحب دوبارہ گئے مگر اس مرتبہ بھی انہوں نے ویزہ لگانے سے انکار کر دیا۔
تیسری رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے حاضری کا اجازت نامہ مل گیا۔ اگلے دن میں نے پھر انہیں ویزہ لگوانے کے بارے میں کہا، انہوں نے کہا کہ میں وہاں نہیں جاؤں گا۔ دو مرتبہ وہ انکار کرچکے ہیں۔ اب مناسب نہیں۔ میں نے کہا کہ اب وہ انکار نہیں کریں گے۔ میرے اصرار پر وہ گئے اور ویزہ لگ گیا۔
63ء میں، پہلی مرتبہ والدین کے ساتھ حاضری پر گیا تھا اور اب 20سال بعد یعنی 83ء میں دوبارہ حاضری کے لئے گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حال عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی بارگاہ میں عمر اور زندگی مانگنے نہیں آیا۔ اگر کوئی ڈیوٹی / نوکری نہیں ہے تو زندہ رہنے کا خواہش مند میں نہیں اور اگر کوئی نوکری یا ڈیوٹی ہے آپ نے کچھ کام لینا ہے تو خود ہی بندوبست کرلیں اور عرض کیا کہ اگر زندہ رہا تو زندگی کا ایک سانس اور ایک لمحہ بھی کاروبار دنیا / معاش کے سپرد نہیں کروں گا اور آخری سانس تک آپ کی نوکری میں صرف کروں گا۔ واپس آیا تو ہارٹ کی ایجکشن فریکشن جو بہت زیادہ کم ہوگئی تھی اور زندگی کی امید ختم ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی 6ماہ کی مدت کے دوران ایجکشن فریکشن بتدریج بڑھتی چلی گئی ابھی 6ماہ کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ 17رمضان المبارک کی رات، نماز تراویح کے وقت میری حالت غیر ہوگئی۔
سجدہ میں گرگیا پھر اٹھ نہ سکا، مجھے اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دل نے تقریباً کام کرنا چھوڑ دیا۔ بلڈ پریشر اتنا نیچے جاچکا ہے کہ دل اسے اٹھا نہیں سکتا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ دل 6ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹروں کی بات پوری ہوگئی۔ 17رمضان کا دن آگیا میں نے گھر والوں سے کہا کہ آج مجھے روزہ رکھوا دیں کہ شاید آج بلاوے کا دن ہے، حالت غیر ہونے کے باوجود میں نے روزہ رکھ لیا۔
دوپہر کے وقت نیند میں تھا کہ ایک اور کرم ہوا اور اس دن سے ایک نیا سفر زندگی شروع ہوگیا۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کینسل کردی گئی اور اللہ کا امر جاری ہوگیا، اس کے بعد ہارٹ کی صورت حال بہتر ہونے لگی اور مزید 6ماہ میں ایجکشن فریکشن نارمل ہوگئی اور ڈاکٹرز ہر ہفتے چیک کرتے تھے اور وہ حیران رہ گئے۔ اس کے بعد امریکہ سے واپس آگیا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک وعدہ کرچکا تھا۔ لہذا اس وعدے کو نبھانے کے لئے اور زیادہ سے زیادہ وقت منہاج القرآن کو دینے کے لئے پنجاب یونیورسٹی لیکچرر شپ سے استعفٰی دے دیا اور پارٹ ٹائم لیکچرر شپ اختیار کرلی۔ اس طرح 7,6 سال فل ٹائم اور 7,6 سال پارٹ ٹائم 89ء تک پڑھایا۔ اس دوران Phd کی اور LLM تک پڑھایا۔
جب شادمان میں منہاج القرآن کا آغاز کیا تو 40سامعین ہوتے تھے۔ وسائل بالکل نہ تھے، شام کو خود جا کر دفتر کھولتا، کرسی، میز صاف کرتا، ڈاک کھولتا اس کو پڑھ کر جوابات دیتا۔ رجسٹر پر اندراج کرتا، پندرہ روزہ درسِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ پھر وہاں سے مسجد میں منتقل ہوگئے۔ حاجی سلیم صاحب اور شیخ رفیع صاحب اس زمانے میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے تھے۔
الغرض دفتر کے جملہ امور، کتابوں کو شائع کروانے کے تمام مراحل پروف ریڈنگ، پیسٹنگ، پریس تک لانا اور لے جانا، سٹالز کا اہتمام وغیرہ خود سرانجام دیتا۔ بعد میں حافظ محمد خان صاحب اور دیگر احباب آتے گئے اور ایک حلقہ احباب بن گیا پھر اطلاع ملی کہ شادمان میں ایک کنال کا پلاٹ 8 لاکھ میں فروخت ہو رہا ہے، خریدنے کا ارادہ کیا، پلاٹ کے مالک نے دو لاکھ ایڈوانس مانگے اور 6لاکھ کیلئے 3ماہ کی مدت دی۔
ہمارے 4ساتھیوں نے 50,50 ہزار روپے دے کر دو لاکھ اکٹھا کیا اور اسے ادا کرنے کے بعد ایگزیکٹو کی میٹنگ بلالی اور ان کے سامنے صورت حال رکھی۔ ایگزیکٹو نے جواب دے دیا کہ یہ ناممکن ہے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اور اس کے بعد مزید دس، پندرہ لاکھ روپے اس کی تعمیر کے لئے حاصل کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے۔ اس لئے ہم یہ Project نہیں لے سکتے۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ سے جتنا ہوسکتا ہے کریں باقی ذمہ داری میں اپنے سر لیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس ذمہ داری کو کس طرح پورا کریں گے۔ میں نے کہا کہ یہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن ہے جہاں انسانوں کی ہمتیں جواب دے جائیں گی وہاں اللہ اپنی خاص مدد و نصرت شامل کرے گا۔ میری اس بات پر انہوں نے ایگزیکٹو سے چندہ اکٹھا کیا اور ایگزیکٹو سے صرف 20ہزار روپے حاصل ہوئے۔
5 لاکھ 80 ہزار روپے بقایا تھا۔ اللہ کی خاص مدد ونصرت سے 3ماہ میں یہ رقم بھی ادا کردی۔ 8لاکھ کا پلاٹ منہاج القرآن کے نام رجسٹری ہوگیا۔ نقشہ نویس تعمیر کے لئے نقشہ بنارہا تھا کہ عیدالاضحٰی کے موقعہ پر جھنگ گیا۔ مجھے حاجی غلام نبی سعید اور مرزا نذیر صاحب کا فون آیا کہ ماڈل ٹاؤن میں LDA بیس (20) کنال کا پلاٹ 55ہزار روپے فی کنال کے حساب سے جگہ فروخت کر رہا ہے فلاں تاریخ کو اخبار میں اس کا اشتہار آیا تھا ہمیں آج اس بارے معلوم ہوا ہے اور کل اس کی آخری تاریخ ہے۔ آدھی رقم یعنی 6لاکھ 80ہزار روپے کا ڈرافت دے کر درخواست قبول ہوگی، پلاٹ اچھا ہے، آپ فوراً آجائیں۔ میں فوری طور پر لاہور آگیا۔ پلاٹ دیکھا، پسند آیا۔ اب اس کو خریدنے کے لئے دوسرا پلاٹ موجود تو تھا۔ مگر اس کا فوراً فروخت ہوکر رقم کا ملنا محال نظر آتا تھا۔ میں نے اس جگہ دو نفل پڑھے اور دعا کی کہ مولا! تیرے دین اور مصطفوی مشن کے مرکز کے لئے جگہ میں نے پسند کی اس کو خریدنے کا بندوبست تو کردے۔
دعا کرنے کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ ہمارے منہاج القرآن کے لئے مختص ہوگئی۔ انہوں نے پوچھا کیسے؟ میں نے کہا کہ اس بات کو چھوڑ دیں۔ صبح، حاجی غلام نبی سعید کے گھر اجلاس بلالیا۔ دن کے گیارہ بجے تک کوئی انتظام نہ ہوسکا۔ فیصلہ ہوا کہ ایک آدمی LDA کے دفتر میں چلا جائے یہ نہ ہو کہ دفتر کا وقت ختم ہوجائے وہاں جا کر کہے کہ ہم آدھی رقم کے ساتھ درخواست دے رہے ہیں۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ وہ درخواست فارم پُر کریں۔ قیمت کے سوال پر میں نے کہا کہ آپ ٹھیک دو بجے میرے پاس آجائیں اور رقم لے جائیں۔
انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے بندوبست کریں گے میں نے کہا کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں، ان کا انتظام کرنا میری ذمہ داری ہے۔ ٹھیک دو بجے میں نے انہیں 7 لاکھ روپے ادا کر دیئے، 2:45 پر درخواست داخل دفتر کی گئی اور منظور ہوئی۔ اس درخواست پر یہ پلاٹ جہاں آج سیکرٹریٹ اور مسجد واقع ہے کا پلاٹ حاصل کیا۔ بعد میں شادمان والا پلاٹ بیچ کر بقیہ رقم بھی ادا کردی اور تھوڑی بہت کمی بھی اللہ نے پوری کردی اور 14لاکھ روپے میں یہ پلاٹ خرید لیا گیا، پھر حضور پیر صاحب تشریف لائے تو سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب ہوئی اور سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
اس سے فراغت کے بعد یہ اطلاع ملی کی ٹاؤن شپ میں 250 کنال کی زمین ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ اتھارٹی فروخت کر رہی ہے اور 8ہزار روپے فی کنال کے حساب سے حکومت بیچنا چاہتی ہے اور ایڈوانس میں 8لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس کو بھی خرید لیتے ہیں اس جگہ یونیورسٹی بنائیں گے اس جگہ گئے، دیکھا، پسند کیا۔ دو نفل ادا کئے اور عرض کیا کہ مولا! منہاج القرآن یونیورسٹی کے لئے یہ جگہ عطا فرما دے۔ رات کو ہمارے منہاج القرآن کے رفقاء میں سے دو افراد دو، دو لاکھ روپے کا چیک لے کر آئے اور اس طرح صبح بھی دو افراد دو، دو لاکھ کا چیک لے کر آئے، اس طرح درخواست کے ساتھ یہ آٹھ لاکھ روپے بھی ادا کردیئے۔
8 لاکھ روپے ادا کرنے اور بعد میں بقیہ ادا کرنے کے بعد یہ زمین بھی حاصل کی۔ گھر میں فاقے چلتے تھے مگر مشن میں ہم لاکھوں کی اراضی خریدتے تھے۔ کبھی دوائی کے پیسے نہیں، کبھی روٹی نہیں، کبھی سالن نہیں، کبھی بچوں کے لئے دودھ نہیں۔ اس صورت حال میں جسم میں توانائی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شب و روز کو یاد کرتے تھے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فاقوں کو یاد کرکے ہم اپنے لئے توانائی کو حاصل کرتے تھے اور مشن کے لئے محنت کرتے تھے۔
مشن کے فروغ کے لئے ملک گیر تنظیمی دورے کرتا اور اس طرح مختلف مراحل میں، مختلف رنگوں میں سے گزرتے گئے اور مشن پھیلتا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ظاہری، دنیاوی مشکلات پیش آئیں۔ گھر میں مختلف معاملات، مالی مسائل، بیماریاں، فاقے، مشکلات پیش آتی رہیں اور اللہ کی خاص مدد و نصرت سے ان سے نکلتے چلے گئے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ کبھی بھی ان مسائل اور مشکلات کی وجہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی دل ودماغ پر کوئی بوجھ نہیں آیا۔ ملتا تھا تب بھی سکون میں تھے اور نہیں ملتا تھا تب بھی سکون میں تھے، شکر کرتے تھے، مشن کی لگن تھی، جنون تھا، جذبہ تھا اور اس زمانے میں خواب دیکھا کرتے تھے کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ افق عالم پر منہاج القرآن کا جھنڈا لہرائے گا۔ عالم یہ تھا کہ وسائل نہ تھے، تن تنہا مشن کو شروع کیا تھا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
دوست احباب ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ وہ زندگی کا کوئی اور ہی رنگ تھا۔ کئی سال بیت گئے اب زندگی کا دوسرا رنگ ہے، اس وقت لوگ میری ذاتی زندگی کے متعلق نہ جانتے تھے کہ اندر کیا ہے؟ اب جوں جوں مشن بلند ہوتا گیا۔ تو ہم نے ساری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کا فیض کھایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ (نصرت باالرعب)
’’اللہ نے میری مدد رعب و دبدبہ سے کی ہے‘‘ جب فاقے تھے اس وقت بھی اللہ نے مصطفوی انقلاب کے لئے اس مشن کو ایسا رعب و دبدبہ دے رکھا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ انہیں کس چیز کی کمی ہے، ہر چیز اللہ نے انہیں دے رکھی ہے، لاکھوں میں کھیلتے ہیں، یہ ظاہری رعب و دبدبہ تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ اتفاق فیملی نے انہیں ہر چیز دے رکھی ہے۔ مگر عالم یہ تھا کہ اگر وہ بچوں کے لئے کوئی تحفہ تحائف لاتے اس کا بدلہ چکانے کے لئے گھر کے زیور تک بیچنے پڑتے تو بیچ دیتے مگر بدلہ اتار دیتے تھے۔ وہ لوگ وسائل والے تھے، ہمارے پاس وسائل نہ تھے، عیدوں اور شادیوں کے موقعہ پر دوستی کو نبھانے کے لئے، ان کے بدلے اتارنے کے لئے زیورات کو پالش کرکے انہیں دے آتے تاکہ ہمارے اوپر احسان نہ رہے، بدلہ چکا دیا جائے، ایک مرتبہ میاں شریف صاحب نے کہا کہ اتفاق مسجد کے قریب ایک 8کنال کا پلاٹ ہے آپ میرے بھائی ہیں اجازت دیں تو ہم اپنی کوٹھیوں کے ساتھ آپ کی کوٹھی بھی تعمیر کردیں۔ آپ اللہ کے دین کے لئے وقف ہیں مگر آپ کی اولاد کے لئے ہی یہ کام کردیں۔ میں نے کہا کہ میاں صاحب مرتے دم تک یہ کام نہیں کروں گا۔ اب وہ سوال جو مخالفین کے پراپیگنڈہ کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ہے کہ TV پر خطاب اور شریف فیملی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تو اس حوالے سے یہ بتاتا ہوں کہ اسی دوران ڈاکٹر اسرار احمد نے بعض مذہبی مسائل پر کچھ فتوے دیئے کہ یہ ناجائز اور بدعت ہیں۔ ہاکی کے معاملے میں بھی انہوں نے کچھ بحثیں کیں۔ عورتوں کے معاملے میں بعض مسائل Discuss کئے۔ پہلے تو وہ شوریٰ کے ممبر تھے مگر بعد میں وہاں سے نکل آئے اور گورنمنٹ پر تنقید شروع کی۔ بدقسمتی سے انہوں نے بعض ایسے متنازعہ مسائل لئے کہ اس کے خلاف اختلافی آراء آنے لگیں۔ اس پر ضیاء حکومت نے ان کا الہدیٰ پروگرام ختم کر دیا۔ اس سے پہلے ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر صاحب کا ایک پروگرام تو چل رہا تھا جس سے ہزاروں کروڑوں عوام کو فائدہ بھی پہنچ رہا تھا۔ لوگ قرآنی تعلیمات سے آشنا بھی ہورہے تھے۔ اب اس وقت کی حکومت جیسی بھی غلط ملط تھی مگر اس نے اسلام کا لبادہ تو اوڑھ رکھا تھا۔ حکومت چاہتی تھی کہ ٹیلی ویژن پر اسلامی تعلیمات اور درس قرآن کا پروگرام جاری رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی Communication ان کی گفتگو اور درس ظاہر ہے کہ اچھے معیار کا تھا۔ اب حکومت کا خیال تھا کہ اس کی جگہ مزید بہتر چیز لوگوں تک پہنچائی جائے تب ہی وہ اسے قبول کریں گے۔ اس سلسلے میں ضیاء الحق یا کسی دوسرے نے مجھ پر نوازشات نہیں کیں اور یہ بھی اتفاق برادرز سے متعارف ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ میرا تو اتفاق برادرز اور میاں فیملی سے ابھی تعارف نہیں ہوا تھا کہ جب فہم القرآن ٹیلی ویژن پر آنے لگا تھا۔
بیچارے نواز شریف تو اس وقت وزیراعلیٰ ہی نہیں تھے وہ تو اس وقت صوبائی وزیر خزانہ تھے۔ اس کے علاوہ جو بھی کچھ کہتا ہے وہ جھوٹ اور کذب ہے۔ میں تو پوری داستان سنا رہا ہوں اس میں میں ذرا سی بات بھی مخفی نہیں رکھ رہا۔ بہر کیف الہدیٰ کے بعد حکومت کے لئے ایک مسئلہ بنا۔ مجھے بعض اسمبلی ممبران اور دوسرے لوگوں نے بتایا کہ بہت سارے لوگ ضیاء الحق صاحب اور راجہ ظفرالحق سے ملے اور انہیں کہا کہ آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کے درس قرآن کا سلسلہ ٹیلی ویژن پر شروع کریں۔ کیونکہ آپ کو ان کے Caliber کا اندازہ نہیں ہے۔ اس پر جنرل مجیب الرحمن سیکرٹری اطلاعات مجھے ذاتی طور پر آ کر ملے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم پاکستان کے ممتاز علماء کے درس قرآن ٹی وی کے لئے آزمائشی بنیاد پر شروع کررہے ہیں۔ آپ کی پورے ملک میں بڑی شہرت اور نام ہے اور قرآنی تعلیمات پر آپ اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں لہذا آپ بھی اپنا پروگرام ریکارڈ کروا لیں۔
چنانچہ ٹیلی ویژن والوں نے فہم القرآن کے نام پر میرے چار پروگرام اکٹھے ریکارڈ کئے۔ چاروں صوبوں کے ممتاز علماء کے درس قرآن بھی ریکارڈ کئے گئے تاکہ موازنہ کیا جاسکے۔ یہ سارے پروگرام اسلام آباد گئے جو کہ کمیٹی نے سنے۔ دوسرے علماء میں سے کسی کا بھی پروگرام انہیں Suit نہیں آیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے میرے پروگرام کو میرٹ کی بنیاد پر اوکے کیا۔ پھر مجھ سے دوبارہ درخواست کی جس کے بعد ٹیلی ویژن پر فہم القرآن شروع کیا گیا۔ اس میں کسی شخصیت کسی گھرانے اور کسی سیاسی جماعت کا کوئی دخل نہیں اور جو ایسا دعویٰ یا الزام لگائے وہ جھوٹ بولتا ہے۔
جب فہم القرآن آنا شروع ہوا تو میڈیا کے ذریعے میری آواز ملک کے گوشے گوشے تک پہنچی جس سے میرا حلقہ مزید بڑھا۔ اس سے پہلے میرا ادارہ منہاج القرآن قائم ہوچکا تھا۔ یہ وہی دور ہے کہ ابھی اتفاق برادرز سے میرا تعلق اور واسطہ بھی نہیں ہوا تھا اور میں نے اتفاق مسجد میں جمعہ شروع نہیں کیا تھا کہ جب مجھے ہفتہ وحدت کی تقریباًت میں شرکت کے لئے ایرانی انقلاب کے بعد حکومت ایران سے دعوت آئی۔ اس سال پورے پاکستان سے تنہا مجھے ہی دعوت آئی۔ اس دوران میں نے ایران کا دورہ بھی کیا بعد ازاں ناروے میں بھی میرے خطابات ہوئے۔ اوسلو میں بھی ہوئے جس کے نتیجے میں بائیس سے زیادہ افراد مسلمان ہوئے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے میرے کام کی عالمی سطح پر دھوم مچی۔
اس اثناء میں جب مجھے ایران کی دعوت آئی ہوئی تھی اور مجھے وہاں جانا تھا اس وقت میں تو اتفاق برادرز کو نہیں جانتا تھا اس دوران اتفاق برادرز نے اتفاق کالونی ایچ بلاک میں ایک مسجد بنائی تھی۔ مسجد بنانے کے بعد لاہور کے چند علماء سے باری باری جمعہ کا خطبہ دلواتے تھے مگر میں نے تو ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن دیکھا ہوا بھی نہیں تھا ان کی خواہش تھی کہ کوئی اچھا عالم خطبہ دے جس سے زیادہ لوگ آئیں اور یہ ایک اچھا مرکز بن جائے۔ اس سلسلے میں کسی نے ان کو تجویز پیش کی کہ قادری صاحب کا شادمان میں درس قرآن ہوتا ہے آپ فیملی کے لوگ جاکر انہیں سنیں۔ اس پر میاں شریف صاحب اور ان کی برادری کے دوسرے لوگوں نے چپکے سے آ کر میرے کچھ درس قرآن سنے اور چلے گئے۔ جس طرح ہزاروں لوگ آتے تھے اور سن کر چلے جاتے تھے۔ اس طرح اتفاق برادرز بھی چلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ دوسرے لوگوں کی طرح میاں شریف صاحب بھی میرے ساتھ مصافحہ کر رہے تھے تو قریب کھڑے ایک شخص نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میاں شریف صاحب ہیں اتفاق برادرز کے مالک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پہلے میں نے تھوڑا سا سن رکھا تھا کہ اتفاق برادرز کے کوئی صاحب ہیں وہ ہمارے پیر صاحب شیخ طریقت کے مرید ہیں۔ وہ ان کے بڑے بھائی تھے چنانچہ میں نے میاں شریف سے پوچھا کہ آپ کے کوئی بھائی ایسے بھی ہیں جو ہمارے بزرگ پیر السید طاہر علاؤالدین صاحب قبلہ کے مرید ہیں۔ میاں شریف نے کہا کہ ان کے بڑے بھائی حضور پیر صاحب کے مرید ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کے بعد اتفاق برادرز کے گھر میں باقاعدہ میٹنگ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ قادری صاحب سے کہا جائے کہ وہ ہماری اتفاق مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کریں۔ اتنی ساری Development کے بعد ان سے میرے تعارف کا آغاز ہوا تھا۔ یعنی اس سے پہلے منہاج القرآن بن چکا تھا اور ہمارے پورے کام کا پاکستان بھر میں ایک جال سا بچھ چکا تھا۔