حسان خان
لائبریرین
میری ہستی کا بتاؤ تم نتیجہ کیا ہوا
بعد مرنے کے بساطِ خاک کا دھبّا ہوا
نزع میں ہوں، ڈوبنے کو ہے ستارہ صبح کا
ایک آنسو دیر سے ہے آنکھ میں ٹھہرا ہوا
یہ ہوا کیسی چلی، تنکوں نے خود گھیرا مجھے
آشیانے سے مرے میرا قفس پیدا ہوا
قبر سے وہ دادخواہی کو اٹھے خونیں کفن
آفتابِ حشر نکلا خون میں ڈوبا ہوا
متصل جلووں نے تیرے کیں بساط آرائیاں
بجلیوں کی باڑھ پر اس راہ میں چلنا ہوا
ابر میں اور بجلیوں کی لہر میں اٹھا کوئی
بال بکھراتا ہوا، انگڑائیاں لیتا ہوا
دیکھتے ہی دیکھتے دھندلے ہوئے نقش و نگار
اے مری جاتی ہوئی دنیا، یہ تجھ کو کیا ہوا
منزلِ الفت میں اپنی محویت کے میں نثار
مجھ کو ہر رہ رَو پہ تیری شکل کا دھوکا ہوا
کس نے گھبرا کر الٹ دی اپنے چہرے سے نقاب
دیکھتا ہوں میں زمانے کا ورق الٹا ہوا
اس کو قشقہ جان کر مسرور تھے صورت پرست
نقش جب پیشانیِ دنیا پہ حرفِ 'لا' ہوا
یہ حجابِ زندگی اٹھے تو دیکھو کیا ہوں میں
اصل اگر پوچھو تو میں خود اپنا ہی پردا ہوا
عمر بھر کی جاں فشانی کا خلاصہ ہے یہی
جو پسینا نزع میں ماتھے پہ ہے آیا ہوا
عالمِ گورِ غریباں کیا معما ہے خدا!
کس سے پوچھوں حال، سارا شہر ہے سویا ہوا
یہ غزل پڑھتا ہوا مستانہ لہجے میں، عزیز
کوچۂ قاتل سے نکلا خون میں ڈوبا ہوا
(عزیز لکھنوی)
بعد مرنے کے بساطِ خاک کا دھبّا ہوا
نزع میں ہوں، ڈوبنے کو ہے ستارہ صبح کا
ایک آنسو دیر سے ہے آنکھ میں ٹھہرا ہوا
یہ ہوا کیسی چلی، تنکوں نے خود گھیرا مجھے
آشیانے سے مرے میرا قفس پیدا ہوا
قبر سے وہ دادخواہی کو اٹھے خونیں کفن
آفتابِ حشر نکلا خون میں ڈوبا ہوا
متصل جلووں نے تیرے کیں بساط آرائیاں
بجلیوں کی باڑھ پر اس راہ میں چلنا ہوا
ابر میں اور بجلیوں کی لہر میں اٹھا کوئی
بال بکھراتا ہوا، انگڑائیاں لیتا ہوا
دیکھتے ہی دیکھتے دھندلے ہوئے نقش و نگار
اے مری جاتی ہوئی دنیا، یہ تجھ کو کیا ہوا
منزلِ الفت میں اپنی محویت کے میں نثار
مجھ کو ہر رہ رَو پہ تیری شکل کا دھوکا ہوا
کس نے گھبرا کر الٹ دی اپنے چہرے سے نقاب
دیکھتا ہوں میں زمانے کا ورق الٹا ہوا
اس کو قشقہ جان کر مسرور تھے صورت پرست
نقش جب پیشانیِ دنیا پہ حرفِ 'لا' ہوا
یہ حجابِ زندگی اٹھے تو دیکھو کیا ہوں میں
اصل اگر پوچھو تو میں خود اپنا ہی پردا ہوا
عمر بھر کی جاں فشانی کا خلاصہ ہے یہی
جو پسینا نزع میں ماتھے پہ ہے آیا ہوا
عالمِ گورِ غریباں کیا معما ہے خدا!
کس سے پوچھوں حال، سارا شہر ہے سویا ہوا
یہ غزل پڑھتا ہوا مستانہ لہجے میں، عزیز
کوچۂ قاتل سے نکلا خون میں ڈوبا ہوا
(عزیز لکھنوی)