محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
میرے پر جو بیتی اس کا تعلق اس عدالتی کاروائی سے ہے۔ مطیع اللہ جان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
اسد علی طور
5 گھنٹے ago
آج 12 بج کر 40 منٹ پر صحافی دوست ناصر طفیل کو جیو نیوز کے دفتر سے ساتھ لیتے سپریم کورٹ پہنچے تو پارکنگ میں صحافی دوست محسن اعجاز سے ملاقات ہو گئی جو مطیع اللہ جان کے بڑے بیٹے کو ساتھ لے کر اندر جا رہا تھا۔ کمرہ عدالت کے باہر مطیع اللہ جان صحافیوں اور وکلا کے ایک بڑے جھمگٹے میں کھڑے تھے۔ ایک لمحے کے لئے کورونا ذہن میں آیا لیکن پھر ضبط نہیں ہوا اور سیدھا جاکر مطیع بھائی کے گلے لگ گیا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ صحافت میں مطیع اللہ جان میرے استاد بھی ہیں اور ان کے ماتحت کام کرنا ہی میرے کرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد کوئی سفارش اور نہ ہی کوئی خاندان کا بڑا میڈیا سے تعلق رکھتا تھا لیکن ماں کی دعاؤں کے صدقے اللہ میاں نے کبھی فل سٹاپ نہیں لگنے دیا۔ اس کے بعد کاشف عباسی، فہد حسین، ثنا بچہ، مبشر زیدی، عبدالشکور خان، وجاہت علی، مشکور علی، رضا رومی اور عنبر شمسی نے مجھے سکھایا اور اس مقام تک پہنچنے میں کردار ادا کیا۔
بہرحال مطیع بھائی اپنے سب سے بڑے بیٹے، بیٹی، بھائی اور بھتیجی کے ہمراہ توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنے سپریم کورٹ آئے تھے۔ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو سینیئر صحافی و اینکر حامد میر، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ، پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ، سابق صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار سمیت صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ سپریم کورٹ پریس اسوسی ایشن کے صدر عبدالقیوم صدیقی اور اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز اسوسی ایشن کے صدر عامر عباسی بھی اپنی اپنی اسوسی ایشن کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ پارلیمنٹ کی پریس گیلری کی نمائندگی ارشد وحید چوہدری کر رہے تھے۔
12 بج کر 58 منٹ پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی کمرہ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ مطیع بھائی پہلے سینیئر صحافی حامد میر کے ساتھ بیٹھے تھے، پھر کورونا ایس و پیز کی وجہ سے ایک نشست خالی کرنی پڑی تو میری نشست کے عقب میں موجود نشست پر آ کر بیٹھ گئے۔
بالآخر 1 بج کر 5 منٹ پر دربان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور ججز کے گاؤن اٹھا کر لے گئے۔ ایک بج کر سات منٹ پر دربان دوبارہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور آواز لگائی کہ کورٹ آ گئی ہے۔ ہم سب اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔ جسٹس مشیر عالم بائیں طرف اور جسٹس اعجازالاحسن دائیں ہاتھ جب کہ تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد آ کر مرکزی نشست پر بیٹھ گئے۔ اٹارنی جنرل اور مطیع اللہ جان روسٹرم پر آ کر کھڑے ہوگئے تو چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے سوالیہ انداز میں پوچھا جی اٹارنی جنرل صاحب؟ پھر چیف جسٹس بولے، مطیع اللہ جان خود بھی آئے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سوال پوچھا کہ ٹی وی پر چلا مطیع اللہ جان اغوا ہو گئے تھے۔ کیا ایسا ہوا؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ سر ایف آئی آر کٹ گئی ہے اور یہ واپس آ گئے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا خود چلے گئے تھے اور خود واپس آ گئے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بنچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے آبزرویشن دی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا، تو واپس آئے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ جی سر میرا بھائی مطیع اللہ جان آ گیا ہے اور صحیح سلامت واپس آ گیا ہے، فتح جنگ کے پاس سے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کیا مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی بیان ریکارڈ کرنا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتی محکمے کیا کر رہے ہیں؟ ابھی تک بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا؟ چیف جسٹس نے سر اٹھا کر کمرہ عدالت پر نظر ڈالتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی کو بلائیں، کیوں بیان ریکارڈ نہیں کیا ابھی تک؟
چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی کی درج کروائی ایف آئی آر پڑھتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس میں لکھا کہ اغوا کا سوموٹو کیس سے تعلق ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ مطیع اللہ جان کے بھائی کا بیان ہے۔ پاس کھڑے مطیع اللہ جان نے وضاحت کرنی چاہی تو چیف جسٹس گلزار احمد نے روک دیا اور ہدایت کی کہ آپ صرف توہین عدالت والے نوٹس پر بولیے گا۔
اسی دوران سابق گورنر پنجاب اور سینیئر قانون دان لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ روسٹرم کے پاس آ گئے اور مائیک کے سامنے آئے بغیر لطیف کھوسہ نے تین رکنی بنچ سے استدعا کی کہ ہم پاکستان بار کونسل کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالت نوٹس لے کہ کیا پاکستان کوئی بنانا رپبلک ہے جو دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھا کر لے گئے؟ لطیف کھوسہ نے بنچ سے درخواست کی کہ آپ حکومت کو ہدایت دیں کہ اغوا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیں۔
اٹارنی جنرل نے لطیف کھوسہ کی استدعا پر عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ لطیف کھوسہ دوبارہ بولے کہ سی سی ٹی وی وڈیو میں سب کے چہرے ہیں، ان کی شناخت ہونی چاہیے کہ وہ کون تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کے تحفظات اور گذارشات نوٹ کر لی ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ حکومت نے اب تک کیا ایکشن لیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر آئینِ پاکستان کے تحت ہر شہری کا جان و مال ریاست کی ذمہ داری ہے اور پولیس کو ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں۔
اب چیف جسٹس گلزار احمد نے انتہائی اہم ریمارس دیے کہ کوئی ایجنسی یا شخصیت قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہم ان تحقیقات کی رپورٹ لیں گے۔
اس کے بعد چیف نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان سے استفسار کیا کہ آپ نے توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دے دیا ہے؟ مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ اغوا ہونے کی وجہ سے جواب تیار نہیں کر سکا اور ابھی وکیل بھی کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کی استدعا قبول کرتے ہوئے عدالتی عملے کو آرڈر لکھوانا چاہا تو مطیع اللہ جان نے درخواست کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے چیف جسٹس گلزار احمد سے درخواست کی کہ مجھے آزاد، شفاف اور مکمل ٹرائل کا موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ تو کوئی کہنے والی بات ہی نہیں ہے۔ آپ کو مکمل، آزاد اور شفاف ٹرائل کا موقع ملے گا اور یہ ہماری جاب ہے کہ آزادانہ اور شفاف ٹرائل کو یقینی بنائیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اہم لقمہ دیا کہ حکومت آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتے ہیں لیکن عدالت کی عزت کا تحفظ بھی کریں گے۔
مطیع اللہ جان ایک بار پھر بولے اور کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر جوبیتی ہے، اس کا براہ راست تعلق اس توہین عدالت کی کارروائی سے ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ مطیع اللہ جان بولے کہ میں اغوا جو ہوا ہوں، اس کا براہ راست تعلق آپ کی عدالت سے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مطعیع اللہ جان کو ٹوکتے ہوئے ہدایت کی کہ آپ تحریری بیان جمع کروائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس اعجاز الاحسن کی بات میں اپنی ہدایت بھی شامل کر دی کہ آپ کو بیان دیتے وقت بہت محتاط رہ کر اور سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے آرڈر لکھواتے ہوئے حکومت سے ایف آئی آر پر قانون کے مطابق سخت ایکشن کی توقع کا اظہار کیا اور ایک موقع پر آرڈر میں جب چیف جسٹس گلزار احمد نے لکھوایا کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تو پاس سے جسٹس اعجاز الاحسن نے تصحیح کی کہ آپ لکھوائیں الزام ہے کہ اغوا ہوئے۔ مطیع اللہ جان نے دونوں ججز کو مخاطب کر کے کہا کہ میں مبینہ طور پر اغوا نہیں ہوا، بلکہ سب کچھ سامنے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن جواب دیا کہ ہم آپ کی بات مانتے ہیں لیکن یہ قانونی زبان ہے جو ہم استعمال کر رہے ہیں۔
ہم سب حیرت سے سن رہے تھے کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے آن کیمرہ، جب کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں اغوا کی تصدیق کی ہے لیکن پھر بھی الزام ہے کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے جب کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں پورا واقعہ ریکارڈ ہے۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ حکومت پر مت چھوڑ دے اور خود اس معاملے کو انجام تک پہنچائے۔ اس موقع پر لطیف کھوسہ نے طنزیہ انداز میں شعر بھی پڑھا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ بالکل ہم اس معاملہ کو یہیں نہیں ختم کریں گے۔
آرڈر لکھواتے ہوئے ایک موقع پر چیف جسٹس نے صرف مطیع اللہ جان لکھوایا تو پاس سے جسٹس مشیر عالم نے اغوا ہونے والے مطیع اللہ جان کے الفاظ جملے میں شامل کروائے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے دو ہفتوں بعد آئی جی اسلام آباد کو اغوا پر رپورٹ پیش کرنے اور مطیع اللہ جان کو توہین عدالت کا جواب دینے کی مہلت دے کر سماعت ملتوی کر دی۔
کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے تمام صحافیوں، اینکرز، میڈیا کے اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا کہ آپ سب کے آواز اٹھانے کی وجہ سے آج میں آپ سب کے درمیان کھڑا ہوں۔ مطیع اللہ جان نے یہ بھی کہا کہ جو اغوا کرتے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرے ساتھ کچھ ہو جاتا تو باقی سب صحافی ڈر جاتے تو میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں ایسا بالکل نہیں ہوگا۔
مطیع بھائی سے اغوا کے واقعہ پر بھی آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی لیکن انہوں نے درخواست کی کہ کیونکہ چیف جسٹس نے ابھی بیان ریکارڈ کروانے کا کہا ہے تو اس گفتگو کو رپورٹ مت کروں اور جب بیان ریکارڈ کروا دوں گا تو اس کی کاپی رپورٹ کر دینا۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نیا دور کے قارئین کے ساتھ اب سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے ریکارڈ شدہ بیان کو شیئر کروں گا۔ لیکن ایک بات ضرور بتاؤں گا کہ گفتگو کے دوران ایک لمحہ کے لئے بھی ایسا گمان نہیں ہوا کہ بازیابی کے بعد مطیع اللہ جان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو چکا ہے۔
میرے پر جو بیتی اس کا تعلق اس عدالتی کاروائی سے ہے۔ مطیع اللہ جان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
5 گھنٹے ago
آج 12 بج کر 40 منٹ پر صحافی دوست ناصر طفیل کو جیو نیوز کے دفتر سے ساتھ لیتے سپریم کورٹ پہنچے تو پارکنگ میں صحافی دوست محسن اعجاز سے ملاقات ہو گئی جو مطیع اللہ جان کے بڑے بیٹے کو ساتھ لے کر اندر جا رہا تھا۔ کمرہ عدالت کے باہر مطیع اللہ جان صحافیوں اور وکلا کے ایک بڑے جھمگٹے میں کھڑے تھے۔ ایک لمحے کے لئے کورونا ذہن میں آیا لیکن پھر ضبط نہیں ہوا اور سیدھا جاکر مطیع بھائی کے گلے لگ گیا۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ صحافت میں مطیع اللہ جان میرے استاد بھی ہیں اور ان کے ماتحت کام کرنا ہی میرے کرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد کوئی سفارش اور نہ ہی کوئی خاندان کا بڑا میڈیا سے تعلق رکھتا تھا لیکن ماں کی دعاؤں کے صدقے اللہ میاں نے کبھی فل سٹاپ نہیں لگنے دیا۔ اس کے بعد کاشف عباسی، فہد حسین، ثنا بچہ، مبشر زیدی، عبدالشکور خان، وجاہت علی، مشکور علی، رضا رومی اور عنبر شمسی نے مجھے سکھایا اور اس مقام تک پہنچنے میں کردار ادا کیا۔
بہرحال مطیع بھائی اپنے سب سے بڑے بیٹے، بیٹی، بھائی اور بھتیجی کے ہمراہ توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنے سپریم کورٹ آئے تھے۔ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو سینیئر صحافی و اینکر حامد میر، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ، پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ، سابق صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار سمیت صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ سپریم کورٹ پریس اسوسی ایشن کے صدر عبدالقیوم صدیقی اور اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز اسوسی ایشن کے صدر عامر عباسی بھی اپنی اپنی اسوسی ایشن کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ پارلیمنٹ کی پریس گیلری کی نمائندگی ارشد وحید چوہدری کر رہے تھے۔
12 بج کر 58 منٹ پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی کمرہ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ مطیع بھائی پہلے سینیئر صحافی حامد میر کے ساتھ بیٹھے تھے، پھر کورونا ایس و پیز کی وجہ سے ایک نشست خالی کرنی پڑی تو میری نشست کے عقب میں موجود نشست پر آ کر بیٹھ گئے۔
بالآخر 1 بج کر 5 منٹ پر دربان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور ججز کے گاؤن اٹھا کر لے گئے۔ ایک بج کر سات منٹ پر دربان دوبارہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور آواز لگائی کہ کورٹ آ گئی ہے۔ ہم سب اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔ جسٹس مشیر عالم بائیں طرف اور جسٹس اعجازالاحسن دائیں ہاتھ جب کہ تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد آ کر مرکزی نشست پر بیٹھ گئے۔ اٹارنی جنرل اور مطیع اللہ جان روسٹرم پر آ کر کھڑے ہوگئے تو چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے سوالیہ انداز میں پوچھا جی اٹارنی جنرل صاحب؟ پھر چیف جسٹس بولے، مطیع اللہ جان خود بھی آئے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سوال پوچھا کہ ٹی وی پر چلا مطیع اللہ جان اغوا ہو گئے تھے۔ کیا ایسا ہوا؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ سر ایف آئی آر کٹ گئی ہے اور یہ واپس آ گئے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا خود چلے گئے تھے اور خود واپس آ گئے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بنچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے آبزرویشن دی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا، تو واپس آئے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ جی سر میرا بھائی مطیع اللہ جان آ گیا ہے اور صحیح سلامت واپس آ گیا ہے، فتح جنگ کے پاس سے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کیا مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی بیان ریکارڈ کرنا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتی محکمے کیا کر رہے ہیں؟ ابھی تک بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا؟ چیف جسٹس نے سر اٹھا کر کمرہ عدالت پر نظر ڈالتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی کو بلائیں، کیوں بیان ریکارڈ نہیں کیا ابھی تک؟
چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی کی درج کروائی ایف آئی آر پڑھتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس میں لکھا کہ اغوا کا سوموٹو کیس سے تعلق ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ مطیع اللہ جان کے بھائی کا بیان ہے۔ پاس کھڑے مطیع اللہ جان نے وضاحت کرنی چاہی تو چیف جسٹس گلزار احمد نے روک دیا اور ہدایت کی کہ آپ صرف توہین عدالت والے نوٹس پر بولیے گا۔
اسی دوران سابق گورنر پنجاب اور سینیئر قانون دان لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ روسٹرم کے پاس آ گئے اور مائیک کے سامنے آئے بغیر لطیف کھوسہ نے تین رکنی بنچ سے استدعا کی کہ ہم پاکستان بار کونسل کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالت نوٹس لے کہ کیا پاکستان کوئی بنانا رپبلک ہے جو دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھا کر لے گئے؟ لطیف کھوسہ نے بنچ سے درخواست کی کہ آپ حکومت کو ہدایت دیں کہ اغوا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیں۔
اٹارنی جنرل نے لطیف کھوسہ کی استدعا پر عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ لطیف کھوسہ دوبارہ بولے کہ سی سی ٹی وی وڈیو میں سب کے چہرے ہیں، ان کی شناخت ہونی چاہیے کہ وہ کون تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کے تحفظات اور گذارشات نوٹ کر لی ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ حکومت نے اب تک کیا ایکشن لیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر آئینِ پاکستان کے تحت ہر شہری کا جان و مال ریاست کی ذمہ داری ہے اور پولیس کو ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں۔
اب چیف جسٹس گلزار احمد نے انتہائی اہم ریمارس دیے کہ کوئی ایجنسی یا شخصیت قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہم ان تحقیقات کی رپورٹ لیں گے۔
اس کے بعد چیف نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان سے استفسار کیا کہ آپ نے توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دے دیا ہے؟ مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ اغوا ہونے کی وجہ سے جواب تیار نہیں کر سکا اور ابھی وکیل بھی کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کی استدعا قبول کرتے ہوئے عدالتی عملے کو آرڈر لکھوانا چاہا تو مطیع اللہ جان نے درخواست کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے چیف جسٹس گلزار احمد سے درخواست کی کہ مجھے آزاد، شفاف اور مکمل ٹرائل کا موقع دیا جائے۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ تو کوئی کہنے والی بات ہی نہیں ہے۔ آپ کو مکمل، آزاد اور شفاف ٹرائل کا موقع ملے گا اور یہ ہماری جاب ہے کہ آزادانہ اور شفاف ٹرائل کو یقینی بنائیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اہم لقمہ دیا کہ حکومت آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتے ہیں لیکن عدالت کی عزت کا تحفظ بھی کریں گے۔
مطیع اللہ جان ایک بار پھر بولے اور کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر جوبیتی ہے، اس کا براہ راست تعلق اس توہین عدالت کی کارروائی سے ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ مطیع اللہ جان بولے کہ میں اغوا جو ہوا ہوں، اس کا براہ راست تعلق آپ کی عدالت سے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مطعیع اللہ جان کو ٹوکتے ہوئے ہدایت کی کہ آپ تحریری بیان جمع کروائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس اعجاز الاحسن کی بات میں اپنی ہدایت بھی شامل کر دی کہ آپ کو بیان دیتے وقت بہت محتاط رہ کر اور سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے آرڈر لکھواتے ہوئے حکومت سے ایف آئی آر پر قانون کے مطابق سخت ایکشن کی توقع کا اظہار کیا اور ایک موقع پر آرڈر میں جب چیف جسٹس گلزار احمد نے لکھوایا کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تو پاس سے جسٹس اعجاز الاحسن نے تصحیح کی کہ آپ لکھوائیں الزام ہے کہ اغوا ہوئے۔ مطیع اللہ جان نے دونوں ججز کو مخاطب کر کے کہا کہ میں مبینہ طور پر اغوا نہیں ہوا، بلکہ سب کچھ سامنے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن جواب دیا کہ ہم آپ کی بات مانتے ہیں لیکن یہ قانونی زبان ہے جو ہم استعمال کر رہے ہیں۔
ہم سب حیرت سے سن رہے تھے کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے آن کیمرہ، جب کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں اغوا کی تصدیق کی ہے لیکن پھر بھی الزام ہے کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے جب کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں پورا واقعہ ریکارڈ ہے۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ حکومت پر مت چھوڑ دے اور خود اس معاملے کو انجام تک پہنچائے۔ اس موقع پر لطیف کھوسہ نے طنزیہ انداز میں شعر بھی پڑھا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ بالکل ہم اس معاملہ کو یہیں نہیں ختم کریں گے۔
آرڈر لکھواتے ہوئے ایک موقع پر چیف جسٹس نے صرف مطیع اللہ جان لکھوایا تو پاس سے جسٹس مشیر عالم نے اغوا ہونے والے مطیع اللہ جان کے الفاظ جملے میں شامل کروائے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے دو ہفتوں بعد آئی جی اسلام آباد کو اغوا پر رپورٹ پیش کرنے اور مطیع اللہ جان کو توہین عدالت کا جواب دینے کی مہلت دے کر سماعت ملتوی کر دی۔
کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے تمام صحافیوں، اینکرز، میڈیا کے اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا کہ آپ سب کے آواز اٹھانے کی وجہ سے آج میں آپ سب کے درمیان کھڑا ہوں۔ مطیع اللہ جان نے یہ بھی کہا کہ جو اغوا کرتے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرے ساتھ کچھ ہو جاتا تو باقی سب صحافی ڈر جاتے تو میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں ایسا بالکل نہیں ہوگا۔
مطیع بھائی سے اغوا کے واقعہ پر بھی آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی لیکن انہوں نے درخواست کی کہ کیونکہ چیف جسٹس نے ابھی بیان ریکارڈ کروانے کا کہا ہے تو اس گفتگو کو رپورٹ مت کروں اور جب بیان ریکارڈ کروا دوں گا تو اس کی کاپی رپورٹ کر دینا۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نیا دور کے قارئین کے ساتھ اب سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے ریکارڈ شدہ بیان کو شیئر کروں گا۔ لیکن ایک بات ضرور بتاؤں گا کہ گفتگو کے دوران ایک لمحہ کے لئے بھی ایسا گمان نہیں ہوا کہ بازیابی کے بعد مطیع اللہ جان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو چکا ہے۔
میرے پر جو بیتی اس کا تعلق اس عدالتی کاروائی سے ہے۔ مطیع اللہ جان کا چیف جسٹس سے مکالمہ