"میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کہ سیّارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
سرِ کوئےِ نا شنایا
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا
اگر ایک بار ہوتا۔۔۔