فرضی
محفلین
میرا تعلق اٹک سے ہے اور میرے ضلع میں برتھ سرٹیفیکیٹ یا پیدائش نامے پر ماں کا نام درج نہیں کیا جاتا۔ کیا آپکے شہر یا ضلع میں بھی یہی قانون رائج ہے؟ کیا پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی بات ہے کہ پیدائش نامے پر فقط والد اور دادا کا نام لکھا جائے گا۔
بات اگر پاکستان کی حد تک ہوتی تو ٹھیک تھی کیوں کہ یہاں پر اکثر والد اور دادا کا نام کافی ہوتا ہے۔۔ لیکن باہر کے ممالک میں اگر آپکو اپنی ماں کے ساتھ رشتہ ثابت کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو کیا کرنا پڑےگا؟ پہلے تو فارم ب نامی ایک دستاویز جاری کی جاتی تھی جس پر خاندان کے تمام افراد کے کوائف درج ہوتے تھے خوش قسمتی سے اس پر ماں کا نام بھی لکھا ہوتا تھا تو اس سے کام بن جاتا تھا لیکن جب سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈون کا اجراء شروع ہوا ہے اس وقت فارم ب کا اجراء بھی روک دیا گیا ہے۔ اب 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو رجسٹریشن کا کائی سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے اور 18 سال یا زیادہ عمر کے افراد کے لیے قوم شناختی کارڈ کا اجراء کیا جاتا ہے۔
فرض کریں اگر آپ باہر کے ملک میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی والدہ کو بلانا چاہتے ہیں۔۔ آپکے پیدائش نامے میں اس کا نام نہیں ہے اپ نے پہلے سے فارم ب بھی نہیں بنایا اور اب بن نہیں سکتا۔۔ تو آپ کیسے ثابت کریں گے کہ یہ آپکی ماں ہی ہے؟ کیا یہ ماؤں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے کہ جس بچے کو جنم دیں پال پوس کر بڑا کریں اس بچے کو سرکاری طور پر بھی اس کا بیٹا نہیں کہہ سکتیں۔ ۔۔ کوئی دستاویز یہ ثابت نہیں کرتی کہ یہ اسی ماں کا بیٹا ہے؟ کیا سرکاری طور پر عورتوں کے ساتھ امتیازی قانون نہیں ہے؟ اگر ہے تو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس بات پر کبھی غور کیا ہے کی اس مسئلے کو کبھی اٹھایا گیا ہے؟
مجھے ایک حدیث یاد آرہی ہے جس کا مفہوم ایسا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اپنے بندو کو ماؤں کے نام کے ساتھ مخاطب کریں گے۔۔ تو جب اسلام عورتوں کو اتنا مقام عطا کرتا ہے ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے کب تک یہ فرسودہ قوانین لیے پھرتے رہیں گے؟
بات اگر پاکستان کی حد تک ہوتی تو ٹھیک تھی کیوں کہ یہاں پر اکثر والد اور دادا کا نام کافی ہوتا ہے۔۔ لیکن باہر کے ممالک میں اگر آپکو اپنی ماں کے ساتھ رشتہ ثابت کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو کیا کرنا پڑےگا؟ پہلے تو فارم ب نامی ایک دستاویز جاری کی جاتی تھی جس پر خاندان کے تمام افراد کے کوائف درج ہوتے تھے خوش قسمتی سے اس پر ماں کا نام بھی لکھا ہوتا تھا تو اس سے کام بن جاتا تھا لیکن جب سے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈون کا اجراء شروع ہوا ہے اس وقت فارم ب کا اجراء بھی روک دیا گیا ہے۔ اب 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو رجسٹریشن کا کائی سرٹیفیکیٹ دیا جاتا ہے اور 18 سال یا زیادہ عمر کے افراد کے لیے قوم شناختی کارڈ کا اجراء کیا جاتا ہے۔
فرض کریں اگر آپ باہر کے ملک میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی والدہ کو بلانا چاہتے ہیں۔۔ آپکے پیدائش نامے میں اس کا نام نہیں ہے اپ نے پہلے سے فارم ب بھی نہیں بنایا اور اب بن نہیں سکتا۔۔ تو آپ کیسے ثابت کریں گے کہ یہ آپکی ماں ہی ہے؟ کیا یہ ماؤں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے کہ جس بچے کو جنم دیں پال پوس کر بڑا کریں اس بچے کو سرکاری طور پر بھی اس کا بیٹا نہیں کہہ سکتیں۔ ۔۔ کوئی دستاویز یہ ثابت نہیں کرتی کہ یہ اسی ماں کا بیٹا ہے؟ کیا سرکاری طور پر عورتوں کے ساتھ امتیازی قانون نہیں ہے؟ اگر ہے تو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس بات پر کبھی غور کیا ہے کی اس مسئلے کو کبھی اٹھایا گیا ہے؟
مجھے ایک حدیث یاد آرہی ہے جس کا مفہوم ایسا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اپنے بندو کو ماؤں کے نام کے ساتھ مخاطب کریں گے۔۔ تو جب اسلام عورتوں کو اتنا مقام عطا کرتا ہے ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے کب تک یہ فرسودہ قوانین لیے پھرتے رہیں گے؟